بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اس کا رقبہ 34،7190 مربع کلومیٹر ہے جو پاکستان کے کل رقبے کا43.6 فیصد حصہ بنتا ہے ۔ اس وقت صوبے کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق90لاکھ سے ایک کروڑ کے درمیان میں ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان محل وقوع میں اہم ترین صوبہ ہے مگر افسوس ناک امر یہ ہے ۔ کہ حالیہ سروے کے مطابق بلوچستان دنیا کا سب سے پسماندہ اور غریب ترین علاقہ ہے، طول و عرض کے حساب سے اس کے شمال میں افغانستان، صوبہ خیبر پختونخواہ، جنوب میں بحیرۂ عرب، مشرق میں سندھ اور پنجاب جب کہ مغرب میں ایران واقع ہے۔ اس کی 832کلو میٹر سرحد ایران اور 1120کلو میٹر طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ جبکہ 760کلو میٹر طویل ساحلی پٹی بھی بلوچستان میں ہے۔ لیکن بلوچستان کی بدقسمتی ہے کہ یہاں ہمیشہ سے قبائلی لوگوں کی حکومت اور راج رہا ہے۔
جن کی اجازت کے بغیر وہاں ملک کا قانون بھی بے بس رہا، یہی وجہ ہے کہ وہاں آئے روز خانہ جنگی کا ماحول بنا رہتا ہے۔ اور دہشت گرد موقع سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کیوں کہ بلوچستان کی سرحد ہمارے کچھ ایسے برادر ممالک سے ملتی ہے جہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان کا امن آئے دن دہشتگردی کا شکار رہتا ہے اور وہاں کے لوگوں کو کسی نہ کسی فوجی آپریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے آج کل بلوچستان میں ایک اور فوجی آپریشن چل رہا ہے جو کہ وہاں سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے لیے کیا جارہا ہے۔
بلوچستان تنازع بلوچ قوم پرستوں اور حکومت پاکستان و ایران کے درمیان چلنے والی ایک گوریلا جنگ ہے۔ اس تنازع کا علاقہ، پاکستان صوبہ بلوچستان، ایرانی صوبہ سستان بلوچستان اور افغانی بلوچستان ہے۔ بلوچ علیحدگی پسند اپنا الگ ملک بنانا چاہتے ہیں۔ پاکستان کی دشمن ایجنسیوں کے ساتھ مل کر بلوچستان کے وسائل پر اپنا مکمل اختیار حاصل کرکے الگ ریاست کا خواب دیکھ رہے ہیں، جو کہ نا ممکن ہے ۔ صوبہ بلوچستان میں اس سے پہلے کئی مرتبہ اس طرح کے تنازعات 1948, 1958–59, 1962–63 اور 1973–77 میں بھی سامنے آئے ہیں۔ لیکن اس وقت جو موجودہ تنازع شروع ہوا ہے ،یہ ان سب میں زیادہ شدت والا ہے۔
اس تنازعے میں سب سے زیادہ نقصان عام عوام کا ہوتا ہے۔ جو کہ الگ ریاست نہیں چاہتے بلکہ پاکستان کے ساتھ مل کر پاکستان کی ترقی کے لیے شانہ بشانہ کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ عوامی سطح پر بلوچستان میں تقریباً تین گروہ ہیں ایک حکومت کے ساتھ ہر بات پہ آمین کہنے والا ہے، ایک گروہ وہ ہے جو پاکستان کے ساتھ دشمنی نہیں بلکہ صرف حکمرانوں اور ان کی پالیسی پہ اختلاف رائے رکھتا ہے۔ تیسرا گروہ وہ ہے جو ناراض ہے لیکن پھر بھی بغاوت نہیں کرتا، ان تینوں فریقین کے ساتھ گفت و شنید کا سلسلہ مختلف حلقوں کی طرف سے جاری رہتا ہے اور مسائل حل بھی کیے جاتے ہیں یہ تینوں گروہ غدار وطن نہیں ہیں بلکہ یہ سب محب وطن ہیں۔ پاکستان کے دشمن وہ ہیں جو بیرونی دشمنوں کے آلہ کار بن کر نہ صرف فورسز پہ حملے کرتے ہیں بلکہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں جو دوسرے صوبے سے تعلق رکھتے ہیں ان کو بے گناہ قتل کر کے فخر کرتے ہیں۔
یہ طبقہ نہ صرف پاکستان کا دشمن ہے ںلکہ یہ انسانیت کے دشمن ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خوارج سے تعبیر کیا گیا ہے انہیں تو یہ بھی علم نہیں کہ وہ اپنے ہی مسلمان بھائی کو کس وجہ سے قتل کر رہے ہیں، انہیں نہ تو دیمی تعلیمات و سیرت النبی ﷺ میں وطن کی اہمیت اور فضیلت نظر آتی ہے اور نہ ہی احادیث مبارکہ میں بے گناہوں، مزدوروں اور تعصب کی بنیاد پر قتل کرنے کی وعید نظر آتی ہے، یہ نظر آنا اس لیے بھی ممکن نہیں ہے کیوں کہ ان کے چہروں پر اسلام اور پاکستان کے دشمنوں نے نفرت و تعصب کا ایسا خول چڑھا دیا ہے جو صرف اسلام کی تلوار ہی اتار سکتی ہے۔ دشمن ایجنسیوں اور بی ۔ ایل۔ اے جیسے باغیوں کو معلوم ہے کہ وہ سو سال تک بھی لڑتے رہیں پاکستان کو شکست نہیں دے سکتے وہ صرف سادہ لوح عوام کو سنہرے خواب دکھا کر ان کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن بلوچستان کی محب وطن ، غیور عوام کبھی بھی ان کے پراپیگنڈے کا شکار نہیں ہو گی۔
یقیناً بلوچستان کے عوام کے ساتھ مختلف وقتوں میں زیادتی بھی ہوئی، وسائل کی تقسیم یکساں نہیں کی گئی، محرومیوں کا ایک طویل سلسلہ ہے لیکن ان معاملات کے حل کے لیے پُر امن جدوجہد کے کئی آپشن موجود ہیں۔ کئی ترقیاتی منصوبوں پر کام جاری ہے آنے والا وقت بلوچستان کے لیے خوشخبری لے کر آئے گا، بلوچستان کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لیے حکومت کئی پراجیکٹ پہ کام کر رہی ہے۔ مایوسی اور نا آُمیدی پھیلانے والے نا کام اور شکست سے دوچار ہوں گے جب کہ بلوچستان کی عوام اور پاکستان کی فتح ہمیشہ مقدر ہو گی۔