مشرق وسطی کی اصطلاح میں تقریباً تمام عرب ممالک برصغیر پاک و ہند وغیرہ شامل ہیں، مشرق وسطی اور اس سے منسلک اسلامی ممالک کے لیے عظیم مشرق وسطی کی سیاسی اصطلاح استعمال کی گئی ہے. جس میں روایتی مشرق وسطی کے علاوہ ترکی، اسرائیل، افغانستان اور پاکستان بھی شامل ہیں۔ یہ اصطلاح 2004ء میں جی 8 کے اجلاس میں امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش نے استعمال کی تھی۔
پاکستان اور بھارت پورے خطے میں ایٹمی طاقت کے طور پر ایک خاص اہمیت رکھتے ہیں، خصوصاً اسلامی جمہوریہ پاکستان مسلم دنیا میں واحد ایٹمی طاقت اور اپنے ایک خاص محل وقوع کی وجہ سے مزید اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی دنیا کے ساتھ ساتھ مغرب چین ، روس جیسی طاقتوں کی بھی دلچسپی پاکستان میں رہتی ہے۔ دوست ممالک پاکستان کی ہمیشہ مدد کرتے ہیں، اور مختلف اعلیٰ سطح کے وفود آتے جاتے رہتے ہیں۔ کئی وفود تو خاص سفارتی ، معاشی، تجارتی، کھیلوں کے فروغ اور بین الاقوامی تعلقات کی بہتری کے لیے دنیا بھر میں آتے جاتے ہیں۔ لیکن کوئی وفد ایسا بھی آ سکتا ہے جو سربراہان مملکت سے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے.
جیسا کہ سات اگست کو مسجد نبوی ﷺ کے امام و خطیب شیخ صلاح البدیر مدظلہ آٹھ روزہ دورے پر پاکستان تشریف لائے۔ آپ مسجد نبوی ﷺ کا امام ہونے کی وجہ سے پوری امت مسلمہ کے رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آپ کی ملاقات سربراہان مملکت سے لے کر پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت تک، پاکستان اور سعودی عرب کے وفود کی سطح پر ملاقات سے لے کر، پاکستان کے نام ور علماء کرام سے مختلف امور پہ خصوصی اجلاس و مشاورت تک، جمعہ کے خطبہ سے لے کر مدارس کے اساتذہ سے گفتگو تک ہر جگہ ایک چیز قدرے مشترک نظر آئی۔ کہ ہر جگہ پہ سعودی وفد کو فلسطین ، کشمیر ، برما وغیرہ میں ہونے والے مظالم پہ نا صرف متوجہ کیا گیا بلکہ اس سلسلے میں اِن کو واقعی قائدانہ کردار ادا کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا۔
پارلیمنٹ میں آپ کو مخاطب کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی مولانا فضل الرحمٰن نے کہا، ہم آپ کو یہ حق دیتے ہیں کہ آپ اسلامی دنیا کی قیادت کریں، اور امت مسلمہ کی رہنمائی کریں، کشمیر، برما، غزہ اور فلسطین میں مسلمانوں کو درپیش مسائل ہیں، ہم سجھتے ہیں، کہ پاکستان اور سعودی عرب مل کر عالمی سطح پر ان معاملات کو ایک آواز بن کر اٹھائیں اور سعودی عرب میں یہ قوت موجود ہے کہ عرب لیگ کے فورم پر ان مسائل کو اٹھائیں اور مسلمانوں کے پر امن مستقبل کے لیے سوچیں۔ ملک کے تمام بڑے کردار اور علماء کرام خصوصاً وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے علماء کرام نے بھی اس جانب خصوصی توجہ دلائی اور کہا کہ فلسطین اور کشمیر جیسے امہ کے مسائل حل کرنے کے لیے سعودی عرب قائدانہ کردار ادا کرے۔ ان ملاقاتوں میں سعودی عرب کے سفیر بھی ہمراہ تھے یہ تو یقینی بات ہے کہ اگر پاکستان اور سعودی عرب کی قیادت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے لیں اور مغرب خصوصاً امریکہ پہ دباؤ ڈالیں کہ وہ ہر حال میں غزہ میں خونریزی روکنے کے لیے عملی کردار ادا کرے۔
تو امید واثق ہے کہ تقریباً گیارہ ماہ سے جاری ظلم و ستم رک سکتا ہے۔ غاصب صہیونی ریاست کی طرف سے دس اگست کو مسجد پہ بمباری پھر 11 اگست اتوار کے روز بھی رہائشی عمارتوں اور مہاجر کیمپوں پر بمباری کا سلسہ جاری رہا جس میں متعدد افراد شہید اور زخمی ہوگئے ۔ اس دوران حماس نے امریکا، قطر اور مصری ثالثوں سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ مزید مذاکرات کے بجائے پہلے سے طے شدہ جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے، یہ جنگ بندی معاہدہ امریکی صدر جوبائیڈن کی طرف سے پیش کیا گیا تھا جس پر سلامتی کونسل میں بھی اتفاق ہوگیا تھا۔ اب یہ مطالبہ اور جنگ بندی کے لیے مغربی دنیا سے بھی بھرپور آواز اٹھ رہی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ کی بدترین نسل کشی صہیونی ریاست کی طرف سے کی جا رہی ہے جس کی مُہار امریکہ کے ہاتھ میں ہے۔ آج بھی اگر طاقت ور اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان ، سعودی عرب ، قطر ، ترکی کی طرف سے مشترکہ طور پر امریکہ کو وارننگ دے دی جائے تو انسانیت کا یہ قتلِ عام رُک سکتا ہے۔ مصر ثالثی کا کردار تو ادا کر رہا ہے لیکن وہ امریکہ اور اسرائیل کی مرضی کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتا، کیوں کہ وہ معاشی طور پہ ان ہی طاقتوں کا مرہون منت ہے۔ معاشی حالات تو پاکستان کے بھی اتنے بہتر نہیں ہیں لیکن پاکستان ایک طاقت ور اور اپنا واضح مؤقف رکھنے والی ریاست کے طور پر جانا جاتا ہے، جس کی ماضی میں ہمارے پاس کئی مثالیں موجود ہیں۔
چار پانچ سال قبل ہندوستان نے در اندازی کی کوشش کی تو اس کو ایسا سبق سکھایا گیا کہ عالمی سطح پر اُسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا، اسی طرح کئی ایسے وفد پاکستان آتے ہیں جن کا ذکر شہ سرخیوں یا میڈیا پر تو نہیں آتا، اس لیے کہ وہ صہیونی طاقتوں کا نشانہ بھی ہو سکتے ہیں۔ لیکن دشمن ایجنسیاں خبر تو رکھتی ہیں، خبر رکھنے کے باوجود حملہ کرنے کی جراءت کوئی بھی نہیں کر سکتا۔ جس کی مثال ہم اسماعیل ہنیہ کی شہادت سے بھی لے سکتے ہیں۔ اگر یہ ہی قیادت دورہ پاکستان پہ ہوتی تو اسرائیل سمیت کسی بھی طاقت ور قوت کی جراءت نہیں تھی کہ وہ پاکستان میں کاروائی کرے۔ کیوں کہ اُنہیں اندازہ ہے کہ پاکستان صرف بیانات اور مزمت تک محدود نہیں رہے گا بلکہ قرار واقعی سزا دینے کی اہلیت بھی رکھتا ہے۔ غاصب صہیونی ریاست نے اسماعیل ہنیہ کو ایران میں میں اپنے آلہ کاروں کے ذریعے نشانہ بنایا۔ اسرائیل کی یہ حالیہ دہشت گردی کا مقصد ایران کو امریکی اور اسرائیلی مفادات پر حملے اور جوابی انتقامی کارروائیوں کے لیے اُکسانا ہے تاکہ امریکہ اور اسرائیل کو ایران کی فوجی اور ایٹمی تنصیبات پر حملوں کا جواز مل سکے۔
امریکہ اور اسرائیل اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ایران کی فوجی، اقتصادی، جوہری طاقت کمزور اور مشرق وسطیٰ میں ایرانی پراکسی ختم کیے بغیر خطے میں اپنے مفادات حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اسرائیل کے ہاتھوں حماس رہنما اسماعیل ہنیہ کا تہران میں قتل نہ صرف ایران کے لیے شرمندگی کا باعث ہے بلکہ اس کی سیکورٹی ایجنسیوں کی صلاحیتوں پر بھی سوالیہ نشان ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ایران کا ردعمل کیا ہوگا، خطے میں بڑھتی کشیدگی کیا رنگ لائے گی اور مستقبل میں اس کے کتنے بھیانک نتائج نکل سکتے ہیں۔ اگر ایران جوابی کارروائی کرتا ہے تو فوری ردعمل میں امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے بڑے پیمانے پر فضائی حملے کئے جائیں گے اور ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا جائے گا۔ امریکہ پہلے ہی اپنا بحری بیڑہ اور درجنوں جنگی طیارے خطے میں بھیج چکا ہے اور کشیدگی میں اضافے کی صورت میں امریکہ مزید بحری بیڑے اور جنگی طیارے خلیج فارس روانہ کرے گا۔ موجودہ صورتحال سے پاکستان بھی براہ راست متاثر ہوگا۔
ایسی صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پورے خطے کو آگ میں جھونکنے کی بجائے عالمی سطح پر فی الفور آواز بھی اٹھائی جائے۔ یہ امریکہ ہی ہے جو بڑی چالاکی کے ساتھ اسرائیل کی بھر پور مدد بھی کر رہا ہے اور برائے راست اس میں اُلجھنے سے گریز بھی۔ اس تناظر میں مسلم دنیا کا واحد پلیٹ فارم او آئی سی عرب ممالک خصوصاً اوپیک میں شامل ممالک کو اس بات پہ رضا مند کیا جائے کہ صہیونی ریاست کی اصل مُہار پکڑنے والے امریکہ کو چوبیس گھنٹے کی ڈیڈ لائن دی جائے۔ تا کہ کشت و خون کا یہ کھیل فی الفور بند کروایا جائے ورنہ تمام ممالک امریکہ ، اسرائیل اور اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ ہر قسم کی فضائی و سمندری تجارت کے بائیکاٹ کا اعلان کریں۔
بہ قول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے:
”اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِؐ ہاشمی
اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامن ِدیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی!“