پاکستان میں تقریباً 10 کروڑ سے زائد خواتین ہیں جبکہ دیہات میں تقریباً 6 کروڑ 40 لاکھ خواتین رہتی ہیں. دیہاتی خواتین کی بڑی تعداد شعبہء زراعت سے وابستہ ہے مگر بد قسمتی سے دیہی خواتین تہرے بوجھ اور استحصال کا شکار ہیں. دیہی خواتین گھر کا کام بھی کرتی ہیں اور کھیتوں میں بھی مزدوی کرتی ہیں. بچوں کو پیدا کرنے سے لے کر ان کی شادی تک کی ساری زمیداری مردوں کی نسبت خواتین پر ہوتی ہے. دیہی خواتین تعلیم ، صحت ، ہراسمنٹ ، ناسازگار ماحول ، سمیت بیشتر مسائل کا شکار ہیں. ان سب میں جسمانی تشدد اور ہراسمنٹ بھی برداشت کرتی ہیں .
(نزیر مائی )
گفتگو کے دوران نذیر مائی نے بتایا کہ میں 14 سال کی تھی، جب شادی ہوئی اس کا کہنا کہ ہمارے ہاں دیہاتی علاقوں میں بچیاں بہت جلدی میچور ہو جاتی ہیں. ان کو تعلیم جاب کی فکر تو ہوتی نہیں بس یہی بات ذہن میں ہوتی ہے کہ شادی کرنی ہے .بچے پیدا کر کے پالنے بھی ہیں. اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ تعلیم کی طرف رجحان ہو کیونکہ یہ سب کچھ ہماری پہنچ سے دور ہے. میری شادی ہوئی بچے ہوئے جن میں 10 بچے زندہ ہیں اور تین فوت ہو چکے ہیں .بچوں کی زمیداری کی وجہ سے میں پورے گاؤں کی روٹیاں تندور پر لگاتی ہوں اور اجرت کوئی فکس نہیں. جس کی وجہ سے کوئی اپنی خوشی سے دے جاتے ہیں تو ہم کھا لیتے ہیں جو نہیں دینا چاہتے تو لڑتے نہیں ہیں. مجھے لکڑیاں دے جاتے ہیں. بدلے میں پورے گاؤں کی روٹیاں تندور پر پکاتی ہوں. میرے بچے اور بچیاں بھی پیر صاحب کے گھر کام کرتے ہیں تو ان کو بھی ادھر سے کھانا مل جاتا ہے .محنت سے تو نہیں گھبراتی مگر پھر ہر کچھ دن بعد شوہر سے بھی پٹنا لازمی ہوتا ہے. 2۔ 4 دن مائکے رہ کر پھر بچوں کے پاس آنا پڑتا تو پھر سے وہی روٹیں شروع ہو جاتی .
(صغراں بی بی )
اسی طرح صغراں بی بی کے بھی 8 بچے ہیں. شوہر کا پیشہ دھول بجانا ہے تو اکثر وہ فارغ ہی رہتا ہے .صغراں بی بی اور اس کی بچیاں کھیتوں میں کام کرتی ہیں اور کچھ مالکوں کی گالیاں اور ڈانٹ بھی کھانی پڑتی ہیں. اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ بھی نہیں. جب مالک میری بچیوں کو گالیاں دیتے ہیں اور ڈانتے ہیں تو مجھے بہت دکھ ہوتا ہے مگر کچھ کہ نہیں سکتے کہ رہنا بھی ادھر ہے اور کام بھی یہی ہے تو منہ بند رکھنا پڑتا ہے. اگر منہ کھولیں گے تو کہاں جائیں گے. گھر بھی اپنا نہیں اس کا کہنا کہ میں کون سا اکیلی یہ سب برداشت کر رہی ہوں ،میرے جیسی اور بھی بہت سی خواتین اور بچیاں ہیں ان کا بھی یہی حال ہے تو میں کس بات کا غم کروں .
(نسرین مائی )
نسرین مائی تو اب پچاس سال کو پہنچ چکی ہے مگر وہ اب بھی اینٹوں کے بھٹے پر کام کرتی ہے، نسرین مائی کے بھی 10 بچے ہیں ایک بیٹی وٹہ سٹہ کی وجہ سے 2 بچوں کو لے کر ساتھ ریتی ہے. اب اس کا یہی مستقبل ہے کہ وہ اپنے پچوں کو پال پوس کر بڑا کرے نسرین مائی اور اس کے بچے بچیاں سب بھٹے پر کام کرتے ہیں اور مسلسل کئی سالوں سے کر رہے ہیں. اس کی وجہ یہ کہ بھٹے والے کے مقروض ہیں بھٹے پر کام زیادہ اور اجرت کم ہونے کی وجہ سے بار بار بھٹے والے سے ادھار لینا پڑتا ہے. جس کی وجہ سے ہم بھاگ نہیں سکتے .پہلے تو میں آرام سے کر لیتی تھی مگر اب میرے لیے مٹی کا گارا بنا کے اینٹیں بنانا مشکل ہو گیا ہے. نسرین بی بی بتاتے ہوئے رو پڑیں کہ 1000 اینٹ پر ہمیں اجرت 700 یا 800 ملتی ہے جو کہ ناکافی ہے مگر بھاگنے کا بھی نہیں سوچ سکتے. ورنہ وہ میرے بچوں پر تشدد کر کے اپنے قرض وصول کرے گا جو کہ ہم نہیں آدا کر سکتے سوائے اس کے کہ ہم روانہ بس کام پر جائیں.
المیہ یہ ہے کہ یہ صرف نذیر مائی ، صغراں بی بی ، اورنسرین مائی ، کی ہی کہانی نہیں یہ دیہاتی علاقوں میں بسنے والی لا تعداد مزدور خواتین کی کہانیاں ہیں. جو بچے پیدا کرتی ہیں، تشدد اور ہراسمنٹ کے ایسے ایسے مسائل کا شکار ہیں، جن کو وہ بتانا مناسب نہیں سمجھتیں.