سیرتِ اقبال میں علامہ اقبال کی پیدائش کے زمانے کے ایک خواب کا ذکر ملتا ہے جس میں ان کے والد گرامی نے دیکھا کہ ایک بہت خوبصورت سفید کبوتر اڑتا آتا ہے جسے سب حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ایک دنیا جمع ہوگئی-وہ کبوتر اڑتا ہوا نیچے اترا اور علامہ کے والد کے پاس آگیا-یہ علامہ اقبال جیسے روشن قلب وجود کی پیدائش کی طرف اشارہ تھا-ان روحانی بنیادوں پر بننے والی اقبال کی شخصیت بعد میں بھی تصوف اور روحانیت سے کبھی بے تعلق نہیں ہوئی-
علامہ اقبال کا گھرانہ مذہبی فضا رکھتا تھا،بچپن ہی سے وہ اپنے گرد اِسی قسم کا ماحول دیکھتے آئے تھے -لاہور کی مجموعی فضا ہی روحانیت اور تصوف کی ایک دنیا لئے ہوئے تھی-شاہِ ہجویر حضرت داتا صاحبؒ کا مزار اور ان کی شخصیت کا عام شہری کے لئے قبول عام ہونا اس فضا کی طرف بڑا واضح اشارہ کرتا ہے-علامہ جب تحصیل علم کے لئے انگلستان روانہ ہونے لگے تو وہ دہلی میں محبوبِ الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے مزار پر فاتح پڑھنا نہ بھولے انہوں نے وہاں جو دعا کی وہ ان کے اپنے ایک شعر میں یوں ہے:
مقام ہم سفروں سے ہوا اس قدر آگے
کہ سمجھیں منزلِ مقصود کارواں مجھ کو
یہ دُعا کرتے ہوئے قبولیت کی ایسی گھڑی تھی کہ ایسا ہی ہوا، ساتھ کہ وہ طالب علم جو اُن کے ساتھ اُس وقت روانہ ہو رہے تھے اور جو اُس وقت ذمہ داریاں سنبھال رہے تھے اقبال ان سب کے لئے اقبالی شخصیت کیا؛ خود منزل مقصود بن گئے-
یورپ میں قیام کے دوران انہیں وطن کی غلامی، اہلِ وطن کی پسماندگی اور خصوصاً مسلمانوں کی جدید تعلیم سے دوری اور غلامی شدت سے چبھتی رہی-ایک حسّاس شاعر اور درد مند انسان کے طور پر انہوں نے اس وقت کی مغرب میں موجود سیاسی بے چینی اور بعد میں جنگ عظیم کے احوال کا بغور جائزہ لیا-ان کا خیال تھا کہ مغربی تہذیب نے بلاشبہ بڑی ترقی کی ہے مگر وہاں انسان کے سامنے زندگی دو حصوں میں بٹ کر رہ گئی ہے دین و دنیا ایک دوسرےکے مقابل سمجھ لئے گئے ہیں عام انسان صرف معاشی دوڑ میں مشغول ہے اور دانشور صرف مادہ کی حقیقت کو جاننے لگےہیں- اس چیز نے شدت کے ساتھ انہیں مذہب کے اس پیغام کی یاد دلائی جو مادہ اور روح کو الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹتا-اسلام تو خصوصیت کے ساتھ ساری زندگی کو ایک اکائی سمجھتا ہے اور شرع اسلامی نے تو دنیاوی معاملات کو حکم الٰہی کے تحت جاری رکھنے کو عین عبادت کہا ہے- یعنی دنیا دین سے ذرہ بھی جدا نہیں-
اسلام کی بتائی ہوئی پانچوں وقت کی نمازیں اس طرف بھی اشارہ کرتی ہیں کہ مسلمان کی زندگی میں عبادت کے اوقات اور دنیاوی مصروفیت کے اوقات کی تقسیم کی باریاں مقرر ہیں-یہاں دنیا کو پکڑا جاتا ہے اور دنیا کو چھوڑا جاتا ہے-اللہ تعالیٰ کے حکم پر مومن دنیا کے کام کو چھوڑ کر مسجد کی طرف چلا جاتا ہے اور پھر اسی کے حکم پر واپسی آجاتا ہے-گویا کہ دنیا اور دین ایک سیدھ میں آجاتے ہیں-
لاہور جو داتا صاحب کی فکر سے قربت دینی مزاج رکھتا ہے اس میں داتا صاحب کی شہرہ آفاق کتاب کشف المحجوب، روحانیت اور مذہب کی یک رنگی اور باہمی موافقت ثابت کرنے والی حیرت انگیز علمی کاوش ہے-یعنی کشف المحجوب میں انکار نہیں ہے کہ شریعت اور روحانیت دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں بلکہ ہاتھ میں ہاتھ دیے چلتے رہتے ہیں-
مغرب میں اپنی پی ایچ ڈی کے لئے کی گئی تحقیق (Development of metaphysics in Persia) کے جمع کردہ thesis کے مواد کے مشاہدے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ تصوف جس طرح سے اسلامی دنیا میں آج رائج ہے وہ ایک خاص قسم کی بے عملی کی فضا پیدا کرچکا ہے جس میں توکل، صبر اور عمل کےمعانی ہی بدل چکے ہیں-تقدیر سے اس بے عملی کی ایک اور منفی تائید حاصل کی جاتی ہے-
مغرب کی روحانیت اورجذبے سے خالی زندگی جس طرح انسان کو یک رخہ بنا چکی تھی، مادہ و روح کی تقسیم نے جس طرح زندگی کو صرف مادی ضروریات کی تکمیل کا ایک دورانیہ بنادیا تھا اس نے اقبال کو سوچنے پر مجبور کیا کہ بیسویں صدی کے ان ابتدائی برسوں میں انسانی شخصیت کو مجتمع اور متحد رکھنے کےلئے اور دنیا کو تصادم اور انتشار سے بچانے کےلئے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ پورے انسان کو جانا اورجانچا جائے-نہ صرف روحانی اور مادی طور پر سب صفات سے متصف ہو بلکہ یقین اور امید جیسی روشنی بھی اسے نصیب ہونی چاہیےجس کے بغیر مغرب کے متعین کردہ مادی مقاصد بھی پورے نہیں ہوسکتے-
زندگی کی یہ دونوں لازمی چیزیں یعنی یقین اور امید مادی نہیں ہیں-اقبال نے نٹشے کے فوق البشر کےمقابل اپنا تصورِ انسان پیش کیا جس میں فرد کی شخصیت کی تربیت بڑی بنیادی حیثیت رکھتی ہے-زمانے کے مسائل کا حل ایسی تربیت یافتہ شخصیت ہی کرسکتی تھی جو ضبط نفس اور اطاعت الٰہی کے مقامات سے گزر کر نیابتِ الٰہی کی منزل تک پہنچ سکے-ان منزلوں میں اقبال شخصیت کو صرف مادی بنیادوں میں تقسیم نہیں کرتے بلکہ انسانی شخصیت کو مادی و روحانی دونوں عناصر کو ملا کر دیکھتے ہیں-
اپنے مطالعہ کے دوران فکری طور پر وہ اسی نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ غیر عربی اثرات نے اسلامی تصوف کو بدل دیا تھا-یہ اثرات یونان فلسفے کے مطالعے کی وجہ سے پیداہوئے تھے اور تصوف کی رنگین باتوں نے انہیں عالم اسلام میں نشر کردیا تھا-یہ خیال کرنا کہ عمل کے ذریعے سے نجات ممکن نہیں اور نجات صرف بخشنے والے کی مہربانی کانتیجہ ہوگی اور عمل کی کوئی ضرورت نہیں، تو یہ قطعاً غیر اسلامی ہے-یہ خیال کہ دنیا صرف فضول جگہ ہے اور جینا عذاب ہے یا سزا ہے، یہ خیال کہ جو ملتا ہے وہ تقدیر سے ملتا ہے عمل کی کوئی حیثیت نہیں، یہ خیال کہ عمل کو چھوڑ کر معاملے کو اللہ کے سپرد کر دنیا چاہیے یہی اللہ کی منشاء ہے تو یہ سب وہ فضولیات تھیں جو عام صوفیاء کے ہاں بہت رائج ہوتیں لیکن ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تھا-یہ ’’نو فلاطونی‘‘ فلسفہ تھا -جسے بعد کے صوفیا عمل کی محنت سے بچنے کا ایک وسیلہ بنا چکے تھے-وہ تو عربی لغت میں قدموں پر پختہ رہنے اور مستقل عمل کا اشارہ کرتا ہے-ڈٹ جانے کے معنی دیتا ہے-تقدیر پر اقبال کی نگاہ میں نہ صرف یہ کہ خارج سے نازل ہونے والا کوئی جبر نہیں بلکہ انسان کی اپنی شخصیت کی کارگردگی سے مرتب ہے-یہ الگ بات کہ اسے پہلے سے دیکھ کر خدواند نے لکھ دیا، تقدیر کا جبری تصور تو تقدیر کی معنویت کے خلاف ہے-
اقبال عمل پر شدت سے زور دیتے ہیں، وہ کہتے ہیں انسان صرف عمل ہی سے اپنی زندگی کو اور اپنی آخرت کو جنت یا جہنم بنا سکتا ہے-حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک مخصوص حد تک ہی مجبور ہے جہاں توفیق ِ عمل کی بات آتی ہے اسی پر تقدیر اس پر کوئی پابندی دائر نہیں کرتی وہ اپنے عمل میں آزاد ہے-اسی دنیا کو نہ اللہ نے فضول کہااور نہ اقبال نے-حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ :
’’رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلاً ‘‘
’’اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا‘‘-
یعنی یہ سب حقیقت ہے- ’’نوفلاطونیت‘‘کے زیر اثر ہمارا تصوف اس جہان کو فریبِ نظر اور وہم قرار دینے لگ گیا تھا جب جہان ہی جھوٹ ہو تو پھر جہان میں کیے جانے والے اعمال کی کیا حیثیت ہے-
اقبال نے جب ’’اسرار خودی ‘‘مرتب کی ہے تو اس کے دیباچے میں علامہ نے نوفلاطونی تصوف اور فارسی شاعری میں وحدت الوجود کے مولد حافظ شیرازی پر سخت تنقید کی اور کہا کہ حافظ کے خوبصورت غزلیہ اشعار:
بگزر از حافظِ بادہ گسار
جامش از زہرِ اَجل سرمایہ دار
نے نوفلاطونیت کی حیات گزیری کو عام کردیا تھا-وہ شیخ اکبر حضرت محی الدین ابن العربی پر بھی تنقید کرتے انہوں نے اپنے اشتراکی تصورات میں ایسی ہی حیات گریزی کا فلسفیانہ ابلاغ کیا-دلچسپ بات یہ ہے کہ ذاتی طور پر اقبال شیخ عربیؒ کی فتوحات مکیہ اور حافظ کے دیوان غزل سے ساری زندگی متاثر رہے-یہ کتابیں ان کے تکیے تلے ہمیشہ موجود رہیں-اقبال کی شکایت کا سبب بعض بے عمل صوفیوں کی لغزشوں کی وجہ سے تصوف میں درآنے والے حیات گزیر اور عمل دشمن تصورات کی جڑ اکھیڑنا تھا- وہ چاہتے تھے کہ عمل سے دشمنی انسان خصوصیت مسلمان کو کتنا نقصان دے گی-
اقبال کا تصورِ فقر، تصورِ مرد مؤمن، تصورِ عشق، تصورِ عمل، تصورِ تقدیر یہ رومی کے متصوفانہ تصور سے شدت سے متاثر ہیں-رومی بھی عظیم انسان کے منتظر تھے-
دی شیخ با چراغ ہمی گشتِ گرد شہر
کزدیو و دد ملولم و انسانم آرزوست
’’کل دن کو شیخ دیا پکڑے شہر کے گرد گھوم رہے تھے کہتے تھے انسانوں کی شکلوں میں اور مخلوق نظر آتی ہے-دیے کی روشنی میں حقیقی انسان کو ڈھونڈنا ہے جو نہیں مل رہا ہے‘‘-
عظیم انسان کی تلاش اقبال کو بھی تھی اور رومی کو بھی اور یہ عظیم انسان روحانیت کے بغیربے معنی تھا-
اقبال کا فلسفہ عمل عشق کے بغیر نامکمل رہتا ہے،عشق ان کے خیال میں وہ جذبہ ہے جو عمل کو صحیح طور پر سر انجام دینے میں کام آتا ہے- دل میں عشق کی لگن نہ ہو تو اخلاص کے ساتھ عمل نہیں ہو پاتا-ان کا تصور عشق رومی ہی کی طرح، محبت، اخلاص اور عمل سے مرتب ہوتا ہے-اقبال کے تصور خودی، تصور مردِ مومن اور تصور عشق ایسے بنیادی تصورات ہیں جنہوں نے اپنے پڑھنے والے کا تصورِ جہاں تبدیل کردیا اور اس نے انسان اور اس کی عظمت کو حقیقی بنیادیں فراہم کیں جن کے بغیر نہ فرد دینی صلاحیتوں کو مجتمع کرسکتا تھا نہ اخلاص فی العمل کا مقام پاسکتا تھا-اسی پیغام نے ہندی مسلمانوں کو وہ سوز دیا کہ وہ 1940ء سے 1947ء تک کے زمانے میں وہ اپنے لئے ایک جہانِ نو تعمیر کرنے میں کامیاب ہوگئے-یہ اقبال کا تصورِ مومن تھا جو عمل اور عشق سے مرتب تھا-جس میں روحانیت نے فرد کو باطنی طور پر توانا رکھا، چاہے وہ اقتصادی سطح پر کتنا ہی کمزور کیوں نہ تھا-