جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے وہ تو ہمارے سامنے ہے۔ اس سے بھی اہم مگر یہ ہے کہ اس سب کے پیچھے اسرائیل کا فکری بیانیہ کیا ہے؟
اسرائیل کے جنگی جرائم پر تو دنیا بھر میں بات ہو رہی ہے لیکن ان جرائم کے پیچھے جو بیانیہ کارفرما ہے اس پر بات نہیں ہو رہی۔
دسمبر2024 میں ، اسرائیل کی ہبریو یونیورسٹی کے استادا ور مورخ لی مورڈیکائی نے اسرائیلی جنگی جرائم پر ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی۔ یہ رپورٹ ان دنوں میرے زیر مطالعہ ہے۔ اس کے صرف ایک باب میں دیے گئے چند پہلوئوں کا خلاصہ میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کیونکہ اس میں اس سوال کا جواب موجود ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اسرائیلی جنگی جرائم کے حوالے سے یہ رپورٹ ایک شاندار دستاویز ہے۔ جس میں غزہ کی صورت حال کو مختلف زاویوں سے دکھایا گیا ہے۔ اس میں سے صرف ایک زاویہ آج کے کالم کا موضوع ہے۔اسرائیل کے فکری بیانیے کا مختصر ترین احوال لی مورڈیکائی نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔
1۔ اسرائیل کے صدر آئزک ییٹساگ ہیں ۔ یہ صاحب اپنے سرکاری بیان میں کہہ چکے ہیں کہہ غزہ میں عام شہریوں پر حملے بھی جائز ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وہاں کے بچوں ، بوڑھوں اور عورتوں میں سے ہر ایک کا قتل جائز ہے۔
2۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی افواج کو لکھے گئے خط میں غزہ کے فلسطینیوں کو عمالقہ قوم سے تشبیہہ دی۔ ( عمالقہ کو سمجھنے کے لیے طالوت اور جالوت کا واقعہ دیکھ لیجیے) ۔ یہودی مذہبی بیانیے میں جب کسی کو عمالقہ سے تشبیہہ دی جاتی ہے تو اس قوم کی عورتوں بچوں بوڑھوں سب کا قتل جائز ہو جاتا ہے اور ان کے گھر مکان تباہ کیے جا سکتے ہیں۔ انہیں کوئی ایسا حق دستیاب نہیں رہتا جو عام انسانوں کو اور حتی کہ دشمنوں کو بھی حاصل ہوتا ہے۔
3۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے فلسطینیوں کو ایسا جانور قرار دیا جس کی صرف شکلیں انسانوں جیسی ہیں ۔ لیکن انہیں انسان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ( عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقہ کی دائر کردہ درخواست میں اس کی پوری تفصیل موجود ہے کہ باقی کے اراکین فلسطینیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں)۔
4۔ سماجی برابری کی خاتون وزیر نے کہا کہ ہماری افواج غزہ میں کمال کر رہی ہیں۔ فلسطینی 80 سال بعد اپنے بچوں کو بھی ڈرایا کریں گے کہ یہودیوں نے ان کے ساتھ کیا کیا۔
5۔ لیکیوڈ پارٹی کے کنوینئر کا موقف ہے کہ غزہ میں کوئی بے گناہ نہیں ، جائو اور قتل کرو اور قتل کرو اور قتل کرو اور کرتے جائو۔
6۔ اسرائیلی فوج کا ٹیلیگرام چینل ـ’’ 72 Virginsـ‘‘ اپنی ڈاکومنٹریز میں مسلمانوں کو کاکروچ اور چوہوں کے نام سے پکارتا ہے۔
7۔ اسرائیلی جارحیت کے پہلے مہینے میں ٹوئٹر پر عبرانی زبان میں 18 ہزار سے زاید ایسے ٹویٹ کیے گئے جن میں غزہ کو مکمل طور پر تباہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
8۔ اسرائیل کے90 نمایاں ڈاکٹرز نے باقاعدہ خط لکھ کر حکومت سے مطالبہ کیا کہ غزہ میں شفا ہسپتال سمیت تمام ہسپتالوں کو تباہ کر دیا جائے۔ وہاں کے جانوروں کو کوئی حق نہیں کہ ان کے لیے کوئی ہسپتال باقی رہے۔
10۔ نمایاں اہل صحافت نے ٹویٹ کیے کہ پانچ سال سے بڑی عمر کا ہر بچہ اس قابل ہے کہ اسے قتل کر دیا جائے اور اگر زخمی ملے تو اس کو کوئی طبی امداد نہ دی جائے۔
11۔ جنگ کے تیسرے مہینے میں 42 فی صد اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ اسرائیل کو انٹر نیشنل لا کی کوئی پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔
12۔ اسرائیل کے مین سٹریم میڈیا میں اس کے اداکاروں ، گلوکاروں اور دیگر اہم لوگوں نے مل کر مہم چلائی کہ غزہ کو مکمل تباہ کیا جائے۔ تمام غزہ کو ختم کیا جائے۔ حتی کہ اس بچے کو بھی جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہے ختم کر دیا جائے۔ ’’ عربو تمہارے گائوں برباد ہو جائیں ‘‘ جیسے گانے چلائے گئے۔لاشوں پر کتے چھوڑے گئے ا ور ان کی ویڈیوز ہزاروں لوگوں نے فخر سے شیئر کیں۔
اب اس بیانیے کی عملی شکل بھی دیکھ لیجیے؛
سی این این کے مطابق غزہ پر فائر کیے تیس ہزار میزائلوں اور بموں میں سے قریب پچاس فیصد unguided تھے۔ یعنی ان کا کوئی مخصوص ٹارگٹ نہیں تھا۔ بس یہی کافی تھا کہ غزہ میں لوگ مریں گے اور عمارتیں تباہ ہوں گی۔ سارا غزہ ہی ان کا ٹارگٹ تھا۔ بچہ مرے یا بوڑھا ، ایک ہی بات ہے۔
چنانچہ اس جنگ کے صرف پہلے ایک ہفتے میں غزہ میں6 ہزار بم پھینکے گئے ۔ ( یاد ر ہے کہ عراق میں چھ سالوں میں امریکہ نے 3678 بم پھینکے تھے۔ عراق اور غزہ کا رقبہ بھی ذہن میں رکھیے۔ عراق ایک پورا ملک تھا ، غزہ ایک چھوٹی سی پٹی ہے)۔
مزید یہ یاد رہے کہ افغانستان میں امریکہ کی جانب سے جنگ کے تمام سالوں میں جتنے پھینکے گئے تھے غزہ میں صرف پہلے ایک ہفتے میں اس سے زیادہ بم پھینکے گئے۔
یوروریڈ ہیومن رائٹس مانیٹر کے مطابق جنگ کے پہلے 200 دنوں میں غزہ پر 70 ہزار ٹن گولہ بارد پھینکا گیا۔ جنگ کے پہلے چالیس دنوں اسرائیل نے محفوظ قرار دیئے گئے علاقوں میں 208 حملے کیے جن میں 2 ہزار پائونڈ گولہ بارود پھینکا گیا۔
اس رپورٹ میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ غزہ میں کیا ہوچکا ہے اور کیا ہو رہا ہے اور اسرائیل کے آئندہ عزائم کیا ہیں۔ غزہ کے لوگوں کو غزہ سے نکال کر دنیا کے کس کس کونے میں پھینکنے کے لیے کس کس ملک سے معاملات طے ہو چکے ہیں ، یہ احوال بھی بیان کیا گیا ہے۔
غزہ میں طبی سہولیات کا عالم کیا ہے ، غذائی مسائل کیا ہیں ، بیماریاں کس کس خوفناک نوعیت کی پھیل چکی ہیں ، یہ سب بھی اس رپورٹ میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
اسرائیلی افواج کی بربریت ا ور ان کے مائنڈ سیٹ پر بھی تفصیل سے بات کی گئی ہے۔غزہ کی ساحلی پٹی پر کس کس کی نظر ہے یہ احوال بھی اس رپورٹ میں لکھا ہے۔( اس کس کس میں کس پاکستانی سیاست دان کا کون سا ممدوح بھی موجود ہے ، یہ جاننا اب ہمارا کام ہے)۔رپورٹ پڑھیے آنکھیں کھولیے اور بولیے کہ یہ انسانیت کا قرض ہے۔