دنیا میں مختلف ادوار میں مختلف رنگ ونسل ، شکل و صورت، عادات و اتواراور خد و خال کے ساتھ ساتھ مختلف مزاج، صلاحیت حیثیت اور مذہب رکھنے والے انسان پیدا ہوئے۔ جبکہ انسانوں کوا س دنیا میں رہنے اورمعاشرے کو رہنے کے لائق بنانے کےلیے ان سب کا باہمی احترام کرنا ہے، جس میں مذاہب بھی شامل ہیں، جس کے لیے معاشرے میں عفو و درگزر اور مذہبی ہم آہنگی انتہائی اہمیت کی حامل ہے جبکہ بین المذاہب ہم آہنگی برقرار رکھنا ، تمام مذاہب کے ماننے والوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کیونکہ رنگ و نسل یا مذہب کی تفریق گہری ہونے سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی ایک خطہ زمین پر امن سے رہنے کی کئی مثالیں ہیں۔ ہمیں اختلاف رائے کو مخالفت بننے سے روکنا ہو گا۔ معاشرے کا تعلیم یافتہ طبقہ ہم آہنگی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہمیں باہمی تنوع کے ساتھ زندگی گزارنے کے آداب سیکھنے ہونگے۔ یہ صرف ایک خطے ،ملک یا قوم کے لیے نہیں بلکہ دنیا بھر میں بین المذاہب ہم آہنگی کا فروغ ضروری ہے۔ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو ایک دوسرے کے مذاہب کو جاننا ہو گا۔ جس کے لیے مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں میں وفود بھیجنا ہم آہنگی کے فروغ کیلئے اچھا قدم ہو گا۔
تمام مذاہب کے ماننے والوں کے مل بیٹھنے سے اجنبیت ختم ہوگی جبکہ کے پیرو کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر اکھٹا ہونا ہوگا ، ہر مذہب محبت و بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ ہر قسم کے تعصب کو چھوڑ کر اپنے دائرہ کار میں بہتری کی کوشش کرنا ہو گی اور یہ عمل ساری دنیا میں ہونا چاہیئے ۔ تا کہ جس دنیا میں ہم نے اور ہماری آئندہ نسلوں نے رہنا ہے۔ اس میں امن قائم ہو سکے اور طاقت یا اختیار کو کہیں بھی مذہب کے لیے استعمال نا کیا جائے کیونکہ طاقت یا اختیار تو ایک دن ختم ہو جائے گا، پھر جو چیز ختم ہو جانے والی ہے ،اس پر کیا گھمنڈ کرنا۔
اگر ہم سماجی ہم آہنگی کی بات کریں تو سماجی ہم آہنگی کی تعریف اس طرح سے کی جا سکتی ہے کہ معاشرے کی وہ صلاحیت جو اس کے افراد کے تحفظ اور فلاح کو یقینی بناتی ہے یعنی معاشرے کے افراد میں محرومی اور استحصال کو کم سے کم کر کے اختلافات اور تقسیم پر قابو پانا تاکہ معاشرے کے تمام افراد کی فلاح کو یقینی بنایا جا سکے۔ دراصل سماجی ہم آہنگی کا تعلق معاشرے کے مختلف گروہوں کے باہمی تعلقات اور اتحاد و یگانگت سے ہے۔ معاشرے میں عدم برداشت کا مقابلہ کرنے اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے طویل مدتی اور کم مدتی دو طرح کی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے اور دونوں طرح کے حکمت عملی میں جو شراکت دار ہیں۔
ان کے وسیع تر معاونت اور تعاون کی ضرورت ہے تا کہ انسانوں کو ان کے حقوق مل سکیں انسانی حقوق در اصل وہ حقوق ہوتے ہیں۔ جو رنگ و نسل جنس قوم ثقافتی گرو ہ زبان مذہب یا اور کسی مقام اور مرتبے کی تفریق کے بغیر سب انسانوں کو یکساں طور پر حاصل ہوتے ہیں۔ زندگی اور آزادی کا حق، غلامی اور تشدد سے آزادی کا حق، اپنے خیالات کے اظہار کی آزادی کا حق، کام اور تعلیم کا حق اور اسی طرح کے دیگر حقوق انسانی حقوق میں شامل ہوتے ہیں۔ ہر ایک کو تعصب کے بغیر ان حقوق حصول کا حق وغیرہ شامل ہیں ۔
جبکہ امن کے قیام کے لیے دوسرا بڑا عنصر برداشت ہے۔ جس کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ برداشت ایک ایسا رویہ یا پالیسی ہے۔ جو معاشرے کو باعزت طور پر ایسے لوگوں کو کھلے ذہن سے قبول کرنا ہے جن کا نقطہ نظر عملی سرگرمیاں عقائد نسلی یا ثقافتی پس منظر ایک دوسرے یا اکثریت سے مختلف ہوں، جن میں کمزور طبقات بھی شامل ہیں۔ یہ معاشرے کا وہ گروپ ہے جو کہ خاص طور پر استحصال کا شکار ہوتے ہیں یا بحیثیت مجموعی ریاست اور معاشرے کے مسترد کیے گئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان میں عام طور پر خواتین، لڑکیاں، بچے اقلیتیں، مسلمانوں کے اقلیتی فرقے، افراد باہم معذوری اور خواجہ سرا شامل ہیں۔
کسی بھی معاشرے میں امن کے قیام اور ترقی کے لیے وہاں رہنے والے تمام مذاہب ، مسالک ، رنگ و نسل کے لوگوں کا اخوت ،پیار بھائی چارہ ، محبت اور مذہبی ہم آہنگی کے ساتھ رہنا ضروری ہے ۔ ہمارے درمیان لاعلمی کے باعث نفرتیں پھیلتی ہیں۔ دوسروں کے مذاہب کو سمجھنے اور دیکھنے سے مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔مذہبی سکالرز ، سکھ کمیونٹی کے گرنتھی صاحبان پادری صاحبان ،پنڈت صاحبان یا علما کرام کو معاشرے میں الگ مقام حاصل ہے۔ ان کی باتوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ وہ بہترین مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اپنی مساجد، مندروں ، گردواروں ، گرجا گھروں سے مذہبی ہم آہنگی کے حوالے سے بڑا، اچھا پیغام دیا جا سکتا ہے۔
خصوصی طور پر ان امور پر کام کریں جو بین المذاہب مشترک ہیں ، کیونکہ ان پہلوؤں کی طرف بلانا آسان ہوتا ہے، جو دونوں میں یکسانیت کا پہلو رکھتے ہوں۔ بین المذاہب مشترکہ اخلاقی و انسانی اقدار کو پروان چڑھائیں۔میڈیا بھی بھر پور مثبت کردار ادا کرے ایسے پروگرامز اور ٹاک شو منعقد کیے جائیں جو معاشرتی امن و سکون کو بہتری کی طرف لے جائیں اور مذاہب کے ایسے افراد کو بلایا جائے، جن کی گفتگو اور شخصیت میں اعتدال پایا جاتا ہو۔
بین المذاہب مکالمات اور مشترکات کو فروغ دینے کے ذریعے سے امن وآشتی کا ماحول پیدا کیاجا سکتا ہے۔حقیقی امن و سلامتی کے لیے بلا امتیاز عدل و انصاف کے پیمانے کو لاگو کیا جائے ، ہر طرح کی محرومی کا بھی ازالہ کیا جائے، جذبہ خیر سگالی کے تحت بین المذاہب رواداری کے فروغ کے لیے معاشرے میں رہنے والی اقلیتی برادری کے ساتھ محبت اور تعلق میں اضافہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو بہتر انداز میں سمجھا جا سکے۔ ایسی آزادی رائے اور گفتگو جس سے معاشرے میں انتشار برپا ہونے کا خدشہ لاحق ہو، سے ہر ممکن پرہیز ضروری ہے۔نفرت ، بغض اور عداوت کوچھوڑ کر محبت اور شرف انسانیت کے مقصدپر بلا تفریق، کام کیا جائے۔انسانی جان،آبرو، مال کی حفاظت اور اہمیت کو جاگر کیا جائے ۔
دوسرے مذاہب اورکے ہاں مقدسسمجھی جانے والی کتب، ان کی عبادت گاہوں اورعقائد کا احترام کیا جائے۔
ہر مذہب کے ماننے والوں کو دوسرے مذہب سے متعلق شعور و آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ ، الفاظ کا استعمال، مثبت سوچ اور عمل کا شعور اجاگر کرتے ہوئے کیا جائے تاکہ ہمیں بحیثیت انسان دوسروں پر تنقید کرنے کی اور پھر اس پر بحث کرنے کی توانائی اور وقت بچا کر اسے اپنے مثبت کاموں اور اپنی و دوسروں کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے استعمال کرنا ہو گا تا کہ ہر کوئی نا صرف حقوق سے بلکہ فرائض سے بھی آگا ہی حاصل کر سکے اور جب حقوق اور فرائض مںتوازن ہو گا، معاشرے میں امن اور سکون قائم ہو سکے گا۔