بارش، نوادرات، کتاب، مصوری موسیقی،اور چائے

دو سے تین روز کی شدید گرمی کے بعد ،آدھی رات سے شروع ہونے والی بارش کا سلسلہ، ہلکی پھوار کی صورت میں ہنوز جاری تھا. راشد یاد آتے ہیں.

کہ ہم تم وہ بارش کے قطرے تھے جو رات بھر سے
ہزاروں برس رینگتی رات بھر
اک دریچے کے شیشوں پہ گرتے ہوئے
سانپ لہریں بناتے رہے ہیں
واہ…
راشد، لا ثانی ہیں.
ہم بارش تھمنے کے منتظر رہتے، مگر شاید یہ ممکن نہیں تھا. اس بارش کے موسم میں ہی رخت سفر باندھنا تھا.
بارشوں کے موسم میں
تم کو یاد کرنے کی
عادتیں پرانی ہیں
اب کی بار سوچا تھا
عادتیں بدل ڈالیں
پھر خیال آتا ہے
عادتیں بدلنے سے
بارشیں نہیں رکتیں
ہم سفر میں تھے اور ہماری منزل تھی، ٹیکسلا. کَل کا تکشاشلا، آج کا ٹیکسلا. ٹیکسلا ،سنگ تراشوں کا شہر.
اے میرے سنگ تراش، تیرے فن کی خیر ہو

ٹیکسلا پہنچے. افتخار الدین صدیقی صاحب سے ٹیکسلا میوزیم کے باہر ہی ملاقات ہو گئی. صدیقی صاحب، گندھارا ریسورس سنٹر ٹیکسلا کے متحرک رکن ہیں. صدیقی صاحب کے دادا احمد الدین صدیقی صاحب نے سر جان مارشل کے ساتھ بطور اسسٹنٹ خدمات سرانجام دیں. وہی سر جان مارشل جن کی بدولت، آج ٹیکسلا کی تاریخی حیثیت و اہمیت قائم ہے. سر جان مارشل ہی کی زیر نگرانی، برطانوی عہد میں ٹیکسلا میں کھدائیوں کے نتیجے میں، صدیوں پرانا عظیم الشان تاریخی ورثہ نمودار ہوا.

آج دنیا بھر میں اقوامِ متحدہ کے تحت، عالمی یومِ سیاحت منایا جا رہا تھا. اسی نسبت سے ٹیکسلا میوزیم میں بھی ایک مختصر تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا، جس میں غیر ملکی سیاح، طلباء، سماجی کارکنان، میوزیم انتظامیہ شریک تھے.آصف فرید صاحب سے ملاقات ہوئی. آصف صاحب بھی گندھارا ریسورس سنٹر ٹیکسلا سے وابستہ ہیں. صدیقی صاحب اور آصف صاحب کے ہمراہ، میوزیم میں داخل ہوئے. سات زمین و آسمان کے سٹوپہ کے سامنے ایک صاحب رباب بجا رہے تھے. رباب کی دھن نے اپنی جانب کھینچ لیا. کچھ دیر موسیقی سے لطف اندوز ہوئے.

غیر ملکی سیاح نہایت دلچسپی سے میوزیم کا دورہ کر رہے تھے. طلباء، مصوری کے رنگ بکھیر رہے تھے. بعدازاں طلباء کو ٹیکسلا کے تاریخی ورثے کے متعلق دستاویزی فلم بھی دکھائی. ہم نے بھی دونوں صاحبان کے ساتھ میوزیم کے مختلف حصوں کا جائزہ لیا اور نوادرات، خصوصاً مجسموں کے متعلق گفتگو کی. رباب کی آواز اب بھی سماعتوں سے ٹکرا رہی تھی.
چھپ گئے وہ ساز ہستی چھیڑ کر
اب تو بس آواز ہی، آواز ہے

کچھ ہی دیر میں گندھارا ریسورس سنٹر ٹیکسلا کے دیگر دو ارکان، ریاض صاحب اور طاہر سلیمان صاحب بھی تشریف لے آئے.ٹیکسلا میوزیم کے ڈپٹی ڈائریکٹر، انجم دارا صاحب سے تعارفی ملاقات ہوئی. میوزیم سے نکل کر، گندھارا ریسورس سنٹر ٹیکسلا کے ارکان اور انجم دارا صاحب کے ہمراہ، اُن کے دفتر کی جانب چل پڑے. مختلف موضوعات پر گپ شپ ہوئی.کچھ ہی دیر میں ہماری گفتگو میں گرما گرم چائے کی مہک بھی شامل ہو گئی.

دفتر سے نکل کر، ٹیکسلا میوزیم میں موجود لائبریری میں داخل ہوئے جہاں عالمی تاریخ کے متعلق بالعموم اور گندھارا تہذیب کی تاریخ کے متعلق بالخصوص، کتب کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود تھا. سر جان مارشل کی کتاب، Taxila، جو کہ تین والیمز پر مشتمل ہے، سمیت کئی کتب کی دیر تلک، ورق گردانی کرتے رہے.

لائبریری سے نکلے تو بارش کے بعد خوشگوار دھوپ نکل چکی تھی. ٹیکسلا میوزیم کا سر سبز و شاداب ماحول اور ماحول میں سُر بکھیرتی پرندوں کی چہچہاہٹ، یہ سب کچھ نہایت پُرکیف اور دلرُبا تھا، خالص، اُجلا اُجلا، نکھرا نکھرا، تر و تازہ.

آخر میں آصف فرید صاحب کی فرمائش پر اُن کے چینل کے لیے، عالمی یوم سیاحت کے حوالے سے اپنا پیغام ریکارڈ کروایا، جس میں پاکستان میں بین الاقوامی سیاحت کے امکانات کے متعلق گفتگو کی. یوں ہمارا عالمی یومِ سیاحت اپنی تمام تر ثمر بار سرگرمیوں کے بعد اختتام پذیر ہو گیا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے