مٹی کی محبّت میں

سابقہ مشرقی پاکستان، بہاری اور دیگر کمیونٹیز کی بے مثل قربانیاں جو انہوں نے پاکستان کو ٹوٹنے سے بچانے کی لئے ادا کیں اور محصورین کی بے بسی کے حوالے سے کئی تاریخی حقائق پاکستان کا مین سٹریم میڈیا اور اکادمیا مجھ سے، آپ سے، ہم سب سے یا تو چھپاتا رہا ہے یا خود بے بہرہ رہا ہے یا اس طریقے سے ان کا ذکر نہیں کرتا کہ نوجوان نسل ان سے واقف رہے یا جڑی رہے۔

ایسا کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ کہاں کہاں سمجھوتے ہوئے ؟ کہاں کہاں تاریخ کو اس طرح مسخ کیا گیا کہ مطالعہ پاکستان مغالطہ پاکستان بن گیا اور اس موضوع کو پرائم ٹائم، کرنٹ افیئرز ،ٹی وی پروگرامز یا تھنک ٹینک کی توجہ کے لئے موزوں نہیں سمجھا گیا .

انور مقصود جیسے فنکار دانشمند بھی بڑی ہنر مندی سے چودہ اگست، ساڑھے چودہ اور پونے چودہ تک محدود رہے یا رکھے گئے اور لسانی تعصبات کے فروغ کو مزاح کا نام دے کر ایک عرصے تک پبلک کو ہنسایا گیا۔ فیض جیسے قد آور شاعر یا ناصر کاظمی جیسے معصوم شاعر بھی بنگال کی خوبصورتی تک ہی محدود رہے یا کیے گئے اور آشفتہ سروں کی بات جن کو میں مشرقی پاکستان کے پاکستانی بہاری ، غیر بنگالی اردو اسپیکرز کہتی ہوں کسی کی نظر ہی نہیں گئی۔ سقوط ڈھاکہ قومی المیہ نہیں بن سکا۔ اس دن قومی سوگ نہیں منایا جاتا، آخر کیوں ؟

پھر نفرت کی سیاست کو فروغ دیا گیا۔ اردو بولنے والوں اور دیگر قومیتوں کو بھی آپس میں لڑوایا گیا۔ یہ "نادیدہ ” قوتیں کون تھیں یا ہیں ؟ ہمیں معلوم ہی نہ ہو سکا یا ہمیں معلوم ہے مگر ہم بول نہیں سکتے،لکھ نہیں سکتے۔ آخر کیوں ؟

صورت حال کیا ہے ؟صرف پروپگنڈہ وار ہے۔ جس میں حقائق اور سچ کرچی کرچی ہو چکا ہے۔ کئی بار اپنے بلاگس اور کالمز کے ذریعے اس پہلو پر طاقتور سٹیک ہولڈرز کی توجہ دلانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ میرے کچھ دوست اور رشتے دار مجھ سے اکثر پوچھتے ہیں کہ میں یہ "کاوش ” ہی کیوں کرتی ہوں ؟ میں کہتی ہوں "پاکستان کے لیے ” تو وہ مجھے اس طرح دیکھتے ہیں جیسے میرا دماغ خراب ہے۔

یہ بھی سمجھ آ گئی ہے کہ وطن پرستی ایک بے رنگ، بے سبجیکٹ ہے۔ یہ دور ہے سنسنی خیزی کا، دروغ گوئی کا، جھوٹ ،مبالغہ آرائی،گلیمر، شوشا بکتا ہے۔ میں سوداگر نہیں ہوں،میں بیو پاری نہیں ہوں،یہ میری ذاتی ناکامی ہے۔ میرے پوڈ کاسٹس وائرل نہیں ہوتے۔ میری تحریر کو سوشل میڈیا پر فارورڈ نہیں کیا جاتا یا ان پر کمنٹس نہیں ہوتے۔

مجھے نہ تو سوشل میڈیا کے الگو رتھم کا پتا ہے نہ ہی میری پی آر مضبوط ہے۔ پھر بھی میں اپنے کام میں مگن ہوں۔ شائد کبھی ایسا وقت آ ہی جائے جب کرائے کے تخلیق کاروں، دانشوروں ،صحافیوں اور راہنماؤں سے عام لوگوں کا، عوام کا دل بھر جائے۔ جب ان پر ٹھیکے داروں کی وطن دوستی منکشف ہو جائے یا جب زندگی یا جامعات کے طالب علم نان فنڈڈ یا بنا اجینڈا کے صرف سیدھا سادہ مگر تکلیف دہ سچ جاننا چاہیں ، شائد تب ان کو میری یا مجھ جیسوں کے پوڈ کاسٹس ،کتابیں اور کالمز اپنی جانب کھینچ لیں.یہی وہ وقت ہوگا جب پاکستان اپنی سمت درست کرلے گا۔

میں نے ہمیشہ لکھا اور کہا ہے اور آج پھر یہ موقع ہے کہ ایک یاد دہانی کروائی جائے کہ انسان بشمول عورتیں کو لیٹرل ڈیمج نہیں ہوتے/ہوتیں۔امن تکریم کے ساتھ ہی قائم ہوتا ہے اور پائیدار رہتا ہے۔یاد رکھیں کہ روح پر لگے زخم سپورٹس ،ناچنے، گانے، ڈرامے ،فلمیں اور تھیٹر سے نہیں سلتے۔ ان طریقوں سے آگہی اور قربتیں ضرور بڑھائی جا سکتی ہیں مگر عدم مساوات ، نا انصافی ، انسانی تذلیل کا مداوا بڑے اقدامات میں ہے، جن کا تعلق اشتہار بازی ، ہلڑ بازی اور مختلف ناموں کے کارڈ والے منصوبوں سے ہرگز نہیں ہے۔

اگر کوئی یہ سطریں پڑھ لے تو مقتدرہ کو میری اپیل پہنچا دے۔ خدارا محصورین بنگلہ دیش کو واپس لے لیں اب تو بنگلہ دیش میں بھی اکہتر کی ” جنگ ” کے قومی نشانات مٹائے اور گرائے جا رہے ہیں۔ ایک نظر اپنے ستم زدہ لوگوں پر۔۔۔۔۔۔ جو بے گھر ہوۓ ، بے شناخت ہوئے مگر بے شرم اور بے ضمیر نہ ہوئے۔ پاکستان کو دو لخت ہونے سے بچانے کی کوششیں کرنے والوں کی پانچویں نسل پر، ایک ہم دلی کی نظر۔

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
(افتخار عارف)

ڈاکٹر رخشندہ پروین: ایک پاکستانی صحت عامہ اور صنفی امور کی ماہر ہیں اور ایک سوشل انٹراپرینور ہیں۔ مختلف سماجی ترقی کے سیکٹرز میں کام کرتی رہی ہیں اور کئی جامعات میں پڑھاتی بھی رہی ہیں۔ وہ پاکستان میں پی ٹی وی کی صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی خاتون اینکر ہونے کا اعزاز بھی رکھتی ہیں۔ صنف کے حوالے سے پی ٹی وی پر بطور نجی پروڈیوسر ان کی سال 1999 کی سیریز جینڈر واچ ایوارڈز بھی حاصل کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ جہیز بطور ایک تشدد اور صنفی تشدد کے خلاف ان کا کام نمایاں اور منفرد رہا ہے۔ گزشتہ بارہ سالوں سے وہ اپنی تحریر اور تقریر سے محب وطن بہاریوں خاص طور پر موجودہ بنگلہ دیش میں محصورین کے لئے بھی ایک آواز بن رہی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے