سموگ کے خلاف جنگ: کیا ہم دنیا سے سیکھ سکتے ہیں ؟

سرمئی بادلوں کے پیچھے چھپ گیا کیوں روٹھ کر… یہ وہ کیفیت ہے جو آج کل لاہور کے سورج پر بھی طاری ہے۔ باغوں کے شہر لاہور کو آلودگی کے نئے چیلنج کا سامنا ہے۔ گزشتہ ماہ سے زہریلے سموگ نے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، جس کی وجہ سے سانس کی بیماریاں شدت اختیار کر رہی ہیں جس سے سب سے زیادہ متاثر بچے اور بزرگ ہو رہے ہیں۔

یہ سموگ آیا کہاں سے، دنیا میں اس کا کیا حل نکالا گیا، اور لاہور سمیت پنجاب کے دوسرے علاقوں کو بچانے کے لئے ہمیں کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ آئیے جانتے ہیں۔

ہر سال سردیوں کے آغاز میں، سموگ کی ایک گہری تہہ لاہور اور پنجاب کے کئی حصوں کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ یہ نہ صرف ایک نظر آنے والا مسئلہ ہے، بلکہ سنگین صحت کے خطرات کا باعث بھی بنتا ہے۔آئیے لاہور اور پنجاب میں سموگ کی بنیادی وجوہات، اس کے صحت پر اثرات، اور اسے کم کرنے کے عملی اقدامات پر روشنی ڈالتے ہیں!!

لاہور میں سموگ کی وجوہات کیا ہیں ؟

• فصلوں کو جلانا یہاں ایک عام پریکٹس ہے۔پنجاب میں کٹائی کے بعد کھیتوں کو صاف کرنے کے لیے فصلوں کی باقیات کو جلایا جاتا ہے، جو ماحول میں کثیر مقدار میں زہریلے اجزا چھوڑتی ہیں۔ یہ آلودگی قریبی شہروں، جیسے لاہور، تک پہنچ کر فضائی آلودگی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

• لاہور میں آبادی کے ساتھ گاڑیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے ۔ دھواں چھوڑتی یہ گاڑیاں فضا میں شدید آلودگی کا باعث بنتی ہیں۔ نائٹروجن آکسائیڈ اور دیگر آلودہ گیسیں ہوا کو مزید زہریلا بنا دیتی ہیں۔

• لاہور اور گرد و نواح میں کئی فیکٹریاں اور صنعتیں ہیں، جو سلفر اور نائٹروجن گیسیں خارج کرتی ہیں۔ ناقص انتظامات اور فرسودہ ٹیکنالوجی اس آلودگی میں مزید اضافہ کرتے ہیں۔

سردیوں میں درجہ حرارت میں کمی کے باعث ٹھنڈی ہوا آلودگی کو زمین کے قریب ہی رکھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں سموگ کی گھنی تہہ شہر کے اوپر چھا جاتی ہے، جو کئی دنوں تک برقرار رہتی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر گاڑیاں کم معیار کا ایندھن استعمال کرتی ہیں جس میں سلفر اور دیگر آلودگی شامل ہوتی ہے،خراب ایندھن کی وجہ سے بھی سموگ میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ سموگ کے صحت پر کیا مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں؟

آلودگی صحت کے سنگین مسائل کو جنم دیتی ہے۔جیسے سانس کے مسائل، دل کی بیماریاں، آنکھوں کی جلن، اور جلد کی بیماریوں کا خطرہ آلودگی کے باعث مزید بڑھ جاتا ہے، یہ سب سے زیادہ نقصان دہ بچوں اور بوڑھوں کے لیے ہے، جن کا مدافعتی نظام نسبتاً کمزور ہوتا ہے۔

عالمی سطح پر کن اقدامات کے ذریعے ان مسائل کو حل کیا گیا ہے؟

• بیجنگ، چین کبھی دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا تھا لیکن آج بیجنگ نسبتاً صاف ہوا میں سانس لے رہا ہے۔ چین نے ’بلیو اسکائی ایکشن پلان‘ کے تحت اخراج کے سخت معیار، فیکٹریوں کی منتقلی، اور الیکٹرک گاڑیوں اور سائیکل کے استعمال کے فروغ جیسے اقدامات کیے، جس سے ہوا کے معیار میں نمایاں بہتری آئی۔

• لاس اینجلس نے سموگ سے نمٹنے کے لیے کارپولنگ، پبلک ٹرانسپورٹ میں سرمایہ کاری، اور سخت اخراج کے معیار کو نافذ کیا۔ اس کے نتیجے میں شہر کی ہوا میں نمایاں بہتری آئی اور سموگ کا مسئلہ کافی حد تک قابو میں آیا۔ کار پولنگ، جسے رائیڈ شیئرنگ بھی کہتے ہیں، میں لوگ ایک ہی سمت جانے پر ایک ہی گاڑی میں سفر کرتے ہیں۔ اس سے سڑک پر گاڑیوں کی تعداد کم ہوتی ہے، ایندھن کی بچت ہوتی ہے، اور فضائی آلودگی میں کمی آتی ہے۔ لاہور جیسے شہروں میں جہاں آلودگی بہت زیادہ ہے، کار پولنگ کافی مؤثر حل ہے جس سے آلودگی اور ٹریفک دونوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔

• لاہور کی طرح دہلی بھی شدید سموگ کا سامنا کرتا ہے۔ بھارت نے فصل جلانے پر پابندی، طاق-جفت گاڑیوں کی پالیسی اور کاشتکاروں کو صاف توانائی کے استعمال کی تربیت اور سہولت فراہم کی، جس سے فضائی آلودگی میں کافی حد تک کمی آئی۔ طاق-جفت گاڑیوں کی پالیسی میں گاڑیوں کو نمبر پلیٹ کے آخری ہندسے کے مطابق مخصوص دنوں پر سڑک پر چلنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ طاق نمبر والی گاڑیاں طاق تاریخوں پر اور جفت نمبر والی گاڑیاں جفت تاریخوں پر چل سکتی ہیں۔ اس کا مقصد ٹریفک اور آلودگی کو کم کرنا ہے۔

اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں عالمی تجربات کا اطلاق کس طرح کیا جا سکتا ہے؟

پاکستان ان ممالک کے تجربات سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ لاہور میں سموگ سے نمٹنے کے لیے ’بلیو اسکائی ایکشن پلان‘ جیسا ایک قومی کلین ایئر پلان بنایا جا سکتا ہے۔ اس میں اخراج کے معیار کو سخت کرنا، کسانوں کے لیے سبسڈیز فراہم کرنا، الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ یا کم ازکم لوگوں کو سائیکل کے استعمال کی طرف لایا جائے، سڑکیں اچھی کی جائیں تاکہ سائیکل چلانے والی لین بھی اس میں شامل کی جائےاور پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتر سہولیات ہوں ۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ ان تجربات سے سبق لے اور اپنی عوام کے لیے صاف ستھری ہوا کو یقینی بنائے، ماسک پہن لینا یامحض اسکولوں کو آن لائن کر دینا حل نہیں ہے، آخر گورنمنٹ اسکولوں کے بچے کیا کریں گے کیا ان کو آن لائن کلاسز لینے کی سہولت حاصل ہے؟ انفرادی طور پر بھی ہمیں اس اہم مسلے کے خلاف مل کر کام کرنا چاہیے ، حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینا چاہیے۔ تصور کریں کہ لاہور کی سردیوں کی صبحیں ایک بار پھر تازگی سے بھرپور ہوں، جہاں بچے بلا خوف و خطر کھیل سکیں اور شہری آزادانہ سانس لے سکیں۔ یہ خواب تبھی حقیقت بن سکتا ہے جب ہم آج سے پائیدار اقدامات کا آغاز کریں!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے