کسی بھی انقلاب کا جائزہ لیتے ہوئے دو اہم پہلوؤں کو دیکھا جاتا ہے. پہلا یہ کہ اُس انقلاب سے قبل کیا صورتحال تھی اور دوسرا یہ کہ اس انقلاب کے نتائج کیا نکلے؟ یعنی بعد کی کیا صورتحال رہی؟
آج کے اس کالم میں ہم نے اسلام کا جائزہ لینا ہے کہ اسلام کے پوری دنیا پر بالعموم اور عرب دنیا پر بالخصوص کیا اثرات مرتب ہوئے؟
سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ رسالت مآب ص کی آمد سے پہلے کیسا تھا اس جہاں کا منظر؟اس حوالے سے تہذیب کا قابل قدر مؤرخ ڈینی سن اپنی کتاب Emotion as the basis of civilization میں لکھتا ہے کہ؛
"اُس وقت ایسا دکھائی دیتا تھا کہ تہذیب کا وہ قصر، جس کی تعمیر میں چار ہزار برس صرف ہوئے تھے، منہدم ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا اور نوع انسان ایک مرتبہ پھر اُسی بربریت کی طرف لوٹ جانے والی تھی، جہاں ہر قبیلہ، دوسرے قبیلے کے خون کا پیاسا تھا اور آئین و ضوابط کو کوئی جانتا تک نہیں تھا. قدیم قبائلی آئین و مسالک، اپنی قوت و احترام کو کھو چکے تھے. اس لئے اب ملوکیت کے پرانے طریق و انداز کا سکہ دنیا میں نہیں چل سکتا تھا. عیسائیت نے جن قواعد و ضوابط کو رائج کیا تھا وہ نظم و ضبط اور وحدت و یکجہتی کے بجائے بربادی و ہلاکت کا موجب بن رہے تھے. غرضیکہ وقت وہ آ چکا تھا جبکہ ہر طرف فساد ہی فساد نظر آتا تھا. تہذیب کا وہ بلند و بالا شجر، جس کی سر سبز و شاداب شاخیں کبھی ساری دنیا پر سایہ فگن تھیں اور فنون ، سائنس اور ادب کے سنہری پھلوں سے لدی ہوئی تھیں، اب لڑکھڑا رہا تھا.
عقیدت و احترام کی زندگی بخش نمی اس کے تنے سے خشک ہو چکی تھی اور وہ اندر تک سے بوسیدہ اور کھوکھلا ہو چکا تھا. جنگ و جدال کے طوفان نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے تھے، جو صرف پرانی رسموں کے بندھن سے یکجا کھڑے تھے اور جس کے متعلق ہر وقت خطرہ تھا کہ یہ کسی بھی وقت گر سکتا ہے. کیا ان حالات میں کوئی ایسا جذباتی کلچر پیدا کیا جا سکتا تھا؟ جو نوع انسان کو ایک مرتبہ پھر ایک، نقطے پر جمع کر دے اور اس طرح تہذیب کو مٹنے سے پچا لے. اس کلچر کو ایک نئے انداز کا ہونا چاہیے تھا، اس لئے کہ پرانی رسومات و آئین سب مردہ ہو چکے تھے اور انہی جیسے اور قوانین کا مرتب کرنا صدیوں کا کام تھا. یہ امر موجب حیرت و استعجاب ہے کہ اس قسم کا نیا کلچر عرب کی سرزمین سے پیدا ہوا اور اُس وقت پیدا ہوا جب اس کی اشد ضرورت تھی”.
اب یہاں سوال یہ ہے کہ یہ نیا کلچر یعنی اسلام، کس قسم کا انقلاب لایا؟
اس سوال کا جواب کارلائل نے اپنی کتاب Heros and hero worship میں دیا ہے،جس میں وہ اسلام کے عرب دنیا پر اثرات کا تذکرہ کرتا ہے . وہ کہتا ہے کہ؛ عربوں کے لیے یہ انقلاب ایک نئی زندگی تھی جو انہیں تاریکیوں سے نور کی طرف لے آئی تھی. عرب اس کے ذریعے پہلی مرتبہ زندہ ہوا. ایک ایسی قوم جو ابتدائے آفرینش سے گمنامی کے عالم میں ریوڑ چراتی پھرتی تھی، اُس کی طرف ایک رسول آیا ،جو اپنے ساتھ ایک پیغام لایا، جس پر وہ قوم ایمان لے آئی. وہ دیکھو! وہی گمنام چرواہے، دنیا کی ممتاز ترین قوم بن گئے. وہ حقیر قوم ایک عظیم الشان ملت میں تبدیل ہو گئی.
محض ایک صدی کے اندر عرب ایک طرف غرناطہ اور دوسری طرف دہلی تک چھا گئے. اس کے بعد صدیاں گزر گئیں یہ اُسی شان و شوکت اور درخشندگی و تابندگی سے کرۂ ارض کے ایک عظیم حصے پر مسلط ہیں. وہ عرب، یہ محمد ص اور صرف ایک سو سال کا عرصہ! کیا یہ انقلاب ایسا ہی نہیں، جیسے ریت کے کسی گمنام ٹیلے پر آسمان سے بجلی آ گرے اور وہ ریت کا تودہ دیکھتے ہی دیکھتے آیک آتشگیر مادہ میں بدل کر اس طرح بھک سے اڑ جائے، کہ دہلی سے غرناطہ تک اُس کے شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے. نوع انسان خشک نیستاں کی طرح ایک شرارہ کے انتظار میں تھی. وہ بجلی کا شرارہ اس بطل جلیل کی صورت میں آسمان سے آیا اور تمام نوع انسان کو شعلہ صفت بنا گیا”.
یہ تھا اسلام کا برپا کردہ، عرب دنیا میں انقلاب. اب یہ دیکھیں کہ اسلام جب مکے کی چوٹی سے نکل کر دنیا میں پھیلا تو باقی اقوام عالم میں کیسا انقلاب برپا کیا؟ اس حوالے سے Briffault اپنی کتاب The making of humanity میں لکھتا ہے کہ؛
” یورپ کی نشاۃ ثانیہ پندرھویں صدی میں نہیں بلکہ اُس وقت ہوئی جب یورپ عربوں کے کلچر سے متاثر ہوا. یورپ کی خلقت جدیدہ کا گہوارہ اٹلی نہیں بلکہ اندلس ہے. ادھر روما کی تہذیب گرتے گرتے بربریت کی حد تک پہنچ چکی تھی اور ادھر دنیائے اسلام، تہذیب و ذہنی تحریکات کا مرکز بن رہی تھی. انہی شہروں میں وہ نئی زندگی نمودار ہوئی جسے انسانی ارتقا میں ایک نئے باب کا اضافہ کرتا تھا. جس وقت یہ نئی تہذیب محسوس طور پر سامنے آئی، دنیا حیات نو سے آشنا ہوئی. اگر عرب نہ ہوتے تو یورپ کی تہذیب کا وجود ہی عمل میں نہ آتا. ان کے بغیر یہ یقیناً اس خصوصیت کو حاصل نہ کر سکتا تھا جس نے اسے ارتقائی مراحل میں بلند ترین سطح پر لا کھڑا کیا ہے.
ویسے تو مغربی کلچر میں کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں ہے کہ جس میں عربی ثقافت کا رنگ نہ جھلکتا ہو. لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جس میں یہ اثر بالکل نکھر کر سامنے آ جاتا ہے. اور یہی وہ شعبہ ہے جو درحقیقت عصر حاضر کی حقیقی قوت کا باعث اور اس کی فتوحات کا ذریعہ ہے. یعنی علم الاشیاء، سائنس کی روح. ہماری سائنس صرف اُسی حد تک عربوں کی رہین منت نہیں کہ انہوں نے ہمیں عجیب و غریب نظریات سے روشناس کروایا، نہیں! بلکہ ہماری سائنس کا وجود ہی ان کا شرمندۂ احسان ہے. اسلام سے پہلے دنیا کا زمانہ درحقیقت زمانہ قبل از سائنس Pre scientific تھا. پندرہویں صدی تک یورپ انہیں علوم و فنون کو اپناتا رہا. جو اُسے مسلمانوں نے دیئے تھے. اس پر کوئی اضافہ نہ کر سکا. جب اندلس میں تہذیب و ثقافت نے پھر تاریکیوں کی چادر اوڑھ لی، تو یورپ میں وہ جِن نمودار ہوا جسے اندلس کی سرزمین نے پیدا کیا تھا ،یورپ کو زندگی صرف سائنس نے دی اور اسلام کے گوں نا گوں اثرات اُس کی حرارت کا موجب بنے”.