کسی نے کہاتھا:’’بعض لوگ کامیابی کے خواب دیکھتے ہیں لیکن باقی کامیابی کیلئے جاگتے ہیں۔‘‘ ان باقی لوگوں میں سے ایک تابندہ نعیم ہیں، جو پاکستان کے ایک عام متوسط گھرانے سے اٹھیں، محنت اور مشکلات سے گزرتے ہوئے دنیا کے بہترین میڈیا اداروں میں سے ایک ’ وائس آف امریکہ ‘سے وابستہ ہوئیں، اور آج کل واشنگٹن میں وائس آف امریکہ سے بطور انٹرنیشنل براڈ کاسٹر وابستہ ہیں۔ایک ملازمت پیشہ باپ اور گھریلو ماں کی اولاد۔ کوئی پوچھے کہ آبائی علاقہ کون سا ہے تو وہ سوچ میں پڑجاتی ہیں کہ والد کی ملازمت کی وجہ سے بچپن کاکچھ حصہ سندھ،کچھ ملتان اور پھر لاہور میں گزرا۔ اپنے گھرانے کی پہلی لڑکی تھیں ، جس نے لاہور بورڈ میں میٹرک کے امتحان میں پوزیشن ، سلورمیڈل اورسکالرشپ حاصل کیا، جو میرٹ پرکنئیرڈ کالج لاہور اورپھر پنجاب یونیورسٹی پہنچی،جس نے ایم اے ماس کمیونیکشن کے امتحانوں میں مسلسل دو سال تک تیسری پوزیشن حاصل کی۔
پوچھا کہ صحافت کی طرف رجحان کیسے پیدا ہوا؟ کہنے لگیں:’’بچپن سے کچھ نہ کچھ پڑھنے کا شوق تھا۔ اور خواہش تھی کہ اچھا یا برا ، کچھ لکھ سکوں۔ یہ خواہش اب بھی اپنی جگہ قائم ہے۔ اگرچہ وقت کی کمی اور صحافتی ذمہ داریوں نے خواہش کو کبھی ترجیح نہیں بننے دیا۔ ملازمت کا ارادہ کیا تو ایم اے پاس کئے پانچ سال ہو چکے تھے۔ میرے ساتھ کے لوگ صحافتی میدان میں مجھ سے کہیں آگے نکل چکے تھے۔ مجھ سے کہا گیا کہ صحافت کا شعبہ خواتین کیلئے بالکل بھی موزوں نہیں ہے، رات گئے تک کام کرنا پڑتا ہے،گھر واپسی کاکوئی وقت مقررنہیں ہوتا۔ میری بیٹی چھوٹی تھی۔ میرے گھر کے کچھ اصول تھے۔ لیکن میں یہ بھی جانتی تھی کہ میں کوئی سا بھی کام،کوئی سی بھی ملازمت نہیں کر سکتی، سکول میں نہیں پڑھا سکتی، بینک میں کام نہیں کر سکتی۔ مجھے اگر کام کرنا ہے، تو وہی کرنا ہے ، جو میں سمجھتی ہوں کہ میں بہتر کر سکتی ہوں۔ میں ملازمت برائے ملازمت اور ملازمت برائے پے چیک پر یقین نہیں رکھتی‘‘۔
آغاز کہاں سے کیا؟ تابندہ نے بتایا، ’’پہلی ملازمت لاہور کے ایک اردو روزنامے سے شروع کی۔ ایک سال نیوز روم کے مانیٹرنگ ڈیسک پر گزارا،خبر بنانی سیکھی، بی بی سی، وائس آف امریکہ، وائس آف جرمنی ، سی این این ، بھارتی نیوز چینلز ، غرضیکہ انٹرنیشنل میڈیا کو مانیٹر کیا۔ سنڈے میگزین کیلئے آرٹیکلز بھی لکھنا شروع کئے، ٹی وی پروگرامز پر تبصرے لکھے، پھر ایک سال تک اخبار کے سنڈے میگزین میں کام کیا، اہم شخصیات کے انٹرویوز اور ترجمے سے لے کر پروف ریڈنگ تک سب کچھ کیا ، پیجز کا لے آوٹ کیسے بنتا ہے ، ٹائٹل کیسے بناتے ہیں، خاص ایڈیشنز کی تیاری کیسے کی جاتی ہے، فوٹو سیشن کیا ہوتا ہے۔گویا صحافت کے اہم اور بنیادی رموز سیکھنے کا بے حد اہم تجربہ اسی اخبار میں حاصل کیا‘‘۔ کہتی ہیں ’’اخبار کی ملازمت کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ صحافت کے شعبے میں خواتین کے کام کرنے کے حوالے سے عمومی طور پر جو باتیں سننے میں آتی ہیں، ان میں مکمل صداقت نہیں ہے۔کم ازکم مجھے اخبار کی ملازمت کے دوران کبھی رات کو دیر تک دفتر میں رک کر کام نہیں کرنا پڑا۔ میرے ساتھ کام کرنے والے تقریبا سبھی لوگ بہت تعاون کرنے والے، عزت سے پیش آنے والے صحافی تھے۔ مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میرے کام کے دوران مجھے کوئی مسئلہ اس لئے پیش آرہا ہے کہ میں خاتون صحافی ہوں‘‘۔
تابندہ نعیم سن 2002ء4 میں پاکستان کے ایک پرائیویٹ نیوز چینل کی اولین ٹیم کا حصہ بنیں۔اخبارکی ملازمت کے دوران انہیں کبھی باقاعدہ نیوز رپورٹنگ نہیں کرنی پڑی تھی، کبھی شہر سے باہر نہیں جانا پڑا تھا لیکن نیوزچینل کا حصہ بن کر سب کام سیکھنے پڑے اور ان کا عادی ہونا پڑا۔ کراچی میں سی این این کی ٹریننگ ٹیم سے ڈیڑھ ماہ ٹی وی نیوز، پروڈکشن، ایڈیٹنگ ، نیوزگیدرنگ کی تربیت لی اورپھر لاہور میں ٹی کی رپورٹنگ کرتی رہیں۔ وہ کہتی ہیں ، ” میری سکرپٹ رائٹنگ اچھی تھی، اس لئے لاہور سے بہت سے مختصر اور طویل دورانئے کے فیچر پیکجز بنائے۔ اس وقت چینل کا ماسٹر کنٹرول روم دبئی میڈیا سٹی میں تھا۔ تین تین ماہ کیلئے تین مرتبہ وہاں جاکر کام کرنے کا موقع ملا۔ خبریں بنانے، ترجمہ کرنے اورپیکج پروڈیوس کرنے سے لیکر ، رن ڈا?ن اور پینل پروڈیوسر تک کی سب ذمہ داریاں نبھائیں‘‘۔ دو ہزار تین میں انہیں جرمنی کی ایک میڈیا ایگزی بشن میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا، اس کے لئے برلن، فرینکفرٹ اور میونخ بھی گئیں۔ 2005 میں برطانیہ کے عام انتخابات کی کوریج کے لئے لندن ، مانچسٹر اور لوٹن جیسے برطانوی شہروں سے براہ راست نیوز رپورٹنگ کی۔ ان کا کہناہے :’’ ہر نئے ملک اور نئے سٹیشن پر کام کا طریقہ کار اور حالات کار مختلف ہوتے ہیں۔ جب کوئی ادارہ کسی صحافی کوکوریج کی ذمہ داریاں دے کر کسی دوسرے شہر یا ملک بھیجتا ہے تو وہ صرف اعزاز ہی نہیں ہوتا،بہت بڑاچیلنج اور ذمہ داری بھی ہوتی ہے۔ اگر رپورٹر اس ذمہ داری کو بھرپور طریقے سے ادا کر سکے تب ہی وہ اپنے پیشے اور ادارے کا قرض ادا کر سکتا ہے‘‘۔
تابندہ نعیم کہتی ہیں :’’ ہر مسئلے اور ہر سٹوری کے کچھ انسانی پہلو ایسے ہوتے ہیں، جنہیں ایک خاتون صحافی زیادہ حساسیت کے ساتھ محسوس اور بیان کر سکتی ہے۔ ہر نیوز سٹوری کے پیچھے ایک ہیومن سٹوری ہوتی ہے اورخواتین صحافیوں کے پاس اس نیوز سٹوری کے ہیومن اینگل تک پہنچنے کا اضافی edge ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ میں نے پاکستان میں اپنے کام کے دوران اسی پہلو پر زیادہ توجہ دی ہے اور مجھے دلچسپی بھی اسی میں زیادہ تھی ‘‘۔
وہ کہتی ہیں ، ’’ٹی وی نیوز کا کاروبارچونکہ چوبیس گھنٹے چلتا ہے۔ اس لئے ٹی وی کیلئے بطور رپورٹر اور پروڈیوسر کام کرنا اخبار کے مقابلے میں کہیں سخت اور محنت طلب کام تھا۔ یہاں پہلی مرتبہ میرے صحافتی تجربے میں وہ مقام آئے، جب کسی سٹوری کی ڈیڈ لائن پوری کرنے کے لئے رات گئے تک دفتر میں بھی رکنا پڑا۔لیکن یہ ایک پروفیشنل ادارے کے پروفیشنل ماحول میں اس پروفیشنل ذمہ داری کا حصہ تھا، جو میں نے اپنی مرضی سے اپنے سر لی تھی۔ ٹی وی کی ٹریننگ مکمل ہونے سے لے کر چینل کی لانچنگ تک، تین مہینوں تک ہم میں سے کسی ٹیم ممبر کو ہفتہ وار چھٹی نہیں ملی تھی۔ لیکن چونکہ کام نیا تھا اس لئے ہم سب میں سیکھنے کا جوش اور ولولہ بھی زیادہ تھا اور اس کام کو سیکھنے اور کرنے میں لطف بھی بہت آیا۔ جس دن کوئی ٹی وی رپورٹر کسی روٹین کی ڈیوٹی سے غیر متوقع طور پر کوئی اہم اور دلچسپ رپورٹ لانے اور تیار کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، اس رات وہ سکون کی گہری نیند سوتا ہے کہ آج پورے دن کی محنت وصول ہو گئی۔ ٹی وی کا معیاری کام ، وقت، برداشت ،اور مستقل مزاجی مانگتا ہے، اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے‘‘۔
پاکستانی پرائیویٹ چینل میں تقریباً چار سال تک کام کرنے کے بعد ’وائس آف امریکہ‘ کے پہلے اردو ٹی وی پروگرام ’خبروں سے آگے‘ میں کام کرنے کیلئے تابندہ کو امریکہ آنے کا موقع ملا۔ ” پروفیشنل اور ذاتی ، دونوں حوالوں سے یہ بہت بڑی تبدیلی تھی، میرے گزشتہ صحافتی تجربات سے کافی مختلف۔ملازمت پیشہ خاتون اگر ماں بھی ہے ، اس کی کچھ نہ کچھ گھریلو زمہ داریاں بھی ہیں، تو اس کے مسائل کی نوعیت اس کے مرد ساتھیوں سے کافی مختلف ہوتی ہے۔گھر والوں کی مکمل سپورٹ اور انڈرسٹینڈنگ کے بغیرکوئی خاتون ، خاص طور پر صحافی خاتون پاکستان میں توکیا، امریکہ میں بھی اپنے کام سے انصاف نہیں کر سکتی۔۔۔چاہے وہ ملازمت آسان ہو یا مشکل،کم وقت طلب ہو یا زیادہ وقت طلب۔۔۔۔میرے گھر والوں نے، خاص طور پر میری والدہ نے میرے کیرئیر کے ہر مرحلے پر میرا بہت ساتھ دیا۔ ان کی مدد کے بغیر میرے لئے شہر یا ملک سے باہر جاکر کوئی اسائنمنٹ کرنا بالکل ممکن نہ ہوتا‘‘۔
تابندہ کہتی ہیں:’’ آج مجھے’وائس آف امریکہ‘سے منسلک ہوئے دس سال ہو چکے ہیں۔ ان دس برسوں میں ’وائس آف امریکہ‘ نے پاکستان کے میڈیا لینڈ سکیپ میں آنے والی تبدیلیوں کی روشنی میں اپنی پروگرامنگ میں کئی تبدیلیاں بھی کیں۔ میں نے بھی امریکہ اور پاکستان کے تعلقات، امریکی انتخابات، شدت پسندی کے خلاف جنگ، کامیاب پاکستانی امریکیوں ، مسلمان امریکیوں کی زندگیوں اور امریکی سیاست میں فعال ہونے کی کوششوں پر ڈھائی منٹ دورانئے سے لے کر آدھے آدھے گھنٹے کی ڈاکومینٹریز تک ، ہر قسم کی پروگرامنگ پروڈیوس کی۔ پروگرامز کی پلیننگ سے لے کر کوٹینٹ سپرویڑن تک ، کاپی ایڈیٹنگ سے لے کر فیلڈ رپورٹنگ تک، سب کام کئے۔ ٹیلویڑن کی تکنیکی باریکیوں کے بارے میں بھی بہت کچھ یہاں سیکھنے کو ملا۔ اب اپنی کسی وڈیو رپورٹ کی ایڈیٹنگ سے لے کر وڑول افیکٹس تک کیلئے مجھے کسی پروفیشنل وڈیو ایڈیٹر کی ضرورت نہیں پڑتی‘‘۔
تابندہ کہتی ہیں کہ ،’’ وائس آف امریکہ ایک سرکاری ادارہ ہے۔ پاکستان کے ہرنجی اور سرکاری ادارے کی طرح اسکے بھی کچھ اپنے اصول، اپنی پالیسیاں ، اپنی حدود اور ضابطے ہیں۔ جن سے تجاوز کرنے کی اجازت یہاں کسی سینئر یا جونئیر صحافی کونہیں دی جاتی۔ پاکستانی میڈیا میں بعض اوقات جس قسم کی زبان اور موضوعات ٹاک شوز اور مارننگ شوز کا حصہ بن جاتے ہیں۔ وائس آف امریکہ میں ہم ایسی کوئی چیز صحافت کے نام پر نہیں کر سکتے۔ کوئی رپورٹر سٹوری تب تک فائل نہیں کر سکتا ، جب تک وہ متوازن نہ ہو، جب تک اس میں دونوں فریقوں کی رائے شامل نہ کی گئی ہو۔ لیکن یہ پاکستانی اور امریکی انداز صحافت کا فرق نہیں، صحافت کا وہی بنیادی اصول ہے ، جو میں نے سب سے پہلے پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں ہی سیکھا تھا‘‘۔
امریکہ میں زندگی پاکستان سے کتنی مختلف ہے؟ تابندہ کہتی ہیں:’’ کافی مختلف۔ گھر سے دفترپہنچنے سے لے کرسٹوری کی جستجو کرنے تک ، بچے کی تعلیم اور بحیثیت والدین آپ کی اس میں حصہ داری تک، خاندانی سٹرکچر سے لے کر،گھر کے افراد کے ایک دوسرے پر انحصار تک۔۔ان سب مراحل میں یہاں آنے والے ہر پاکستانی کو زندگی جیسے نئے سرے سے شروع کرنا سیکھنی پڑتی ہے۔ ایک خاتون کے طورپر امریکی معاشرے میں کچھ آسانیاں بھی ہیں۔ لوگ اپنے کام سے کام رکھنا پسند کرتے ہیں۔آپ کو ایک فرد سمجھا جاتا ہے صرف خاتون نہیں۔ سرکاری دفاتر میں اپنا جائز کام کرانے کے لئے کوئی انسان آپ سے ناروا رویہ اس لئے نہیں رکھ سکتا کہ وہ ایک اختیار والی کرسی پر بیٹھاہے اور آپ ایک عام آدمی ہیں۔ دفتر کے راستے میں، کام کے دوران، آپ کو روز کسی نئے نسلی یا مذہبی پس منظر کے حامل انسان سے ملاقات کا موقع ملتا ہے اور آپ کو یہ جان کربہت حیرت اور خوشی ہوتی ہے کہ اس کی کہانی اور آپ کی کہانی میں ، اسکی کمزوریوں اور آپکی کمزوریوں میں ، اسکے خوابوں اور آپکے خوابوں میں کچھ نہ کچھ بالکل ایک جیسا ہے۔مثلاً یہاں آنے سے پہلے، میں نے کسی انڈین، کسی ہندو، کسی گورے، کسی کالے، کسی یہودی ، کسی عیسائی کو قریب سے نہیں دیکھا تھا۔ ہم جسے دیکھ نہیں سکتے، اس کے بارے میں خو د ہی اپنے ذہن میں تصویریں بنالیتے ہیں، عام طور پر بری تصویریں۔ لیکن زندگی میں اگر یہ موقع ملے کہ دیوار کے دوسری طرف کے انسان کو قریب سے دیکھ سکیں تو خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ وہ ہم سے کتنا ملتا جلتا انسان ہے‘‘۔
تابندہ کہتی ہیں ,’’پاکستان کی طرح امریکہ میں بھی صحافتی میدان میں اکثرخواتین کو ہر بڑی سٹوری کیلئے اپنے مرد ساتھیوں سے زیادہ کام کیلئے تیار رہنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں بھی خواتین اکثر گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ صحافتی کیرئیر بہت زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ پاتیں۔ امریکہ میں بھی میڈیا کے نیوز رومز میں انتظامی عہدوں پرابھی خواتین کی تعداد زیادہ نہیں ہے۔ چیلنجز تو دنیا بھر میں ایک ہی جیسے ہیں۔ خواتین کیلئے بھی اور خواتین صحافیوں کیلئے بھی۔ میں بھی اپنے راستے میں آنے والے ہر نئے تجربے، ہر نئی ناکامی اور ہر نئے موقع سے ، ہر روز ،کچھ نہ کچھ نیا سیکھ رہی ہوں،کام دلچسپ ہے، چیلنجنگ ہے مگرممکن ہے‘‘۔
نوٹ: یہ انٹرویو روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ سینئر صحافی عبیداللہ عابد نے اپنے ادارے کے لیے کیا ہے ۔ ادارہ آئی بی سی اردوان کے شکریہ کے ساتھ شائع کر رہا ہے ۔