26نومبر 2024 پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک عجیب دن تھا جب تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے مظاہرین تمام رکاوٹیں ہٹا کر اسلام آباد کے ریڈ زون میں داخل ہو چکے تھے اور سوال اٹھنا شروع ہو گئے تھے کہ پورا ملک بند کر کے اسلام آباد کو کنٹینرز سے بھر کے ،رینجرز ،ایف سی، پولیس اور فوج تعینات کرنے کے باجود مظاہرین ریڈ زون میں کیسے داخل ہو گئے. اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے پہلے ہم اس سے ایک رات قبل کا منظر مانہ سمجھتے ہیں جب مظاہرین اسلام آباد داخل ہو چکے تھے اور وفاقی حکومت نے انھیں 26نمبر چونگی پر روکے رکھا تھا. اسی دوران مذاکرات کا ایک سلسلہ بھی چل رہا تھا ، بظاہر ایک بڑا بریک تھرو بھی ہو چکا تھا۔
بقول ترجمان کے پی حکومت بیرسٹر سیف کے جنھوں نے میڈیا کو یہ بتایا کہ عمران خان حالات کی سنگینی کو سمجھ چکے ہیں اور انھوں نے سنجہانہی میں دھرنے دینے پر رضا مند ظاہر کر دی ہے مگر حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کو سرپرائز تب ملا جب عمران خان کی اہلیہ بشرا عمران جو مارچ کی قیادت کر رہیں تھی، انہوں نے کوئی بھی فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور کہا ہم ڈی چوک میں ہی دھرنے دیں گے۔یہ وہ سیاسی حماقت تھی، جس سے تحریک انصاف کو ناقابل تلافی نقصان ہوا ڈی چوک پہچنے پر تحریک انصاف کے ورکرز نے خوب جشن منایا ،قیادت نے جذباتی تقاریر کی ،ڈی چوک پر قیام کا فیصلہ ہوا۔
حکومت آگ بگولہ تھی اور اسٹیبلشمنٹ محو فکر،کچھ وزراء اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرواسکنے پر وزیر داخلہ سید محسن نقوی سے نالان تھے مگر ساتھ ہی ساتھ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان روابط تیز ہوئے فیصلہ کیا گیا کہ ریاست چند ہزار مظاہرین کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے گی،بزور طاقت ریڈ زون خاکی کروایا جائے گا چنانچہ ہنگامی پلان ترتیب دیا گیا، آپریشن ہوا او ر گمان تھا کہ مظاہرین کو منتشر کر دیا جائے گا اور قیادت مزاحمت کرے گی اور بھی گرفتاری دے گی مگر قیادت نے تو موقع ملتے ہی راہ فرار اختیار کی، چند لوگ جو ٹرینڈ لوگ تھے جو خیبر پختونخوا حکومت کے پیٹرول پے تھے، انھوں نے کچھ مزاحمت کی مگر ریاست کے آگے ایک جھتا کتنی دیر ٹہر سکتا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب حکومت فرنٹ فٹ پر آکر کھیلنےگی اور تحریک انصاف اپنی سیاسی اور غیر سیاسی قیادت کی نا اہلی اور بزدلی کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو گئی،یوں 26نومبر کی شب پاکستانی سیاست کا ایک نیا باب لکھا گیا ،جس میں تحریک انصاف ولن اور حکومت کو ٹارزن گردانا گیا۔اب آتے ہیں اس سوال کی طرف جو زبان زد عام ہے یعنی کیا پاکستان میں سیاسی عدم استحکام یوں ہی جاری رہے گا ،یہ اس میں کوئی تبدیلی آئی گی۔کیا پی ٹی آئی پر پابندی لگانے سے یا خیبر پختونخوا میں گورنر راج کے نفاذ سے سیاسی چپقلش کم ہو جائے گی یا بالکل نہیں .
پاکستان کی سیاسی آب و ہوا بہتر بنانے کا ایک ہی حل ہے، وہ حل پاکستان کی پانچ اہم شخصیات کے پاس ہے۔نواز شریف ،آصف زرداری ،مولانا فضل الرحمان ،عمران خان اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر ۔ نواز شریف پاکستان کے اس وقت سب سے تجربہ کار سیاستدان ہیں، سب سے بڑے صوبے اور وفاق میں ان کی حکومت قائم ہے، ان کو اس وقت سرپرست کا کردار ادا کرنا چاہیے ،حالات اور وقت کا تقاضا ہے کہ میاں نواز شریف مولانا فضل الرحمان کو ساتھ لے کر عمران خان سے ملاقات کریں، ان کے سر پر دست شفقت رکھیں ، عمران خان کو بھی چاہیے وہ اس نفرت انگیز سیاست کا خاتمی کریں ،آئے روز دھرنوں کے نام پر وفاق پر دھاوا بونا بند کریں ،عمران خان ،نواز شریف،اور ملٹری اسٹبلشمنٹ تینوں اس ملک کی حقیقتیں ہیں ،ان تینوں فریقین کو ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنا ہوگا۔
مولانا فضل الرحمان کی سربراہی میں ایک مصالحتی کمیٹی تشکیل دی جائے جو یک نکاتی ایجنڈا پر کام کرے کہ اگلے چار سال اس سسٹم نے کیسے چلنا ہے، اس میں عمران خان کو سیاست کرنے کی اسپیس دی جائے اور کسی بھی الیکشن میں دھاندلی پر ایک کمیشن تشکیل دیا جائے جو پی ٹی آئی کے تحفظات کو سنے ، یہ وہ راستہ ہے جس پر چل کر پاکستان کے سیاسی اشرافیہ اور عام عوام اگلے چند سال سکھ کا سانس لے سکتے ہیں،مگر سوال پھر یہی کہ نواز شریف کو سیاسی بردباری اور عمران خان کو سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔