سولر انرجی سسٹم سے زرعی پیداوار میں دوگنا اضافہ

36 سالہ محمد عاصم اس وقت اپنے نئے باغ میں سولر پینل کے ساتھ کھڑے ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ تقریباً 9 ایکٹر زمین سے سال میں صرف ایک دفعہ گندم حاصل کرتا تھا۔اور وہ بھی تب جب بارشیں زیادہ ہوتی تھیں۔گندم کبھی کم کبھی زیادہ ۔لیکن گندم کی کھٹائی کے بعد اگلے سال پھر گندم بوتا تھا۔عاصم کہتے ہیں کہ یہاں سے بجلی کے پول چھ سو کے انٹرنیٹ پر سولر پینل کے بارے میں ویڈیو دیکھی کہ کیسے کسان اپنی آمد زیادہ کرنے کیلئے سولر پینل کی مدد حاصل کرسکتے ہیں۔

ریسرچ کے بعد پتہ چلا کہ زرعی انجنیئرنگ ڈیپارٹمنٹ بھی کسانوں کو یہ سولر سسٹم لگ کے دے رہا ہے۔بقول عاصم ضلع سیکریٹریٹ بٹ خیلہ میں قائم دفتر سے انفارمیشن اور فارم حاصل کیا اور لوازمات پورے کرنے کے بعد بور مشین سے بور بنایا اور تین مہینوں کے اندر زمین پر پانی کا نظام برابر ہوگیا۔

پھر میں نے مالٹوں کے پودے لگائے ۔چونکہ پانی سارا دن دستیاب تھا، اس لئے باغ میں سبزیاں اگانا بھی شروع کیں۔یوں گندم کے بجائے سارا سال سبزی اگانے کا فیصلہ کیا اور جہاں نوکری کرتا تھا ادھر نوکری چھوڑ دی کیونکہ اکیلے اب چار لاکھ ایکڑ زمین سنبھالنا مشکل تھا۔عاصم کہتا ہے کہ پچھلے سال اسی زمین سے ڈبل آمدن حاصل کی اور ساتھ میں مالٹے کے لگائے گئے پودے بھی بڑھنے لگے ہیں۔

پیمانے کے حساب سے 43,560 مربع فٹ ایک ایکڑ کے برابر ہوتا ہے۔

محمد صدام نے 15 سال زمین لیز پر لی ، جس پر انھوں نے آڑو کے باغ لگائے ہیں۔باغ لگانے کے ساتھ ساتھ اس نے کنواں کھودا۔جس سے پانی نکالنے کیلئے اس نے بجلی کی موٹر لگائی۔موٹر کیلئے پرائیوٹ ٹرانسفارمر ضروری تھا۔صدام کے مطابق ٹرانسفارمر ،بجلی پول، تاروں اور اس کے لگانے پر 5 لاکھ سے زائد جبکہ کنواں کھودنے اور پانی کی موٹر لگوانے پر چھ لاکھ کا خرچہ آیا۔یعنی زمین سے پانی نکالنے پر 11 لاکھ تک کا خرچہ آیا۔صدام کے مطابق یہ سب کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا کیا اور اب گرمی میں لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا ہوتا ہے، جس کی وجہ سے پانی کی وہ ضرورت پوری نہیں ہوتی جو ہونا چاہیے تھی۔اب بجلی بھی مہنگی ہوگئی ہے ،جس کی وجہ سے اب صرف ضرورت کیلئے پانی نکالا جاتا ہے۔

زرعی انجنیئرنگ ڈیپارٹمنٹ صرف 15 فیصد پر سولر پلانٹ بمعہ لگاتے ہیں۔جس کیلئے دفتر سے فارم لیا جاتا ہے اور پٹواری کے زریعے تصدیق کے بعد (کہ کیا واقعی یہ زمین اس شخص کی ملکیت ہے) اس زمین پر کام شروع کیا جاتا ہے۔

دفتر حکام کے مطابق سولر سسٹم کیلئے فارم دفتر سے فری ملتا ہے۔فارم مکمل کرنے کے بعد زمین کے مالک کو کنواں کھودنے کے احکامات جاری کیئے جاتے ہیں، جس کی کمائی کم از کم 180 گے اور چوڑائی دس انچ سے کم نہ ہو۔اس کے بعد ٹسٹ کیا جاتا ہے، جس کے پاس ہونے کے بعد سولر کا کام کی جاتا ہے۔جس میں سولر کیلئے کمرہ اور چوکیدار کیلئے کمرا شامل ہے۔

اس پورے پراجیکٹ پر 20 لاکھ تک کا خرچہ آتا ہے اور یہ سارا خرچہ زمین کا مالک خود کرتا ہے۔پھر کراس چیک کے ذریعے مالک کو 85 فیصد رقم دی جاتی ہے۔یعنی مالک کو صرف 15 فیصد خرچہ اٹھانا پڑھتا ہے۔جو آرام سے پانچ دس سال گزارسکتے ہیں۔

ضلع ملاکنڈ میں سو سے زائد لوگوں نے اس پراجیکٹ سے فائدہ اٹھایا۔باغات میں سولر سسٹم لگانے پر چھوٹی زمین والے کسانوں نے چھوٹی سطح پر سولر سسٹم لگائے ہیں۔جس سے کسانوں نے انرجی کی کمی کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ زراعت سے ڈبل پیداور حاصل کرنا شروع کیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے