ژاک دیریدا کا گنجلک فلسفہ اور حق و باطل کا معرکہ

جوں جوں یہ دنیا پیچیدہ ہورہی ہےتوں توں زندگی مشکل ہورہی ہے۔اکیسویں صدی کے فلسفیوں کو ہی لے لیں،اِن کی کوئی کَل سیدھی نہیں، ہر بات گنجلک ہے، ژاک دیریدا سے لے کر مائیکل فوکو تک، ہر کسی کی کوشش رہی کہ انوکھی اور نہ سمجھ میں آنے والی بات کی جائے تاکہ انہیں کلاسیکی فلسفیوں سے ممتاز اور بڑا سمجھا جائے ۔اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اِن جدید فلسفیوں نے نیا زاویہ پیش نہیں کیا،بلاشبہ انہیں یہ کریڈٹ دیا جائے گا مگر جس دقیق انداز میں انہوں نے اپنا نظریہ عوام کے سامنے رکھا اُس پر انہیں تنقید سے ماورا قرار نہیں دیا جا سکتا،خاص طور سے ژاک دیریدا اِس تنقید سے مستثنیٰ نہیں جنہیں اُن کے ہم عصروں نےفراڈ تک کہا۔دیریدانے چالیس کتابیں لکھیں، اِن کی نمائندہ کتاب Of Grammatology ہے، دیریدا کا کام اِس قدر پیچیدہ ہے کہ اُس پر تبصرہ کرنے والوں کوبھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ آخر کہنا کیا چاہتے ہیں ، ایسے ہی ایک مبصر نے دیریداکے فلسفے کے متعلق لکھاکہ ’دیریدا کے اپنے اصول کے مطابق یہ ناممکن ہے کہ اُس کے نظریات کو درست انداز میں سمجھا جاسکے۔۔۔‘آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ میں کیا بے وقت کی راگنی لے کر بیٹھ گیا ہوں، ملک میں گھمسان کا رَن پڑا ہے ، سیاسی جوڑ توڑ عروج پرہے ،کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ مستقبل کا منظر نامہ کیا ہوگا، معیشت کیسے چلے گی ، گورننس کس طرح ٹھیک ہوگی، حکومت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھےگا ۔۔۔

ایسے میں کسی کو کیا پڑی کہ سوچتا پھرے کہ ژاک دیریدا کا فلسفہ کیا تھا !جی ہاں، یہ اعتراض کیاجا سکتا ہے مگر کل رات جب میں جاک دیریدا کے نظریات سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا تب مجھے لگا کہ ہمارے ملک میں جو نفرت کی فضا قائم ہے اُس پر دیریداکی منطق کو لاگو کرکے کم کیا جا سکتا ہے ۔ ویسے یہ خالی خولی خوش فہمی ہے ، دیریداتو کیا اگر سقراط بھی قبر سے اٹھ کر آجائے تو ہم اُس کی بات اُس وقت تک ہی سنیں گے جب تک وہ ہماری ہاں میں ہاں ملائے گا، اُس کے بعد ہم بھی اُس کے لیے زہر کا پیالہ ہی تجویز کریں گے۔

دیریدانے اپنی کتابوں میں ’ڈی کنسٹرکشن ‘ کی اصطلاح متعارف کروائی ، اِس سے مراد یہ تھی کہ انسان کو ایک مرتبہ وہ تمام بُت پاش پاش کردینے چاہئیں جن کی وہ پرستش کرتا ہے ، چاہے یہ اُن نظریات کے بُت ہی کیوں نہ ہوں جن کے زیر اثر وہ اپنی زندگی کے کلیدی فیصلے کرتا ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ جسے وہ حق اور سچ سمجھتا ہو ،وہ اسے اُن راستوں پر ملے جن پر وہ کبھی چلا ہی نہ ہو۔دیریدا کا کہناتھا کہ کلاسیکی فلسفیوں نے غیر محسوس انداز میں کچھ چیزوں کے بارے میں یوں تبلیغ کی کہ ہم جان ہی نہیں پائے کہ کب ہم نے ایک چیز کو دوسری پر فوقیت دینی شروع کردی، نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری سوچ محدود ہوگئی۔ دیریدا کے مطابق ہماری سوچ میں گفتگو کو تحریر پر فوقیت حاصل ہوگئی ،عقل کو ہم جذبات سے برترسمجھنے لگے اور مردکو ہم نےعورت کے مقابلے میں افضل جانا۔ اُس نے کہا کہ اِس سوچ کی وجہ سے ہم اُن چیزوں کا روشن پہلو دیکھ ہی نہیں سکے جنہیں ہم اپنے تئیں کمتر سمجھتے تھے ، یعنی جب ہم نے یہ طے کر دیا کہ جذبات کے مقابلے میں ہمیشہ عقل سے کام لینا چاہیے تو گویا ہم نے جذبات کی افادیت سےکلیتاً انکار کردیا اور نتیجے میں ایک اہم قوت سے محروم ہوگئے۔دیریدا نے کہا کہ دنیا میں کوئی بھی بات خیر یا شر ، اچھائی یا برائی ، نیکی یا بدی ، کے پیرائے میں نہیں کی جا سکتی، کیونکہ انتہاؤں کے درمیان میں بھی سچائی پوشیدہ ہوتی ہے جس کی کھوج کرنا ہمارا کام ہے ۔

یوں سمجھیے کہ دیریدانے ہر اُس نظریے کی ڈی کنسٹرکشن کی جسے ہم درست سمجھتے ہیں اور جس کے لیے بظاہر کسی دلیل کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔مثلاً اکیسویں صدی میں یہ بنیادی اور تسلیم شدہ اصول ہے کہ انسانوں کے درمیان برابری ہونی چاہیے، یہ بات کم از کم غیر مساوی سلوک روا رکھنے سے تو بہتر ہی ہے۔دیریدا نے جب اِس کی ڈی کنسٹرکشن کی تو کہا کہ انسانی زندگی کی معراج محض مساوات سے عبارت نہیں ہے ۔میں فی الحال اِس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گاکہ تحریر پہلے ہی کافی بوجھل ہوچکی ہے ، اور خودکو اِس بات تک محدود رکھوں گا کہ نیکی اور بدی کی انتہاؤں کے درمیان بھی کہیں حق کی تلاش کرنی چاہیے ، سچ صرف وہی نہیں جس کی ہم پوجا کریں، یہ اُس جگہ بھی مل سکتا ہے جس کے بارے میں ہم نے کبھی سوچنے کی خواہش اور جستجو ہی نہیں کی ہوتی۔

ژاک دیریدا نے جو کچھ کہا ، یا کم از کم جو میں سمجھا ہوں، اُس سے مکمل اتفاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اُس صورت میں کوئی بھی ایسی بات باقی نہیں رہتی جس کو بنیاد بنا کر کہاجا سکے کہ اب ہم اسے درست مان کر آگے بڑھ سکتے ہیں، ویسےیہ بھی ممکن ہے کہ ایسی کوئی بات وجود ہی نہ رکھتی ہو۔لیکن ہم اِس بحث میں نہیں پڑتے اور دیریداکی اُس منطق سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سچائی دو انتہاؤں کے درمیان بھی پوشیدہ ہوسکتی ہے ۔اِس بات کو ایک اور مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، کمیونزم اور کیپیٹل ازم کی بحث سے۔کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام پر بے رحمانہ تنقید کی،اُس کی کتابوں نے دنیا میں آگ لگا دی، کئی ممالک میں انقلاب آیا، کمیونزم رائج ہوگیا مگریہ نظام بھی لوگوں کی زندگیوں کو بہتر نہ بنا سکا ، پھر کمیونزم پر تنقید ہوئی، نتیجے میں تبدیلی آگئی اور کمیونزم بھی ختم ہوگیا۔ جن ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام رائج تھا وہاں کمیونزم کی وجہ سے بہتری آگئی اور جو ممالک کمیونسٹ ہونے کا دعوٰی کرتے تھے وہاں سرمایہ دارانہ کمپنیوں نے رونق لگا دی۔حاصل بحث یہ کہ بہتری اِن دونوں نظامو ں کے درمیان کہیں تھی ،انتہاؤں میں نہیں ۔اب اسی کلیے کو اپنے ملک پر منطبق کرکے دیکھتے ہیں۔

ہمارے ہاں سیاست اب حق و باطل کا معرکہ بن چکی ہے ، ایک فریق کہتا ہے کہ وہ امام حسین کا ساتھی ہے جبکہ دوسرا فریق اُلٹا انہیں یزیدی ہونے کا طعنہ دیتا ہے ۔ہر بات اب سیاہ اور سفید کے تناظر میں ہوتی ہے ، ایک گروہ اگر حق پر ہونے کا دعویٰ کرتاہے تو اِس کا مطلب ہے کہ دوسرا سراسر باطل ہے۔کسی جماعت کے لیے یہ ممکن ہی نہیں رہاکہ وہ مخالف کی کسی بات کو درست تسلیم کرلے کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب اپنی شکست کی دستاویزپر دستخط کرنا ہے۔اِن حالات میں حقائق کی دہائی دینا بے سُود ہے کیونکہ جب آپ خود کو نیکی اور بدی کے معرکے میں فریق بنا لیں گے اوراپنے تئیں ’نیکی‘ کی پوشاک زیب تن کرکےسمجھیں گے کہ باقی سب لوگ بدی کے ساتھی ہیں تو ایسے میں ژاک دیریدا جیسا کوئی لاکھ چیختا رہے کہ سچائی دو انتہاؤں کے درمیان کہیں چھپی ہوئی ہے،جاکر تلاش کرو، تو نقارخانے میں دیریداکی آواز کوئی نہیں سنے گا۔لوگ اکثر پوچھتے ہیں کہ یہ تو ہوا مسئلہ ، اب اِس کا حل کیا ہے ، میرا جواب ہوتا ہے کہ پہلے آپ یہ تو مانیں کہ مسئلہ یہی ہے، ابھی تک تو ہم نے اِس مسئلے کو تسلیم ہی نہیں کیا۔ اور اگر ہم مان لیں کہ یہی مسئلہ ہے تو اِس کے حل کے لیے تمام فریقین کو بھاری قیمت چکانی پڑے گی، اُس سے پہلے کسی فریق، گروہ یا جماعت کو اندازہ نہیں ہوپائے گاکہ پانی سر سے کتنا گزر چکا ہے ۔دہائی سب دے رہے ہیں کہ حالات بے حد خراب ہیں، مگر اِن حالات کو درست کرنے کی صلاحیت کسی ایک فرد یا جماعت میں نہیں اور اِس کی وجہ وہی ہے کہ ہم دو انتہاؤں کے درمیان زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں ، ایسا نہیں ہوپائے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے