امریکہ کا نیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کلائمیٹ چینج کا ڈھگمگاتا ایجنڈا

پانچ نومبر امریکہ انتخابات میں رپبلکن پارٹی کےامیدوار سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کامیاب ہوئے، پاکستان سمیت دنیا میں زیادہ تر میڈیا ہاوسیزکی پیشن گوئیوں کے برعکس ٹرمپ دوبارہ امریکہ کے 47 ویں صدر منتخب ہوئے۔ سیاسی مبصرین 2024 کے الیکشن کو امریکہ کا سخت ترین الیکشن قرار دے رہے تھے۔ الیکشن کے دوران ماحولیاتی ماہرین اورکلا ئمیٹ ایکٹیوسٹس ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار کملا ہیرس کے کلائمیٹ چینج ایجنڈا کی تائید جبکہ ٹرمپ پر تنقید کرتے نظر آئے وہ یہ خدشہ ظاہر کررہے تھے کہ اگر ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو کلائمیٹ چینج دوبارہ امریکی سیاست سے نکل جائیگا۔ لیکن تمام خدشات کے باوجود ٹرمپ آگئے ،اب کیا ہوگا؟

امریکہ کا ماحولیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے عالمی وعدوں اور معاہدوں سے دستبرداری کی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ٹرمپ کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اس میں سب سے زیادہ اہم موسمیاتی تبدیلی کے عالمی معاہدے "پیرس اگریمنٹ” سے دوبارہ دستبرداری ہے۔

پیرس اگریمنٹ کیا ہے؟

پیرس معاہدہ موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے پابند بین الاقوامی معاہدہ ہے، جو اقوام متحدہ کی سربراہی میں دسمبر 2015 کو پیرس میں ہونے والے موسمیاتی تبدیلی کانفرنس آف دی پارٹیز یا ( سی او پی 21) میں 196 ممالک نے تسلیم کیا تھا۔

پیرس ایگریمنٹ کا مقصد عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافے کو صنعتی دور سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم تک محدود رکھے جانے اور درجہ حرارت میں اضافہ 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود ہونے کا عزم نمایا ں ہے۔ حالیہ برسوں میں متعدد عالمی رہنماؤں نے اس صدی کے آخر تک عالمی درجہ حرارت کو 5۔1 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود رکھنے پر زور دیا ہے، تاہم اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی کے بین الحکومتی پینل (آئی پی سی سی) کے مطابق 5۔1 ڈگری سینٹی گریڈ کی حد عبور کرنے سے دنیا کلائمیٹ چینج کے اثرات مزید خوفناک شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں دنیا بھر میں شدید موسمی واقعیات جیسے، طوفانی بارشوں، شدید خشک سالی، گرمی کی لہریں، سمندر کی بلند ہونے والی سطح اور سیلابوں میں اضافہ ہوا ہے۔

پیرس معاہدے کے تحت تمام ممالک 2030 تک گرین ہاؤس گیسیز ،جس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دوسری کیمیائی گیسیز جو فوسل فیول یعنی تیل، کوئلہ اور قدرتی گیس کے علاوہ صنعتی عمل، زراعت، عمارتی تعمیرات، ٹرانسپورٹ، جنگلات کا گھٹنا اور کچرے کی منیجمنٹ سے پیدا ہونے والی گیسوں کے اخراج میں 43 فیصد تک کمی کرنے کا عہد ہے۔ تاہم اس سلسلے میں ابھی تک بڑی کامیابی سامنے نہیں آئی البتہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لئے ہر سال منعقد ہونے والی عالمی کانفرنس میں سی او پی میں ممالک کے رہنما پیرس معاہدے پر پابند رہنےکی وعدے ضرور کرتے ہیں۔

یاد رہے! اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے موسمیاتی تبدیلی کا 29 واں اجلاس اذر بائیجان باکو میں 11 نومبر سے 22 نومبر 2024 کو ہوگا۔ یہ کانفرنس عالمی موسمیاتی مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے ہر سال منعقد ہوتی ہے، خاص طور پر پیرس معاہدے میں طے پانے والے اہداف پر توجہ مرکوز کرنے جس میں عالمی درجہ حرارت کو محدود کرنا، موسمیاتی اثرات کے ساتھ موافقت کرنا، اور ان کوششوں کے لیے ضروری مالیات کو متحرک کرنا ہے۔

پیرس معاہدہ اور ٹرمپ

چائنہ اور انڈیا سمیت امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیز کا اخراج کرتے ہیں، لیکن امریکہ کی کلائمیٹ چینج کے حوالے سے واضح پالیسی ہمیشہ سے ہی تنقید کی ذد میں رہی ہے۔

پیرس معاہدہ 2016 سے فعال ہے اور امریکہ کے اُس وقت کے صدر بارک اوبامہ نے 3 ستمبر 2016 کو اس معاہدے میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی تھی۔ جس میں 2025 تک 2005 کی سطحوں کے مقابلے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو 26-28% کم کرنے کا عہد کیا گیا تھا۔ اوبامہ کے بعد اُس وقت پہلی بار منتخب ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جون 2017 کو اعلان کیا تھا کہ امریکہ اس معاہدے کا مزید حصہ نہیں رہےگا۔ جس کی وجہ اقتصادی اثرات کے بارے میں خدشات اور یہ یقین تھا کہ یہ معاہدہ امریکہ کو دوسرے ممالک کے مقابلے میں نقصان پہنچاتا ہے۔

جب ٹرمپ پیرس اگریمنٹ سے دستبردار ہوئے تو وہ امریکہ سمیت دنیا بھر میں شدید تنقید کا نشانہ بنے تھے اور ٹرمپ کلائمیٹ چینج مخالف پالیسی کی بھر پور مزمت کی گئی تھی۔ تاہم ٹرمپ کی حکومت جانے کے بعد امریکہ کے نئے منتخب صدر جو بائیڈن نے دوبارہ اپریل 2021 میں پیرس معاہدے میں شمولیت کردی، جس میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے عہد کی تصدیق کی گئی۔

پچھلے سال دبئی میں منقعد سی او پی 28 میں حالیہ امریکی صدر جو بائیڈن نے شرکت کی تھی، جس میں تقریباً 200 ممالک نے موسمیاتی تبدیلی کے خلاف لڑنے کے لیے فوسل ایندھن سے دور جانے کی ضرورت پر اتفاق کیا اور اس کے بعد امریکہ میں قوانین بھی بنائے گئے۔

الیکشن 2024 میں رپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کا کلائمیٹ ایجنڈا کیا تھا

سال 2024 کو دنیا میں تاریخ کا سب سے بڑا انتخابی سال قرار دیا جاتا ہے، اس سال 60 سے زیادہ ممالک میں قومی انتخابات ہوں گے۔ جس طرح دوسرے ممالک میں کلائمیٹ چینج کا موضوع سیاسی پارٹیوں کے منشوروں کا حصہ ضرور رہا لیکن عوامی بحث کا حصہ نہیں بن سکا، امریکہ میں بھی یہی صورت حال رہی، کلائمیٹ چینج اہم سیاسی بحث کا حصہ نہیں تھا۔

امریکہ میں صحافیوں کے قائم کیے گئے ایک نیٹ ورک (کورنگ کلائمیٹ ناؤ) میں کملا اور ٹرمپ کی سیاسی مہم میں کلائمیٹ چینج کے تناظر کے حوالے سے آن لائن ویبنارز اوردوسرے مختلف زرائع جیسے دی گارڈین اخبار، این بی سی نیوزاور نیویارک ٹائمز میں امریکہ الیکشن اور موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں جو نکات تقریریں اور سیاسی تجزے سامنے آئے ،ان میں ایک بات واضح ہے کہ رپبلکن کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی کلائمیٹ چینج پالیسوں پر ترجیح زیادہ تھی۔

کملہ ہیرس کے 2024 کے انتخابی منشور میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے اہم نکات میں امریکہ کی عالمی قیادت، قابل تجدید توانائی، اور ماحولیاتی انصاف کو فروغ دینا تھا۔ ہیرس نے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے، قابل تجدید توانائی میں سرمایہ کاری کو بڑھانے، اور پیرس معاہدے کے تحت عالمی وعدوں کی پاسداری پر بات کرتی نظر آئی۔ ڈیموکریٹک پارٹی کےایجنڈے میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے متاثر ہونے والی طبقوں کے لیے خصوصی اقدامات اور ماحولیاتی انصاف کو یقینی بنانے کا عزم بھی شامل ہے۔ یاد رہے سال 2022 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی حکومت نے ایک اہم "انلفلیشن ریڈیکشن ایکٹ” آئی آر اے قانون منظور کرایا جو مہنگائی پر قابو پانے، کلائمیٹ چینج اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے پر ایک اہم قانون سازی مانی جاتی ہے۔ اس قانون کے تحت 390 بلین ڈالرز صرف قابل تجدید توانائی کے لئے مختص کئے گئے ہیں۔

دوسری جانب ڈونلڈ ٹرمپ کے 2024 کے موسمیاتی تبدیلی کے منشور میں بنیادی توجہ روایتی توانائی کو فروغ دینے اور ماحولیاتی قوانین میں نرمی پرتھی، نہ کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے پر۔ ٹرمپ توانائی کے فروغ کے لئے تیل اور گیس یعنی فوسل فیول میں اضافے کی بات کرتے نظر آئے، خاص طور پر ڈرلنگ اور پائپ لائن منصوبوں کو تیز کرنے پر زور دے رہے تھے۔ ٹرمپ نے اپنے الیکشن کمپین میں آئی آر اے کے قانون کو ختم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اوروہ اس قانون کو امریکی توانائی کے شعبے میں روکاٹ سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب الیکٹرک گاڑیوں کی سبسڈی کی مخالفت کے ساتھ ٹرمپ قابل تجدید توانائی کی مخالفت اور جوہری توانائی کے استعمال کو جاری رکھنے اور نئے جوہری ریکٹرز کی ترقی کی حمایت کرتے ہیں۔

کیا ٹرمپ کلائمیٹ چینج سے متعلق تمام حقائق کو مسترد کرسکتا ہے؟

ٹرمپ کا کلائمیٹ چینج سے کنارہ کشی کا ایجنڈا واضح ہے، لیکن آئی آر اے اور ماحول سے متعلق امریکی پالیساں اتنی آسانی سے ختم کرنا ،ٹرمپ کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ 6 نومبر کو دی نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک ارٹیکل کے مطابق ٹرمپ کا کلائمیٹ چینج سے مُکرنا ٹرمپ کے لئے مہنگا پڑسکتا ہے۔ مسٹر ٹرمپ کی 2022 کے انفلیشن ریڈکشن ایکٹ، جو کہ ایک تاریخی ماحولیاتی قانون ہے اور الیکٹرک گاڑیوں، بیٹریوں اور دیگر صاف توانائی کی ٹیکنالوجی میں 390 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رہا ہے، کو منسوخ کرنے کی شدید خواہش جلد ہی سیاسی امتحان کا سامنا کرے گی۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق منتخب صدر ٹرمپ نے ماحولیاتی پالیسی ختم کرنے کا وعدہ تو کیا ہے لیکن انہیں اپنی پارٹی کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہو سکتا ہے جو صاف توانائی کے عروج سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ نو منتخب صدرٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے بنائے گئے ماحولیاتی قوانین کو ختم کرنے کا اظہار تو کیا ہے، لیکن کیا وہ ایسا کر سکتے ہیں؟ اس بارے بیشتر امریکہ میں موجود ماحولیاتی ماہرین اور پالیسی ساز خدشات کا اظہار کررہے ہیں۔ لیکن چند سیاسی مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا کرنا ٹرمپ کے لئے ممکن نہیں ہے کیونکہ امریکہ خود کلائمیٹ چینج کے اثرات سے محفوظ ہر گز نہیں ہے، اگر ٹرمپ ان قوانین کو ختم کریں گے تو ان کی پارٹی کا سیاسی مستقبل بھی داؤ پر لگ سکتا ہے، اور رپبلکنز میں موجود چند لوگ یہ ہر گز نہیں چاہتے کہ ایسے قوانین لاگو کیے جائیں جس سے امریکہ کا ماحولیاتی نظام مزید خطرات سے دوچارہواور رپبلکنز کا سیاسی مستقبل بھی داغدار ہو جائے۔

آصف مہمند ملٹی میڈیا جرنسلٹ ہے اور پچھلے 7 سال سے ماحول اور کلائمیٹ چینج کو پاکستان میں مختلف میڈیا پلیٹ فارمز کے لئے کور کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے