کنیڈا : ائیر پورٹ پر جب ایک شخص نے پسٹل ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی

مدتوں بعدآج دیر تلک تیز بارش میں بھیگ کر، اپنا ملک، اس ملک میں اپنا شہر، اس شہر میں اپنا پرانا محلہ، اس محلے میں اپنا پرانا گھر، اس پرانے گھر سے جڑی چھت، اس چھت سے جڑے پر نالے، ان پر نالوں میں جمع پانی، اس پانی میں ساتھ کھیلنے والے دوست، ان دوستوں سے جڑے قصے، ان قصوں سے منسلک قہقہے، ان قہقہوں سے جڑی یادیں، ان یادوں سے جڑی محبتیں، ان محبتوں سے جڑے دل، ان دلوں سے جڑی باتیں، ان باتوں کی حرارت، اس حرارت سے قائم زندگی ، سب ہی یاد آئے.

میں تقریبا ً ایک دہائی سے شمالی امریکہ میں واقع اس ملک کینیڈا میں مقیم ہوں۔ ہجرت کا سبب بتانا یہاں غیر ضروری سمجھتی ہوں کیونکہ وجہ کوئی بھی ہو ،ہر آنے والے کے دل کا حال کم وبیش یکساں ہے۔ ضرورت اس امر کو سمجھنے کی ہے کہ آیا یہاں رہائش پذیر ہونے کے بعد آپ کتنا اپنے آبائی ملک اور شہر کو یاد رکھتے ہیں ۔ ایک سوال جو اکثر رشتےدار اپنوں سے کرتے ہیں کہ کیا وہ بیرونِ ملک خوش ہیں اور کیا اپنا ملک چھوڑ کر ایک نئے خطے میں بسنا، ایک نئے مزاج کے لوگوں میں، نئی زبان، نئے لہجے، نئی ثقافت، نئے موسم، نئے کھانوں اور نئے اطوار کیساتھ "ورتھ اٹ” ہے؟ اسکا جواب ایک بڑی اکثریت کیلئے ابھی بھی نہیں ہے . کیونکہ وہ ملک، وہ شہر ،وہ محلہ ،وہ گھر جہاں آپکا جنم ہوا، بچپن اور بیشتر جوانی گزری . جہاں آپ کے والدین بہن بھائی اور دیگر عزیز اب بھی رہتے ہیں . جہاں آپ کے پرانے دوست، اساتذہ اور پہلی محبت اب بھی بستی ہے اور جہاں آپ کے پیاروں کی قبریں ہیں، اس شہر اس ملک کو نہ یاد کرنا صرف غیر فطری ہی نہیں بلکہ غیر انسانی بھی ہے.

مگر اس تمام بحث اور جذبات میں ضرورت اس سچ کو سمجھنے کی بھی ہے کہ جس نئے ملک نے آپکو بلایا، اپنایا، اپنی شہریت دی، آپکو روزگار اور رہنے کیلئے چھت دی۔ جہاں آپ خود کو آزاد، محفوظ اور بہتر محسوس کرتے ہیں . جہاں آپکو بہترین سہولیات اور ذہنی سکون میسر ہے – جہاں آپ ہر طرح کی مراعات وصول کررہے ہیں ۔ جہاں آپ اپنا حال اور مستقبل سنوار رہے ہیں – جہاں آپکو نچلے نہیں مگر برابر کے حقوق مل رہے ہو ں اور سب سے اہم جہاں آپکی جان اور مال محفوظ ہو – ایسے ملک کیلئے جتنا جانب دار اور وفادار رہا جاسکے رہا جائے –

ہجرت کا پہلا سال بہت بھاری گزرتا ہے – جہاں گھر والوں،دوستوں اور عزیزوں کی یاد ستاتی ہے اور پھر کھانا سرِفہرست- خاص کر شب رات،رمضان،عید،محرم اور ربیع الاول پہ دل غمزدہ رہتا ہے- پھر گاہے بگاہے سوشل نیٹورکس پہ اپنے گھر والوں کی تصاویر،ریل اور وڈیوز مزید اس آگ کو بڑھاوا دیتی نظر آتی ہیں جب تک آپ اپنے آپ کو فکرِ معاش میں مجبور اور محصور نہ کرلیں – مزے کی بات تو یہ ہے کہ پرانی دنیا میں جہاں جن باتوں کیلئےآپ ترستے تھے وہی باتیں بہت باتیں بہت حد تک اس نئی دنیا میں ناگوار گزرنے لگتیں ہیں جس میں سب سے پہلے آتی ہے تنہائی اور خاموشی – آپ حسرت سے سڑک کی جانب تکتے ہیں کہ کوئی گاڑی گزر جائے یا کوئی ہارن بجے، کوئی کوا کائیں کائیں کرے یا کوئی بچوں کا سڑک پہ کرکٹ کھیلتے شور سنائی دے – خامشی اعصاب پہ طاری ہونے لگتی ہے ۔ کبھی دل چاہتا ہے آذان کی آواز سنائی دے یا مسجد کا اعلان – کبھی دل کرتا ہے کوئی ملنے والا اچانک بن بتائے چائے پہ آجائے ۔

جہاں چاند رات کی رونق کو مس کرتے ہیں وہیں محرم کی نیاز اور سبیلیں۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ ملک اور یہاں کے ضابطے راس آنے لگتے ہیں جب آپ قاعدوں کے فوائد جاننے لگتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ انسانی وقت اور جان کی بہت وقعت ہے یہاں۔ دل خوش ہوجاتا ہے جب بس اور ٹرین اپنے صحیح وقت اور معینہ جگہ پہ آجاتی ہے – بس ڈرائیور آپ کو مسکراکر گڈ مارننگ کہتا ہے اور انتظار کرتا ہے کہ آپ پوری طرح سوار ہوں تو وہ گاڑی چلائے ۔ جب سڑک پہ چلتی گاڑئیاں سائیڈ پہ رک جاتیں ہیں تاکہ ایمبولینس اور آگ بھجانے والی گاڑی گزر سکے اور کوئی ان کے ساتھ نکلنے کی کوشش نہیں کرتا – لوگ سرکاری دفاتر میں تمیز سے لائن میں لگے رہتے ہیں اور اپنا نمبر آنے کا صبر سے انتظار کرتے ہیں۔ کوئی پولیس والے کو گالی نہیں دیتا بلکہ اگر بالواسطہ پولیس کی گاڑی سڑک یا سگنل پہ آپ کے پیچھے آکر رک جائے تو سانس رک جاتی ہے اور آپ تین بار چیک کرتے ہیں کہ کوئی لائیٹ تو خراب نہیں گاڑی کی یا سیٹ بیلٹ تو باندھا ہے نا؟ سڑک پہ یا گھر کے باہر کچرا پہنکنے کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا یہاں تک کہ کچرا اٹھانے والا اگر اپنی گاڑی سڑک پہ لگا دے آپ اسے ہٹانے کو کہیں یہ ممکن نہیں –

جہاں آپ خود سے زیادہ دوسرے کے سکون اور وقت کا خیال رکھنے لگتے ہیں اور کسی کے گھر جانے سے ایک ہفتے پہلے اسکی اجازت طلب کرتے ہیں کہ آیا وہ کہیں آرام تو نہیں کر رہا یا کہیں اور مصروف تو نہیں اور جب کسی کے گھر چلے جائیں تو کوشش ہوتی ہے کہ ایک مناسب وقت پہ جائیں اور لوٹ آئیں۔ کوئی پکنک کا پروگرام بنانے کیلئے بڑی بے صبری سے لونگ ویک اینڈ کا انتظار ہوتا ہے ۔ سفر کرنے کیلئے سک اور کیشو ئل لیوز گننی اور بچائی جاتیں ہیں۔

یہ تمام باتیں ایک ایک کرکے آپکی شخصیت کا حصہ بنتی جاتیں ہیں اور ایک وقت کے بعد ان ضابطوں سے انحراف آپکو گوارا نہیں ہوتا ۔ آپ مکمل طور سے کنیڈین بن جاتے ہیں اور یہ اکثر طعنے کی صورت آپ اپنے گھر والوں اور دوستوں سے سنتے ہیں کہ یار تو ،تو بالکل کنیڈین ہوگیا ہے اور پھر آپ اپنے نئے ملک کی وکالت کرنے لگتے ہیں ۔

اس ولایتی بننے کے عمل میں میری دانست میں آپ کے ورک پلیس کا بڑا دخل ہوتا ہے – ایک ایسی جگہ جہاں بھانت بھانت کے لوگ، بھانت بھانت کے مذہب، رنگ، شکل، زبان اور مزاج سے تعلق رکھنے والے ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اور اجتماعی مقصد کیلئے کام کرتے ہیں ۔ ایک ایسی جگہ جہاں لسانیت سے پرے آپ ایک دوسرے کا نظریہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ زندگی کے بہت سے بہترین سبق تو آپ اس ورک پلیس سے ہی حاصل کرلیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک جگہ ٹورنٹو کا ہوائی اڈا ہے جہاں میں کام کرتی ہوں۔

کل ایک بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا – ہم ڈیوٹی پہ اپنی پوسٹ پہ بیٹھے تھے ایک نوجوان آدمی تیزی سے ہماری طرف بڑھا، ہم نے توجہ سے اسکی طرف دیکھا کہ اسکے دستاویزات چیک کریں لیکن وہ آہستگی سے اپنا شیرف بیج دکھا کر دھیمی آواز میں گویا ہوا- اسکی تمام گفتگو کا لبِ لباب یہ تھا کہ ایک پولیس پریمئیر ابھی کچھ دیر میں یہاں سے گزرے گی وہ ایک آفیشل ٹوور پہ مڈل ایسٹ جارہی ہے اور اسکے ہمراہ ایک گارڈ ہوگا جس کے پاس اسلحہ ہوگا سو لہذا اسے سکیورٹی سے گزرنے کی اجازت دی جائے – ہم نے اسکی تمام کتھا سن کے اس کی عرضی متعلقہ حکام تک پہنچا دی اور بڑی بے صبری سے اس آفیشل کا انتظار کیا – کچھ دیر بعد دیکھا اس نوجوان کے ہمراہ چار لوگ سکیورٹی ایریا میں داخل ہوئے – نہ کوئی نقارے بجے نہ کوئی ہیومن چین بنائی گئی نہ کو ئی ہٹو ہٹو کا شور مچا نہ کوئی فوٹوگرافی ہوئی بلکہ ایک درمیانے قد کاٹھ کی ادھیڑ عمر عورت معمولی ہوڈی اور پائجامے میں ملبوس سر جھکائے تیز تیز قدموں سے گزر کر چلی گئی – مزے کی بات اسکے گارڈ کی بھی شخصیت بہت معمولی اور اسکا پستول بھی جیکٹ میں چھپا ہوا تھا – بوٹم لائن یہ کہ کسی کو کانو ں کان خبر نہ ہوئی کہ کوئی وی وی آئی پی گزر گیا-کسی عام کینیڈین کیلئے یہ بہت ہی معمولی بات ہے مگر میرے جیسے پاکستانی کنیڈین کیلئے یہ سب دیکھنا بہت محظوظ کن تھا اور اپنے آپ کو کینیڈین کہلاکر فخر کرنے کا ایک اور نادر موقع۔

رب سے ایک دعا رہتی ہے ہم دوہری شہریت والے دوہری شخصیت کے حامل نہ بنیں اور جب بھی وطنِ عزیز جائیں اپنے ساتھ یہ ولایتی تہذیبی اطوار اپنے ساتھ لیکر جائیں اور اپنے ملک اور شہر کو بھی وہی عزت اور حیثیت دیں جو پیچھے چھوڑ کے آئیں ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے