عمران خان اور اسرائیل

ابھی کچھ دیر پہلے دی ٹائمز آف اسرائیل کے نام سے ایک ویب سائٹ پر ایک بلاگ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس کا عنوان تھا:
”AN UNLIKELY ALLY: HOW IMRAN KHAN COULD SHAPE ISRAEL PAKISTAN RELATIONS”۔
یہ بلاگ آذربائجان کی ایک بلاگر اینور بشیرووا نے لکھا ہے۔

بلاگ کے اندر انہوں نے عمران خان کی فلسطینی کاز کے لیے پاکستان کی روایتی حمایت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ بطور وزیراعظم عمران خان نے اس پوزیشن کو برقرار رکھا۔تاہم، انہوں نے ایک دلچسپ دعویٰ کیا کہ عمران خان نے مبینہ طور پر اپنے سابقہ یہودی سسرال گولڈسمتھ فیملی کے ذریعے اسرائیلی حکام کو پیغامات بھیجے ، جس میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی رضامندی کا عندیہ دیا گیا۔ اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو یہ ایک بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔

عمران خان نے اسرائیلی حکام کو پیغامات بھیجے ہیں، اسرائیلی اخبار کا دعوی

مزید برآں، بشیرووا نے قیاس کیا کہ اگر عمران خان دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے ذاتی تعلقات اور اسٹریٹیجک نقطہ نظر کو اسرائیل اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے درمیان ثالثی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے ایک وسیع تر علاقائی تنظیم سازی میں مدد مل سکتی ہے۔

بلاگ کے آخر میں وہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو یہ مشورہ دیتی ہیں کہ وہ عمران خان کو دوبارہ پاکستانی سیاست میں شامل ہونے کی راہ ہموار کریں، تاکہ وہ ایک ”اعتدال پسندی کی آواز” بن سکیں۔ ان کے مطابق، عمران خان کی منفرد پوزیشن اور سوچ اسرائیل اور پاکستان کے تعلقات پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے۔

190 ملین پاؤنڈ کیس؛ عمران خان کا نیب ترامیم بحالی سے ریلیف لینے کا فیصلہ

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بشیرووا نے یہ بلاگ کیوں لکھا ہے اور اس کے پیچھے کیا مقاصد ہیں؟ کیا یہ کسی کے کہنے پر لکھا گیا ہے یا اس کے پیچھے کوئی اور سیاسی کھیل ہے؟ میرے لیے یہ سب بے حد مبہم ہے۔

میں نے متعدد کالمز میں وضاحت کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ جتنا عرصہ میں بطور میڈیا مینیجر تحریک انصاف میں عمران خان کے ساتھ رہا، میں نے انہیں ہمیشہ اسرائیل کی سخت مخالفت کرتے دیکھا۔ انہوں نے کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی کوئی تجویز قبول نہیں کی۔ ایک موقع پر وزیراعظم ہاؤس میں ایک میٹنگ کے دوران رؤف کلاسرا نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تجویز دی جسے عمران خان نے فوراً مسترد کر دیا۔ اس وقت وہاں حامد میر بھی موجود تھے، جو اس بات کے گواہ ہیں۔

یہ بات غور طلب ہے کہ اس بلاگ کا مقصد کیا ہو سکتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب عمران خان سیاسی طور پر مشکلات کا شکار ہیں۔ اسرائیل کے حوالے سے ان کا فرضی نرم گوشہ دکھانے کی کوشش کیوں کی جا رہی ہے؟ مجھے امید نہیں ہے کہ عمران خان کبھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے کوئی اقدام کریں گے۔

واٹس ایپ گروپ میں لڑائیاں

یہ بات بھی اپنی جگہ واضح ہے کہ اگر پاکستان میں کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی گئی تو عوام کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔پاکستان کی عوام کبھی بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی پر متفق نہیں ہوں گے، اور ایسی کوئی بھی تجویز پیش کی گئی تو اسے مسترد کر دیا جائے گا۔ عوامی جذبات ہمیشہ فلسطینی کاز کے ساتھ مضبوطی سے جڑے رہیں گے، اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو قبول کرنے کا کوئی امکان نہیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے