چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے موصول خط میں انہوں نے ازخود اختیارات کے حوالے سے سپریم کورٹ کو نوٹس لینے کی درخواست کی تھی۔
سپریم کورٹ میں آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے بتایا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کا خط آئینی بینچ کمیٹی کو بھجوا دیا ہے، کمیٹی اس خط کو دیکھے اور سماعت کے لیے مقرر کرنے کا فیصلہ کرے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے بتایا کہ عمران خان نے خط کے ساتھ ایک یو ایس بی فلیش ڈرائیو بھی بھیجی گئی ہے کہ جس میں میٹیریل ہے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے ’کورٹ پیکنگ‘ کے تاثر کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ سنیارٹی اور ججز ٹرانسفر دو الگ ایشوز ہیں، اگر جوڈیشل کمیشن کے 4 اراکین بائیکاٹ نہ کرتے تو پشاور ہائیکورٹ سے ایک قابل جج شامل ہو جاتا۔
’سچ بولوں تو ججز کے لیے جو نام دیگر لوگوں نے دیے وہ میرے ناموں سے اچھے ہیں، سنیارٹی اور ججز ٹرانسفر دو الگ ایشوز ہیں، سنیارٹی کے معاملے پر اپنی رائے دے چکا ہوں۔‘
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کے مطابق نیشنل جوڈیشل پالیسی کمیٹی کا ایجنڈا تیار کیا جاچکا ہے، جلد وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو بھیج دیا جائے گا تاکہ وہ نیشنل جوڈیشل پالیسی کمیٹی کے ایجنڈے پر اپنی سفارشات شامل کرانا چاہیں تو ممکن ہوسکے۔
چیف جسٹس یحییٰ ججوں کی جانب سے خطوط کا لکھا جانا پرانی عادتیں ہیں آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائیں گی، کونسلنگ شروع ہو گئی ہے آہستہ آہستہ ٹھیک ہو جائے گا۔
’مجھے خط ملنے سے پہلے صحافیوں تک پہنچ جاتا ہے، ایک چیف جسٹس کو ایک باپ کی طرح ہونا چاہیے، آپ کے جونیئر اگر آپ کو خط لکھ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے وہ اپنے ایشوز کا حل چاہتے ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کے خط لکھنے والے ججز سمجھتے تھے کہ لاہور والے ہو جائیں گے۔‘
جسٹس محسن اختر کیانی کیوں چیف نہیں بن سکتے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا کوئی چیف جسٹس بن گیا ہے، جب ہو گا پھر بات کریں گے۔
آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف وفد کے دو بنیادی تحفظات تھے، رائٹ آف پروٹیکشن آف پراپرٹی اور پروٹیکشن آف کنٹریکٹ رائٹس۔
چیف جسٹس کے مطابق سنیارٹی کے معاملے پر انہوں نے ایک جج کے نام پر اعتراض اٹھایا کہ یہ نام نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ ان کے خیال سے اس جج کا نام پانچ سینیئر ججز میں شامل نہیں تھا۔
ایکٹنگ جج لانے کی کیا ضرورت تھی؟ اس سوال پر چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ وہ انہیں سپریم کورٹ لانا چاہتے تھے، لسٹ میں ان کا نام نہیں تھا۔ ’میں نے کہا کہ مجھے ایسا بندہ چاہیے کہ جو ٹیکس میٹرز کو ڈیل کرے تو پھر کمیشن نے کہا کہ اس طرح سے آ سکتے ہیں۔‘
اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے خط کے حوالے سے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ انہوں نے 26 اکتوبر کو حلف لینے کے بعد اسی دن ان 6 ججز کو گھر بلایا، ان کا ایشو سپریم جوڈیشل کونسل کے ایجنڈے میں سر فہرست رکھا ہے۔