نئی دہلی میں رہنے والی ایک بھارتی شہری کے لئے ڈھیروں ڈھیر مبارک باد اور دعائیں

کیا آپ گوگل سے مدد لیے بغیر بتا سکتے ہیں کہ کیرالہ کہاں ہے اور کیوں معروف ہے ؟

کیرالہ کا نام سماجی ترقیاتی شعبے سے وابستہ پروفیشنلز کے لئیے ایک رومانس بھی ہے . انٹرنیٹ پر کیرالہ کے حوالے سے معلومات کا ڈھیر ہے . بھارت میں سب سے کم مثبت آبادی کی رفتار رکھتا ہے. یہاں ایک جائزے کے مطابق سب سے زیادہ انسانی ترقی انڈیکس ، سب سے زیادہ رسائی کی شرح تعلیم، سب سے زیادہ عمر میں امید زندگی، اور سب سے زیادہ جنسی تناسب(1,000 مردوں پر 1,084 خواتین) ہے ۔ اور کیرالہ بھارت میں سب سے کم غربت زدہ ریاست ہے .

میں نے کیرالہ کو عورت کے حقوق کے حوالے سے پہچانا تھا. میری رائے کے حوالے سے متعارف ہوئی تھی. یہ ایک بھارتی معلمہ اور خواتین کے حقوق کی کارکن تھیں جو 1986 میں کیرالہ کی شامی مالابار نصرانی کمیونٹی میں مروجہ وراثتی قانون کے خلاف سپریم کورٹ کا مقدمہ جیتنے کے لیے مشہور ہیں۔

جیسے جیسے میرا پروفیشنل سفر طے ہوتا رہا کیرالہ سے میرا لگاؤ بڑھتا رہا . اس کی وجہ کوئی اور نہیں میری کی صاحبزادی ہیں جو ہولناک سچائی، چیرا کردینے والی سچائی سے اپنے افکار کوآراستہ کرتی ہیں.یہ ہیں اروندھتی جو تعلیمی ڈگری کے لحاظ سے ایک آرکٹیکٹ ہیں اور انگریزی میں لکھنے والی بھارتی مصنفین کی موجودہ نسل کی بہترین نمائندوں میں سے ایک مانی جاتی ہیں۔ ان سے ایک بھیڑ میں ملاقات بھی رہی اور ان کی کتابوں پر دستخط بھی حاصل کئے. شائد 2002 کی بات ہے، جب وہ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل میں صدر جنرل مشرف مرحوم کے "مارشل لاء ” کے دوران ایک ٹاک کے لئے موجود تھیں. ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی. اس دن پہلی بار ان کو بولتے ہوئے سنا اور اتنے برس بعد بھی یہ فیصلہ نہ کر پائی ہوں کہ وہ بولتی زیادہ اچھا ہیں یا لکھتی زیادہ اچھا ہیں ؟

رائے ایک ایسی منفرد سیاسی اور سماجی کارکن بھی ہیں جو انسانی حقوق اور ماحولیاتی مسائل اور دیگر مسائل پرلگی لپٹی رکھے بغیر ( شائد یہ وصف "محتاط ہونا ” اب امن کا نوبل پرائز "جیتنے ” کے لئے لازمی ہو ) بولتی ہیں،چلاتی ہیں اور مصلحت کا، منافقت کا تکلیف دہ سناٹا توڑتی ہیں ۔

ذَرا یہ ابتدائیہ ملاحظہ کریں جو انھوں نے 13 دسمبر 2023 کو بھارت میں منعقدہ ایک تقریب میں پی. گووندا پلّی ایوارڈ قبول کرتے ہوئے اپنی انگریزی تقریر میں ادا کیا.

"میں بھارت میں آزاد صحافت کےمرگ کے بارے میں بات نہیں کرنے جا رہی ہوں۔ یہاں موجود ہم سب اس بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں ان اداروں کے بارے میں بھی بات نہیں کرنے جا رہی ہوں جو ہماری جمہوریت کے نظام میں توازن اور جانچ پڑتال کے طور پر کام کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ میں یہ باتیں بیس سال سے کرتی آ رہی ہوں، اور مجھے یقین ہے کہ یہاں موجود آپ سب میرے خیالات سے واقف ہیں۔”

1959 میں شیلونگ، میگھالیہ میں پیدا ہونے والی سوزانا ارون دھتی رائے کے پہلے ناول "دی گاڈ آف اسمال تھنگز” کو ناقدین، ماہرین اور میڈیا کی بے مثال توجہ حاصل ہوئی۔ یہ وہی ناول ہے جس نے 1997 میں بکر پرائز برائے فکشن جیتا اور غیر ملکی بھارتی مصنف کے ذریعہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گئی۔ اس کے بعد یہ ایوارڈز کے لئیے خوش نصیبی رہی کہ رائے کا نام ان سے وابستہ ہے .

دی منسٹری آف اٹ موسٹ ہیپی نیس” بھی ان کی تصنیف ہے۔ بیس برسوں پر محیط ان کے مضامین کا مجموعہ "مائی سیڈیشیس ہارٹ” ہے ۔ ان کی کتاب "آزادی: فاشزم، فکشن، اور آزادی وبا کے دور میں” ہے، جسے یورپیئن ایسے(Essay) پرائز سے نوازا گیا۔مقبوضہ کشمیر پر ان کے موقف اور احتجاج نے ان کی مشکلات میں اضافہ بھی کیا ہے . اب جب کہ بھارتی حکام نے ان کے کئی سال پہلے کئے سیاسی تبصروں پر قانونی کارروائی کی منظوری دے دی ہے، ان کو ایک اور معتبر اور اعلیٰ ادبی انعام یعنی پنٹر/PEN جو نوبل انعام یافتہ، برطانوی ڈراما نگار، اسکرین رائیٹر، ڈائریکٹر اور اداکار ہیرولڈ پنٹر (1930-2008) کے نام پر ہے’ دیا گیا ہے.

ہیرولڈ پنٹر کے الفاظ میں یہ ایوارڈ ایک ایسے لکھاری /ادیب کو دیا جاتا ہے جو ” دنیا پر ‘بے لاگ، بے خوف’ نگاہ ڈالتا ہے اور ہماری زندگیوں اور ہمارے معاشروں کی ‘حقیقی سچائی’ کو واضح کرنے کے لیے ‘شدید فکری عزم’ دکھاتا ہے.” مجھے بے حد خوشی ہے کہ امسال یہ ایوارڈ ایک بہادر اور ذہین عورت کو ملا ہے .

رائے نے فلسطین پر بھی ہمیشہ کھل کر بات کی اور سات اکتوبر 2023 سے جاری شدہ نسل کشی پر وہ نامور افراد کی اس مختصر فہرست میں سر فہرست ہیں جنھوں نے اس بربریت کو دلیل کے ساتھ بے نقاب کیا اور مظلوم کے ساتھ کھڑی ہوئی ہیں.

کاش ہماری بہاری کمیونٹی میں بھی یا پاکستانی اردو سپیکنگ یا فیمنسٹ کمیونٹی یا پاکستانی ادیبوں یا صحافتی حلقوں میں بھی کوئی ایسی آواز ہوتی. یہ میری خواہِش کہیں یا حسرت یا کوئی اور معنی پہنا دیں .میں زندگی میں دھوکوں اور سازشوں سے اتنا سہم گئی ہوں کہ اب یہ التجا بھی میری اللہ کے حضور چند اپیلوں کا حصّہ ہے کہ اللہ نہ کرے کہ رائے بھی "فراڈ” نکلیں. پھر دل کو تسلی دیتی ہوں کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ فراڈیئےعیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں نا کہ ان کو ترک کرتے ہیں اور سیاست اور طاقت ور حلقوں میں مقبول ہوتے ہیں نہ کہ معتوب، وہ ڈپلومیٹک ہوتے ہیں ناکہ منہ پھٹ.

"بظاہر فلسطینی شہریوں کے لیے واحد اخلاقی کام مرنا ہے۔ ہمارے لیے قانونی طور پر واحد کام یہ ہے کہ ہم انہیں مرتے دیکھیں اور خاموش رہیں۔ اگر ہم ایسا نہ کریں تو ہمیں اپنی اسکالرشپس، گرانٹس، لیکچر فیس اور روزگار کے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔” ارون دھتی رائے.

نئی دہلی میں رہنے والی اس بھارتی شہری کے لئے ڈھیروں ڈھیر مبارک باد اور دعائیں.ارون دھتی رائے آپ انسانی حقوق اور آزاد صحافت کے لئے ایک نایاب ترین اعزاز اور امید کا دیا ہیں.

ڈاکٹر رخشندہ پروین-ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں. مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں. وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں. صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے . اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے . گزشتہ دس بارہ سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں پاکستانی بہاری محصورین کے کےحوالے سے آگاہی بیدار کر رہی ہیں .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے