موسمیاتی تبدیلیاں ؛ 2045 میں دنیا پانی کی کمی کے باعث قحط کی لپیٹ میں ہوگی

موسمیاتی تبدیلی نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ،جہاں دنیا کے دیگر ممالک اس سے متاثر ہو رہے ہیں وہیں پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں ہے۔

گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلی کو دنیا بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں صحت کے لئے بڑا خطرہ قرار دیا گیا، دنیا کے ایک ارب بچے موسمیاتی بحران کے باعث ہائی رسک پر ہیں جبکہ پاکستان کی معیشت کو موسمیاتی تبدیلی سے سالانہ ایک ارب 80 کروڑ ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔

پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے مضر اور منفی اثرات کے مقابلے کے لیے متحرک ممالک کی صف اول میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے، تاہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جہاں پوری دنیا کو مختلف نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں، وہیں اس کی کوکھ میں بچوں کے حوالے سے بھی ایک خاموش بحران پلتا دکھائی دے رہا ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں بچے جن مسائل سے دوچار ہیں، ان کے بنیادی اسباب میں ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور غذائی قلت جیسے عناصر شامل ہیں۔ تشویش کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ردعمل میں بچوں کی ضروریات کو نظر انداز کرنا بھی ہے۔

اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کلائمٹ فنڈنگ کا محض 2.4 فیصد بچوں پر مرکوز سرگرمیوں کیلئے وقف ہوتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے وابستہ بچوں کے وسیع پیمانے پر پھیلے مسائل کے مقابلے میں بہت کم شرح ہے۔

پشاور سے تعلق رکھنے والے پروفیسر آف انوائرمینٹل اکنامکس اور سینٹر آف واٹر انفارمیٹک اینڈ کلائمٹ ریزیلینس ڈاکٹر محمد رفیق کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا میں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ خطے میں آٹھویں نمبر پر ہے کیونکہ پاکستان ٹراپیکل زون میں آتا ہے، جس کی وجہ سے یہاں کاربن کی کمی کے ساتھ غیر معمولی موسم کا بھی سامنا ہے، جس کی وجہ سے کاشتکاروں کو کافی مشکلات درپیش ہیں جیسا کہ سوات میں آڑو کے باغات میں وقت سے پہلے آڑو تیار ہو جانا ، بے موسمی بارشیں جن کے باعث فصلوں کا تباہ ہو جانا۔

ڈاکٹر محمد رفیق نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے حل کیلئے پاکستان کو صوبوں کے ساتھ رابطے بحال کرنے کے ساتھ ساتھ تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لیکر چلنا ہو گا اور اس کے متعلق ڈیٹا سمیت ہر شعبے میں آگاہی پر موثر انداز میں کام کرنا ہو گا۔

انیسویں صدی کے بعد سے آب و ہوا پر انسانی سرگرمیوں کے اثرات میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ جیواشم سے حاصل ہونے والی توانائیاں ، صنعتی پیداوار ، بے ہوش اور بے ہوش زمینی استعمال ، جنگل کی تباہی ۔۔ بہت سی انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافہ ہوا ہے۔ خود بخودکاری کی صلاحیت سے تجاوز کرنے کے نتیجے میں ، ناکافی قدرتی چکر جمع ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ گرین ہاؤسز گیس کو مضبوط بنانا خاص طور پر دنیا کے توانائی کے توازن پر واضح ہے۔ یہ اضافہ مثبت شعاعی تناؤ کا سبب بنتا ہے اور آب و ہوا کی خصوصیات میں تبدیلی کرتا ہے اور درجہ حرارت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔

آب و ہوا میں تبدیلی وہ اعدادوشمار کی تبدیلی ہے جو اوسطا آب و ہوا کی مقدار اور تمام رقبے اور وقت کے پیمانے کے دائرے میں رہتے ہوئے معیاری انحراف میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ تبدیلی داخلی اور خارجی عوامل پر مبنی ہے۔ بیرونی عوامل میں کرسٹل حرکت ، شمسی سرگرمیاں اور تعلقات شامل ہیں ، اور اندرونی عوامل میں بشری سرگرمیاں شامل ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی تعریف کے علاوہ ، اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلی کے فریم ورک کنونشن نے موسمیاتی تبدیلی کی تعریف انسانیت کے اثرات کے نتیجے میں کی ہے جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر ماحول کی تشکیل کو ہراس کا باعث بنتی ہے۔

آج کی آب و ہوا کی تبدیلی کا جائزہ عالمی حرارت کے دائرہ کار میں ہے۔ گلوبل وارمنگ ، ہائیڈرولک سائیکلون میں تبدیلی ، برف اور گلیشیرز کے پگھلنے ، تعدد / شدت کے لحاظ سے سطح کی سطح ، خشک سالی اور گرم ہوا کی لہروں میں اضافے ، انتہائی بارش اور سیلاب کا مشاہدہ اور ماحولیاتی نظام اور معاشرتی، ثقافتی، معاشی شعبوں کے منفی اثرات کا باعث ہے۔

پاکستان میں وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی اور ان سے نمٹنے کے لئے اجلاس کی صدارت کی، جس میں وزیر اعظم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے ایک جامع اور مؤثر لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے، ماحولیاتی تبدیلی زراعت، توانائی، پانی، انفرا سٹرکچر اور کئی دیگر شعبوں کے ساتھ منسلک ہے۔ وزیراعظم نے موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی کی اور ان سے نمٹنے کے لئے پاکستان موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام کی منظوری دی۔ اتھارٹی کے قیام کی منظوری پاکستان موسمیاتی تبدیلی ایکٹ 2017ء کے تحت دی گئی ہے۔

موسمیاتی تبدیلیاں کلائمٹ پر بڑی تیزی کے ساتھ اثر انداز ہو رہی ہیں۔ان تبدیلیوں سے بری طرح متاثر ہونے والے ممالک میں پاکستان سر فہرست ہے۔

پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی ایکٹ 2017ء میں بنایا گیا تھا، اب 7 سال بعد موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی قائم کی جا رہی ہے۔ اس دوران پانچ حکومتیں اس پر کام کرتی رہیں مگر فوری نوعیت کے متقاضی ایشوز کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ سپریم کورٹ نے کلائمٹ چینج اتھارٹی کے لئے فنڈز کے بندوبست کا بھی حکم دے رکھا ہے۔ایکٹ سے اتھارٹی بنتے بنتے سات سال لگ گئے۔ اب عملی اقدامات کے لیے ایک دن ضائع کرنے کی بھی گنجائش نہیں۔ 2009ء کی عالمی رپورٹ کے مطابق 2030ء تک ترقی پذیر ممالک میں پانی کی طلب 50 فیصد تک بڑھ جائے گی۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق 2025ء تک آدھی سے زائد دنیا پانی کی قلت اور کسی حد تک خشک سالی کا شکار ہو جائے گی۔ ایسی ہی رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر کلائمٹ کنٹرول کے عالمی سطح پر انتظامات نہ کیے گئے تو 2045 ء تک دنیا پانی کی کمی کے باعث قحط کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ موسمیاتی تبدیلیاں بھی پانی میں کمی کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں عالمی ایشو ہیں ان سے بچنے کے لئے پوری دنیا کو کردار ادا کرنا ہو گا تاہم اس سے پہلے کہ پانی کی کمی کے باعث صورتحال قحط سالی تک پہنچ جائے، پاکستان کو فوری طور پر اقدامات کا آغاز کرنا ہو گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے