محبوب کو اپنی آنکھوں کے سامنے سِسک سِسک کر مرتے ہوئے دیکھنا کیسا ہوگا؟ کسی نے اگر یہ منظر دیکھنا ہو تو لاہور آ جائے، وہ جو ایک شہر تھا، اُس کا دم گھُٹ رہا ہے، وہ موت کے منہ میں جا رہا ہے اور ہم بے بسی سے ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں۔ کروڑوں لوگوں کی طرح لاہور میرا بھی محبوب ہے، زندگی کا دوسرا عشق ہے۔ اِس کی گلیاں اِس کے محلے، اِس کے بازار اِس کے دروازے، اِس کی رونقیں اِس کا مزاج، اِس کے ادیب اِس کے شاعر، اِس کی بیٹھکیں اِس کے چوبارے، اِس کے باغات اِس کی حویلیاں، اِس کے قلعے اِس کی منڈیاں، اِس کے دربار اِس کے مجاور، اِس کے کالج اِس کی یونیورسٹیاں، اِس کی مساجد اِس کے گرجے، اِس کی سڑکیں اِس کے اسٹیشن، اِس کے مندر اِس کے گوردوارے، سب ماضی کا قصہ ہوئے۔ اِس شہر کی ایک ایک اینٹ سونے کی تھی اور یہاں گزرا ہوا ایک ایک پل انمول تھا، مگر افسوس کہ اب ہر اینٹ سیاہ ہو چکی اور ایک پل گزارنا بھی مشکل ہوچکا، لاہور پر گرد کی جو تہہ ہم نے چڑھا دی ہے وہ شاید ہماری زندگیوں میں تو نہیں اتر سکے گی۔
جن جگہوں پر ہمارا بچپن، لڑکپن اور جوانی گزری ہوتی ہے اُن جگہوں سے ہمیں عشق ہوجاتا ہے، یہ عشق دراصل لاپروائی اور بے غرضی سے گزرے ہوئے دنوں کی یادوں کا مجموعہ ہوتا ہے جس کا ہر لمحہ ناقابل فراموش ہوتا ہے، اسی لیے دھرم پورے کی کوئی گلی ہو یا نسبت روڈ کا کوئی محلہ، اُس کی یادیں دل سے نہیں جاتیں۔ لیکن یہ وہ محبت ہے جو ہر شخص کو اپنے شہر اور گاؤں سے ہوتی ہے، لاہور سے عشق اِس سے کچھ بڑھ کر ہے۔ بے شک دنیا میں کئی شاندار شہر ہیں، لیکن یہ شہر اپنی کسی نہ کسی خوبی اور خاصیت کی بنا پر مشہور ہیں جو کسی دوسرے شہر میں نہیں پائی جاتی۔ مثلاٴ وینس، لاس اینجلس، روم، لندن، اِن تمام شہروں میں کوئی ایسی بات ضرور ہے جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتی ہے، وینس اپنے اچھوتے پن کی وجہ سے، لاس اینجلس ہالی وُڈ کی بنا پر اور روم اور لندن اپنی تاریخ کی بدولت اُن شہروں میں شمار کیے جاتے ہیں جن کا مقابلہ کرنا مشکل ہے۔
لاہور بھی اسی درجے کا شہر ہے۔ جس کو اِس دعوے کی حقیقت میں شبہ ہو وہ کسی ایسے شہر کا تصور کرے ،جس کی تاریخ سینکڑوں برس پرانی ہو، جہاں بادشاہوں نے قلعے ، باغات اور مساجد تعمیر کروائی ہوں، جس کے گرد فصیل ہو اور اُس میں تیرہ دروازے ہوں، قلعے کی دیوار کے ساتھ دریا بہتا ہو، شہر کے اندرون محلوں میں حویلیاں، کوٹھے اور پُر پیچ گلیاں ہوں اور یہ شہر خطے کا علمی اور ادبی گہوارہ ہو، یہاں ایک سے بڑھ کر ایک شاعر، گلوکار، موسیقار بستا ہو، فلم اور فیشن کا مرکز ہو، اولیا اللہ نے بھی یہیں ڈیرے جمائے ہوں اور سلطنت کا سب سے بڑا ریڈ لائٹ ایریا بھی اسی شہر کے وسط میں ہو تو کیا لاہور کے علاوہ دنیا کا کوئی دوسرا شہر اِس پیمانے پر پورا اتر سکے گا؟ لاہور سے محبت خواہ مخواہ نہیں ہے، یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص لاہور آئے اور وہ اِس شہر کا گرویدہ نہ ہو جائے، یہاں پیدا ہونے والا تو اِس کے سحر میں مبتلا ہو ہی جاتا ہے، چند دن گزارنے والا بھی اِس شہر کا دیوانہ ہوجاتا تھا۔
مگر اب یہ باتیں پرانی ہوئیں، اب یہ شہر اینٹ، پتھر اور سریے کا شہر ہے، راوی کب کا سوکھ چکا، تیرہ دروازوں میں سے چند باقی ہیں جبکہ زیادہ تر کا نشان ہی مٹ چکا ہے، اندرن شہر کی گلیاں اور چبوترے جو کبھی آباد تھے اب گندگی اور تجاوزات کی بھرمار سے ناقابل رہائش ہو چکے ہیں، تاریخی حویلیوں کا کوئی پُرسان حال نہیں، باغات کی حالت ناگفتہ بہ ہے اور ہیرا منڈی کب کی ویران ہو چکی۔ اب اِس شہر میں ضرورت سے زیادہ فلائی اوور اور انڈر پاس ہیں، ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہیں، ٹریفک کا بے ہنگم شور اور گاڑیوں کا دھواں ہے۔ اِن باتوں کے ساتھ بھی ہم رو پیٹ کر جی لیتے لیکن اب اِس شہر پر آسیب کا جو سایہ اسموگ کی شکل میں چھایا ہے اُس سے ہمارا چھٹکارا مشکل نظر آتا ہے۔ کبھی لاہور کی سردیوں کا شدت سے انتظار کیا جاتا تھا، دسمبر اور جنوری میں ٹھنڈ عروج پر ہوتی تھی اور فروری میں بسنت کو پالا اُڑنت کہا جاتا تھا۔ اب نہ بسنت رہی اور نہ دسمبر کی دھوپ، اب یہاں دھواں ہے اور گردآلود فضا ہے۔
کسی نے کہا ہے کہ یہ سب ہمارے گناہوں کی سزا ہے، ممکن ہے ایسا ہی ہو کیونکہ یہ گناہ ہی تو تھا کہ ہم نے اِس شہر میں بے ہنگم تجاوزات کی اجازت دی، یہ گناہ ہی تو تھا جو ہم راوی میں پورے شہر کی گندگی پھینکتے رہے، یہ گناہ ہی تو تھا کہ ہم نے شہر میں ایسی فیکٹریاں اور کارخانے بنا دیے جو نہ ماحول دوست تھے اور نہ ہی کسی قسم کے قانون قاعدے کے مطابق کام کرتے تھے، یہ گناہ ہی تو تھا کہ ہم نے گاڑیوں میں وہ ایندھن استعمال کیا جو خطرناک دھواں پیدا کرتا ہے، یہ گناہ ہی تو تھا کہ ہم نے شہر کے ارد گرد بنے کھیت اجاڑ کر وہاں ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنا دیں، یہ گنا ہ ہی تو تھا کہ ہم نے اِس ہرے بھرے شہر کو کنکریٹ کا جنگل بنا دیا اور یہ گناہ ہی تو تھا کہ ہم کوڑا کرکٹ گلیوں میں پھینک کر مطمئن ہوجاتے تھے کہ ہماری ذمہ داری ختم ہوئی۔ دنیا میں بے شمار شہر ایسے ہیں جن کی آبادی لاہور جتنی بلکہ اِس سے بڑھ کر ہے، وہاں بھی اتنی ہی ٹریفک ہے اور ہوائی اڈوں پر کئی گنا زیادہ پروازیں اترتی ہیں، مگر اِس کے باوجود وہاں فضائی آلودگی نہ ہونے کے برابر ہے، ایسے دو شہر جو اِس وقت فوری طور پر میرے ذہن میں آرہے ہیں وہ سول اور بنکاک ہیں۔ اِس کے علاوہ بیجنگ اور لندن کی مثال بھی دی جا سکتی ہے جو اسی طرح فضائی آلودگی کا شکار تھے مگر اِن شہروں کی حکومتوں نے کئی برس کی انتھک محنت کے بعد اِس پر قابو پا لیا۔
دنیا میں کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو نیا ہو اور اُس کے بارے میں دانشمندوں، سائنس دانوں اور دور اندیش حکمرانوں نے سوچ بچار کرکے حل نہ نکالا ہو۔ اسموگ بھی ایسا ہی مسئلہ ہے، دنیا اِس سے نمٹ چکی ہے، مگر محض اسکول بند کرکے یا کاغذی کارروائی کرکے نہیں، ٹھوس اقدامات کرکے۔ ہم بھی وہ تمام اقدامات کر سکتے ہیں مگر اِس کے لیے ویژن درکار ہے اور یہ ویژن مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اسموگ صرف لاہور پر ہی نہیں چھائی بلکہ ہمارے دل و دماغ پر بھی چھا چکی ہے، اسی لیے نہ کوئی سوچنا ہے اور نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ افسوس صرف اِس بات کا ہے کہ لاہور کو ہم اپنی آنکھوں کے سامنے برباد ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا محبوب دھیرے دھیرے زہر پی رہا ہے اور ہم وہ بد نصیب عاشق ہیں جو اُس کی موت کا منظر دیکھ رہے ہیں۔
بشکریہ جنگ