حسینہ واجد نے مسکرانے کی کوشش کی لیکن مسکراہٹ جنم کے ساتھ ہی دفن ہوگئی ؟

شہید بی بی یاد آئیں ….

17 اگست 1988 کے روز بہاولپور سے واپسی پر اس وقت کے صدر جنرل ضیاء الحق صاحب کے طیارے کا حادثہ ہوا تو معروف نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے تاثرات جاننے کے لیے شہید بی بی سے رابطہ کیا۔ بی بی نے کہا کہ ہمارا اختلاف زندہ ضیاء الحق سے تھا ، یہ کہتے ہوئے بی بی کی آواز رندھ گئی ، وقت نے بتایا کہ بی بی ضیاء الحق اور ان کی باقیات سے آگے بڑھ گئیں تھیں ۔

بڑا انسان حالات میں نہیں پھنستا ، آگے بڑھتا ہے ۔ حسینہ واجد کے دور میں بنگلہ دیش کو معاشی ترقی اور استحکام ملا ، ہمارے ہاں اس ترقی کی مثال دی جانے لگی ، پاکستان میں معاشی ترقی اور استحکام کے لیے بنگلہ دیش ماڈل کی باتیں ہونے لگیں ۔ حسینہ واجد کے دور میں معاشی پالیسیوں کو عالمی اداروں کی طرف سے بھی داد بھی ملتی رہی لیکن ان کے دماغ میں انتقام گھس گیا تھا ۔ بنگالیوں نے انہیں نے ترقی پر دادا دی لیکن انہوں نے حسینہ کے ذہن میں گھسی آمرانہ سوچ کو قبول نہیں کیا ۔ حسینہ واجد کا دل اکہتر میں رک گیا تھا اور ان کا دماغ اسی کے آس پاس ہی کہیں پھنسا رہا ۔ ماضی میں الجھی حسینہ کو بے نظیر بھٹو نے ایک بار پاکستان بلایا تھا لیکن وہ اپنے لہجے کی نفرت اور کڑواہٹ سے یہاں بھی اپنے لیے کانٹے ہی بچھا کر گئیں ۔ وہ چاہتیں تو بڑی بن سکتی تھیں ۔

اپنی مرضی کے جج اور جرنیل لگانے والی حسینہ واجد کو کچن کیبنٹ کے جرنیل نے استعفی اور بیگ تیار کرنے کےلیے فقط پیتالیس منٹ ہی دیے تھے ۔ شیخ حسینہ واجد نے مشتعل ہجوم سے بچ نکلنے کے لیے سرکاری محل سے ہی ہیلی کاپٹر پر بیٹھیں . حسینہ نے اپنی نگرانی میں چند اٹیچیاں ملازمین کے ذریعے ہیلی کاپٹر میں لوڈ کروائیں اور پھر ایک نظر سرکاری رہائش گاہ پر ڈالی ۔ ہیلی پیڈ پر انہوں نے ایک بار مسکرانے کی کوشش کی لیکن سپاٹ چہروں نے ان کے چہرے پر مسکراہٹ کو جنم سے پہلے ہی دفن کر دیا ۔ ان کے دماغ نے ایک بار سوچا تو ہو گا کہ کیا وہ اسی سلوک کی مستحق تھیں ؟ ۔ ان کے ذہن میں اپنے آمرانہ اور انتقامی رنگ میں رنگے خون آلود کارناموں کی ریل ضرور چلی ہوگی .

کرنل قذافی یاد آگئے، جب انہیں ان کے گاؤں سرت میں سمینٹ سے بنے ایک پائپ سے نکالا گیا تو وہ پانی اور روٹی مانگ رہے تھے ۔ میں فروری 2011 میں ان کے قتل سے محض پانچ ماہ پہلے لیبیا میں ان سے مل کر آیا تھا۔ اپنے لیے یہ ماحول غیروں کے ساتھ ساتھ انہوں نے خود بھی بنایا تھا ۔ کاش لوگ طاقت کے وادی میں گھسنے سے پہلے یہ جان پاتے کہ نفرت اور انتقام کے جذبات کا انجام کیا ہوتا ہے ۔

حسینہ واجد کے بیٹے نے اعلان کیا ہے کہ ان والدہ شدید مایوس ہیں ، اور اب سیاست میں کبھی بھی حصہ نہیں لیں گی ۔ ادھر بنگلہ دیش کے صدر کے حکم سے حسینہ واجد کے عتاب کی شکار سابق وزیر اعظم خالدہ ضیاٗ کو رہا کر دیا گیا ۔

حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمان سے لوگ پیار کرتے تھے ۔ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی ۔ ان کے والد بڑے آدمی تھے لیکن حسینہ واجد نے بڑا بننے کے تمام موقعے بھر پور طریقے سے ضائع کیے ۔ جس شیخ مجیب کو بنگالی قوم کا باپ کہتے تھے ، آج حسینہ واجد کی وجہ سے لوگ ان کے والد کے مجسمے گرا رہے تھے ۔

طاقت عقل کو کھا جاتی ہے ، انسان طاقت میں وہ غلطیاں کرتا ہے کہ اسے دشمنوں کی ضرورت ہی نہیں رہتی ، وہ خود گر جاتا ہے اور وقت اس کے گرنے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے ۔ ان تصویروں کو غور سے دیکھیں ، طاقت کے مراکز میں بیٹھنے والوں کو یہ تصویریں اپنے گھروں اور دفتروں میں ضرور آویزاں کرنی چاہییں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے