یہ اکتوبر 1972ء کی بات ہے بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔غوث بخش بزنجو گورنر اور سردار عطاء اللہ مینگل وزیر اعلیٰ تھے۔ کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی قائم ہو چکی تھی لیکن اس نئی یونیورسٹی کیلئے وائس چانسلر تلاش کیا جا رہا تھا ۔گورنر اور وزیر اعلیٰ کو نئے وائس چانسلر کیلئے بہت سے نام دیئے جا رہے تھے جن کا تعلق بلوچستان سے تھا ۔ایک دن گورنر غوث بخش بزنجو نے وزیر اعلیٰ مینگل سے پوچھا کہ کیا آپ نے پروفیسر کرار حسین کا نام سنا ہے؟ سردار عطا اللہ مینگل نے فوراً اثبات میں سرہلایا اور کہا کہ وہ کچھ سال پہلے کوئٹہ کے ایک کالج میں استاد تھے کسی وجہ سے جنرل موسیٰ خان نے انہیں ٹرانسفر کرا دیا تو ان کے کالج کے طلبا نے اس ٹرانسفر کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ گورنر بزنجو نے کہا کہ تو پھر ٹھیک ہے۔ پروفیسر کرار حسین کو بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کر دیتے ہیں۔
حکمران جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے کچھ ساتھیوں نے گورنر کو بتایا کہ پروفیسر کرار حسین کا ایک بیٹا تاج حیدر پیپلز پارٹی سے وابستہ ہے اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہماری صوبائی حکومت کو فارغ کرنا چاہتی ہے ایسا نہ ہوکہ مرکز اور صوبے کی لڑائی میں بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر کسی مشکل میں پھنس جائے۔ گورنر اور وزیر اعلیٰ نے ان تمام خدشات کو نظرانداز کردیا اور پروفیسر کرار حسین کو بلوچستان یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا گیا۔ جب کرار حسین کراچی سے کوئٹہ ایئرپورٹ پہنچے تو گورنر بزنجو ان کے استقبال کیلئے خود ایئر پورٹ پر موجود تھے۔ ایئرپورٹ پر موجود سرکاری افسران یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ گورنر صاحب نے آگے بڑھ کر پروفیسر کرار حسین کو سلام کیا اور ان سے ان کا ہینڈ بیگ لیکر بڑے ادب سے انکے پیچھے چلنے لگے۔ گورنر نے پورے صوبے کی بیوروکریسی کو یہ پیغام دیا کہ اسے استاد کا احترام کرنا ہے اور نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کسی صوبائی یا لسانی تعصب پر یقین نہیں رکھتی۔
1948ء میں ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے ایک استاد کو اسکی قابلیت کی وجہ سے صوبے کی سب سے بڑی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بنا دیا گیا۔ گورنر بزنجو اور وزیر اعلیٰ مینگل کی حکومت کو زیادہ عرصہ چلنے نہ دیا گیا اور وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس حکومت کو صرف دس ماہ کے بعد فروری 1973ء میں فارغ کردیا ۔چند سال بعد بھٹو صاحب کی حکومت کو 1977ء میں فارغ کر دیا گیا توپاکستان میں بدترین فوجی آمریت کی ایک طویل رات شروع ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایک فوجی ڈکٹیٹر نے اپنے غیر آئینی اقتدار کو طول دینے کیلئے مذہب کارڈ کا استعمال کیا اور قرآن کی آیات سناسنا کر قوم کو دھوکہ دیتا رہا۔ اس دور میں پروفیسر کرار حسین قرآن کی ان تعلیمات کو سامنے لائے جو آمریت کی نفی کرتی ہیں۔ ان کے ایک برخوردار تاج حیدر کسی زمانے میں کراچی یونیورسی میں ریاضی کے استاد تھے لیکن بعد ازاں پی ٹی وی کیلئے ڈرامے لکھنے لگے۔ جنرل ضیاء کے دور آمریت میں وہ کچھ عرصہ کیلئے بیرون ملک چلے گئے اور خاموشی سے مختلف یورپی ممالک میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو منظم کرنے لگے۔
جون 1982ء میں ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں پاکستان اور ہالینڈ کے درمیان چیمپئنز ٹرافی کا فائنل ہاکی میچ تھا پاکستان یہ میچ ہار گیا تھا لیکن اس میچ کے دوران تاج حیدر اسٹیڈیم میں موجود تھے۔ اس میچ کو مغربی پریس میں بڑی شہرت ملی کیونکہ جب پاکستان کی طرف سے سمیع اللہ نے واحد گول کیا تو اسٹیڈیم میں موجود پاکستانیوں کے ایک گروپ نے جنرل ضیاء کے خلاف بینر لہرا دیئے۔ یہ میچ پاکستان ٹیلی ویژن براہ راست دکھا رہا تھا اور جب پاکستان کے لوگوں نے اس میچ کے تماشائیوں کو ضیاء مخالف بینرز اور نعروں کے ساتھ دیکھا تو چند لمحوں میں پورے پاکستان کے ٹی وی اسکرینوں پر اندھیرا چھا گیا۔ ایمسٹرڈیم میں یہ ایکشن کرنے والوں میں وہاب صدیقی اور لال خان بھی شامل تھے جن کا تاج حیدر سے مستقل رابطہ تھا۔ اسی زمانے میں تاج حیدر نے پیرس میں ایک ٹریڈنگ کمپنی قائم کی یہ کمپنی پاکستان سے پیپلز پارٹی کے زیر عتاب کارکنوں کیلئے بزنس ویزوں کا بندوبست کرتی اور تاج حیدر ان کارکنوں کو پیرس سے لندن بھیج دیتے جہاں محترمہ بے نظیر بھٹو ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذریعے ان کارکنوں کے خاندانوں کیلئے ریلیف کا بندوبست کرتی تھیں۔ ان میں سے اکثر کارکن 1986ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے ہمراہ واپس پاکستان آ گئے۔ تاج حیدر اپنے والد کی طرح آدھے صوفی اور آدھے مارکسسٹ تھے۔ ہمیشہ غریب اور مزدور طبقے کے حقوق کیلئے آواز اٹھاتے رہے ۔
1995ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں سنیٹر بنایا تو اسلام آباد میں ان سے ملاقاتیں شروع ہوئیں وہ اپنے تمام بہن بھائیوں کی طرح بہت شائستہ، نفیس اور مسکرانے والے انسان تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وزیر اطلاعات شیخ رشید احمد نے محترمہ بے نظیر بھٹو پر الزام لگایا کہ انہوں نے پاکستان کے ایٹمی راز لیبیا کے صدر معمر قذافی کو بیچ دیئے تھے۔ میں نے پہلی دفعہ تاج بھائی کو بہت غصے میں دیکھا اور انہوں نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس میں شیخ رشید احمد کو منہ توڑ جواب دیا۔ تاج حیدر اتنے بے لوث انسان تھے کہ اکثر اوقات مجھے صرف سندھ نہیں بلکہ بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے عوامی مسائل کے حل تجویز کرتے اور اصرار کرتے کہ ان مسائل پر کالم لکھو یا جیو نیوز میں ان مسائل کو اجاگر کرو ۔عام طور پر ان کا فوکس مزدور طبقے اور کسانوں کے مسائل پر ہوتا کچھ سال پہلے انہوں نے مجھے تھر آنے کی دعوت دی ،وہ تھر کی عورتوں کو ٹرک چلاتا دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔ مجھے تھر کے موروں اور سرسبز کھیتوں کی تصاویر بھیجتے انہیں ذاتی نمود و نمائش میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
2023ء میں پیپلز پارٹی نے انہیں مرکزی سیکرٹری جنرل بنایا تو احساس ہوا کہ پارٹی کی قیادت ان کا کتنا احترام کرتی ہے۔ وہ آج کے دور میں ان چند سیاسی کارکنوں میں سے ایک تھے جن کا دامن ہر قسم کی سیاسی آلودگی سے پاک تھا اور اسی لئے تمام سیاسی جماعتوں کے کارکن ان کا احترام کرتے تھے۔ وہ خاموشی سے بہت سے ایسے کام کر جاتے جن کا کریڈٹ انکی پارٹی کی قیادت کو مل جاتا۔ ان کے اندر ایک ماہر ریاضی دان موجود تھا جو سیاسی حالات کو دو جمع دو چار کی طرح دیکھتا اور اسی لئے پاکستان کے سیاسی حالات پر کچھ عرصہ سے بہت پریشان تھے۔ جون 2022ء میں انہوں نے سینٹ کے بجٹ سیشن میں ایک یادگار تقریر کی تھی جس میں انہوں نے پاکستان کی گورننس کو ایک ایسے فٹ بال میچ سے تشبیہ دی جس میں بچوں کیلئے کوئی گول پوسٹ نہیں ہے اور بچے بغیر کسی ہدف کے ادھر سے ادھر زور دار ککس مارتے پھر رہے ہیں وہ اپنی روزمرہ کی گفتگو اور سیاسی تقاریر میں کسی فرد یا ذات کو ٹارگٹ نہیں بناتے تھے نہ ہی بلاوجہ کسی کو کک مارتے تھے ان کا ٹارگٹ ہمیشہ غربت، ناانصافی اور جبرو استبداد ہوتا تھا وہ ناصرف عام سیاسی کارکنوں بلکہ عام پاکستانیوں کیلئے بھی ایک رول ماڈل تھے۔ دوسروں کی تکالیف پر پریشان رہنے والے تاج بھائی نے پتہ ہی نہ چلنے دیا کہ وہ کینسر کا شکار ہوچکے ہیں اور ایک شام اچانک ہمیں چھوڑ گئے۔ تاج بھائی آپ کی مسکراہٹ ہمیں کبھی نہیں بھولے گی۔
بشکریہ جنگ