کسی گاوں کے کنارے پر ایک پرانا مقبرہ ہوا کرتا تھا۔ مشہور تھا کہ وہاں ایک بھوت ہے۔ اگر کوئی شخص رات کے وقت اس مقبرے میں چلا جائے تو پھر وہاں سے واپس نہیں آتا۔ صبح اس کی لاش ہی ملتی ہے۔ اس لئے خوف کے مارے رات کے وقت اس مقبرے کے اندر جانا تو دور کی بات،،، لوگ اس کے قریب سے بھی نہیں گزرتے تھے۔ ایک نوجوان جو بھوت اورڈائن وغیرہ کے وجود پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ ایک دن اس نے کہا ” یہ صرف بھے کا بھوت ہے ۔ میں اگر رات کے وقت مقبرے کے اندر جا کر واپس آجاوں تو مجھے کیا انعام ملے گا "۔ گاوں کے لوگوں نے کہا ” ہم تمہیں دس روپے انعام دینگے مگر ہمیں یہ کیسے پتہ چلے گا کہ تم وہاں سے ہوکر لوٹے ہو۔”؟؟؟ آخر صلاح مشورے کے بعد اس کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی۔ ” تم کل رات بارہ بجے یہ کیل لیکر مقبرے کے اندر جاو گے۔ اس کیل کو قبر کے سرہانے کی طرف گاڑ کر واپس آو گے۔ صبح ہونے پر ہم لوگ وہاں جا کر دیکھیں گے۔ اگر کیل گڑی ہوگی تو تمہارا انعام تمہیں مل جائے گا اور اگر تم وہاں نہیں گئے تو دس روپے کی مٹھائی منگوا کر ہم لوگوں کو کھلاو گے۔ ”
رات آنے پر وہ نوجوان کیل لیکر مقبرے کے اندر گیا اور قبر کے سرہانے کی طرف کیل گاڑ دی اور جوں ہی وہاں سے اٹھ کر واپس چلنے لگا تو اسے ایسا معلوم ہوا جیسے کسی نے اس کے کرتے کا دامن پکڑ لیا ہو۔ لاکھ ہمت کے باوجود، نفسیاتی اثر کے سبب اس کے ذہن اور دل میں کچھ نہ کچھ تو خوف موجود تھا ہی۔ اب اس کا یہ معمولی خوف یقین میں بدل گیا۔ وہ سمجھا بھوت نے پکڑ لیا ہے۔ وہیں گر کر بے ہوش ہوگیا اورمارے خوف کے حرکت قلب بند ہوجانے کے سبب مر بھی گیا۔ جب گاوں کے لوگ صبح ہونے پر اس کی تلاش میں مقبرے کے اندر گئے تو اس کی لاش پڑی ہوئی تھی اور کرتے کے دامن سے ہوتی ہوئی کیل زمین میں گڑی تھی۔ کیل گاڑتے وقت جلدی میں اس کا دامن بھی کیل کی ذد میں آگیا تھا جو اس کی موت کا سبب بنا۔ گاوں کے لوگوں میں موجود ایک سیانا بے ساختہ بول اٹھا۔ ” دلیر آدمی تھا مگر بھے کے بھوت نے اسے مار ڈالا”۔
مملکت خداداد پاکستان کی جمہوری حکومتیں اور سیاستدان بھی اکثرو بیشتر ” بھوت اور ڈائن کے ” وہم ” کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کے اندر موجود ” بھے کا بھوت” اور "شک کی ڈائن ” انہیں ہر اک لمحے ڈراتی رہتی ہے کہ پاکستان میں ” جمہوریت خطرے میں ہے ” یہ جمہوریت ہر اس لمحے خطرے میں پڑ جاتی ہے جب کوئی بھی اس مظلوم پاکستان میں انصاف کی بالادستی، قانون کی حکمرانی اور میرٹ کی بحالی کی بات کرے۔ ہاں پاکستان میں جمہوریت خطرے میں ہے مگر جمہوریت کو یہ خطرہ کسی اور سے نہیں صرف سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں سے ہے جن کے لبوں پر تو اٹھتے بیٹھے، کھاتے پیتے، سوتے جاگتے، صرف اور صرف جمہوریت کا ذکر ہے مگر ان کے دل شاید جمہوریت کو کسی طور پھلتا پھولتا نیں دیکھنا چاہتے۔ اگر یقین نہیں تو گزشتہ دنوں ایک غیر سرکاری تنظیم کی جانب سے سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کے حوالے سے کئے جانے والے سروے پر نظر ڈال لیجئے۔
سروے بتاتاہے کہ سال 2015 میں سیاسی جماعتوں میں داخلی جمہوریت کا معیار 2014 کی نسبت 43 فیصد سے کم ہوکر 40 فیصد رہ گیا ہے۔ سروے کے مطابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز داخلی جمہوریت کے لحاظ سے مسلسل دوسرے سال ( یعنی حکومت میں آنے کے بعد سے ) کمزور ترین سیاسی جماعت قرار دی گئی ہے۔ سروے میں جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ جمہوری جماعت قرار دیا گیا۔ زیادہ تر سیاسی جماعتیں اپنے قائدین کی مرہون منت ہیں اور اکثر سیاسی جماعتوں میں انتخابات محض رسمی کارروائی ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی فیصلہ سازی والی تنظیمیں بھی عام طور پر کمزور اور غیر موثر ہیں۔ ان کے اجلاس شاذو نادر ہی ہوتے ہیں اور اہم فیصلوں میں ان کا کردار انتہائی کم ہوتا ہے۔ سروے میں آٹھ سیاسی جماعتوں کو 100 میں سے مجموعی طور پر صرف 40 نمبر ملے جو سال 2014 میں کئے گئے سروے کے مقابلے میں 3 فیصد کم ہیں جس کا ایک مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ ایک طرف ملک میں جمہوریت” مظبوط ” ہو رہی تھی تو دوسری جانب سیاسی جماعتوں میں ” آمریت "۔
غیر سرکاری تنظیم کے سروے کے مطابق، جمہوریت کے اس امتحان میں جماعت اسلامی 56 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر،نیشنل پارٹی 47 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر جبکہ پاکستان تحریک انصاف 44 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ عوامی نیشنل پارٹی کا 40 فیصد کے ساتھ چوتھا اور پاکستان پیپلز پارٹی کا 36 فیصد کے ساتھ پانچواں نمبر رہا۔ متحدہ قومی موومنٹ اور جمیعت علما ئے اسلام ف جمہوری کلچر میں صرف ” پاسنگ مارکس ” یعنی 100 میں سے 33 نمبر ہی لے سکیں۔ ملک پر تیسری بار اور صوبہ پنجاب میں چھٹی بار حکومت کرنےو الی مسلم لیگ نواز، 100 میں سے صرف 31 نمبر لیکر جمہوریت کے اس امتحان میں ” فیل ” ہوگئی۔ یوں اس سروے نے ثابت کیا ہے کہ جماعت اسلامی، ملک کی سب سے مظبوط جمہوری روایات جبکہ حکمران جماعت مسلم لیگ نواز سب سے کم جمہوری روایات رکھنے والی جماعت ہے۔
حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے سربراہ اور ملک کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی جمہوریت پسندی کے تو اپنے اور پر ائے سبھی گواہ ہیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی، کابینہ اور پارٹی سے مشاورت اور صوبوں کے درمیان اتفاق رائے کے وہ کتنے قائل ہیں اس کا جواب پارلیمنٹ میں ان کی ” مسلسل” آمد، ” آئے دن ” کے کابینہ اجلاسوں اور مشترکہ مفادات کونسل کی ” پے درپے ” بیٹھکوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ میرے منہ میں خاک ! کہیں میاں صاحب کی حالت بھی گاوں کے اس ” بہادر ” نوجوان جیسی تو نہیں جو ” جمہوریت بچانے کی کوشش میں ” آمریت کی کیل اپنے دامن میں گاڑ کر” بھے کے بھوت” اور "شک کی ڈائن” کو مظبوط کرنے پر لگے ہیں۔