وہ بیمار نہیں طاقتورتھا

اب وہ شخص واقعی بوڑھا اور کمزور ہو چکا ہے۔ اپنے دورِ اقتدار میں پارلیمنٹ سے لے کر ڈی چوک تک مکے لہرا کر اپنی طاقت اور جواں مردی کا اظہار کرنے والے اس شخص کی جوانی تو کب کی ڈھل چکی، اب تو چہرے کی جھریاں اس کی ضعیفی کا پتہ دیتی ہیں۔ اب تو اس کی چال ڈھال بھی اس کی عمر رسیدی کا چلتا پھرتا ثبوت ہیں۔

عمر کے اس حصے میں ایک شخص کو جتنی بیماریوں نے گھیرنا ہوتا ہے ان میں سے اکثر اس 72 سالہ شخص کو بھی لگ چکی ہیں۔

سنگین غداری مقدمے کی شروعات میں جس شخص کا بلڈ پریشر جواں سال لڑکے کی طرح ہونے کی گواہی وکیل استغاثہ دیا کرتا تھا، اب اس شخص میں وہ بات ہی نہیں رہی۔

عدالتی حکم پر بننے والے میڈیکل بورڈ کی رپورٹ پر خصوصی عدالت نے بھی فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ رپورٹ کے مطابق ایسی کوئی خطرناک بیماری نہیں کہ ملزم عدالت میں بھی نہ آسکے۔

وہ تب کی بات ہے اور ان تین سالوں میں بلڈ پریشر دن بہ دن بڑھتا رہا، کمر درد کو ایک عرصہ ہوچکا، غدود بڑھنے کی شکایت کو بھی تین سال ہو چکے، اب ریڑھ کی ہڈی کا معاملہ اتنا سنجیدہ ہو چکا ہے کہ بقول دفاعی وکیل کسی بھی وقت فالج کا حملہ ہوسکتا ہے۔

یہ تمام بیماریاں، عمر رسیدی، ضعیفی اور گھٹن والے ماحول کی یکسانیت اور جسمانی کمزوریوں کے باوجود وہ شخص آج بھی اتنا مضبوط اور بااثر ہے کہ کوئی عدالت، کوئی حکومت، یہاں تک کہ عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ بھی، ان کے خلاف کچھ کر نہ سکی۔

اس عمر میں بھی وہ 12 اکتوبر 1999 سے لے کر 3 نومبر 2007 تک اٹھائے گئے تمام اقدمات کا تنِ تنہا دفاع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ وہ ججوں کو معزول کرنے کی بات سرے سے نہیں مانتے، اکبر بگٹی کے قتل پر نہیں پچھتاتے اور لال مسجد آپریشن کو حکومت کا اجتماعی فیصلہ مانتے ہیں۔ وہ یہ سب کر چکے لیکن پھر بھی کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔

تصور کریں کہ اگر کسی عام شخص کو ایسے مقدمات کا سامنا ہو تو کیا وہ اس طرح آرام سے اپنی رہائش گاہ پر رہ سکتا ہے، دوستوں سے ملاقاتیں کرسکتا ہے اور روزانہ ملکی و غیر ملکی ٹی وی چینلز کو انٹرویو دے سکتا ہے یا اپنی پارٹی کے اجلاسوں کی صدارت کر سکتا ہے؟

عام شہری تو کیا عام شہری کے ووٹ پر بنی حکومتوں کے سربراہان کا بھی عدالتی مقدمات میں جو حشر نشر ہوا، وہ سب کے سامنے ہے۔

یہ بھی تو ہماری تاریخ کا بدترین باب ہے کہ کس طرح ایک منتخب وزیرِ اعظم کو ایک فوجی آمر کی ایما پر براہِ راست ہائی کورٹ سے مقدمہ شروع کروا کر سزائے موت دلوائی گئی اور سپریم کورٹ سے اس پر مہر لگوا کر تختہ دار پر پہنچا دیا گیا، بھلے ہی بینچ کے 9 میں سے 4 ججز نے اختلافی نوٹ لکھا تھا۔

وہ بھی تو ہماری اپنی ہی عدالتیں تھیں نہ جو ایک اور وزیرِ اعظم کو نام نہاد ہائی جیکنگ کیس میں عمر قید تک کی سزا دے دی تھی۔ آمریتی ادوار کی عدالتوں کا تو کیا کہنا مگر جمہوری حکومتوں میں لگی عدالتوں نے بھی تو کمال کیے ہیں۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دنوں میں ایک وزیراعظم کو ایک ایسے مقدمے میں چلتا کیا جو مقدمہ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔ ایک وزیراعظم کو گھر بھیجنے کے بعد اسی مقدمے میں دوسرے وزیراعظم کو طلب کرکے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہا۔

اور تو اور میمو گیٹ میں ایک سویلین صدر کو ایوان صدر سے باہر نکالنے کی باتیں بھی کی گئیں۔

کبھی تو لگتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ خود کو دہرا رہی ہے اور پرویز مشرف بھی جنرل یحییٰ خان کی طرح بااثر اور مضبوط ہیں، جنہیں ملک کے دولخت کرنے کا ذمہ دار تک نہیں ٹھہرایا گیا، اور پھر ان کی زندگی کے آخری لمحے تک ان کے خلاف ملکی قانون اور قانونی مشینری نظربند کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکی۔

ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف کوئی ایک مقدمہ تو درج نہیں، ایک ہی وقت میں ان کے خلاف بینظیر بھٹو اور غازی عبدالرشید کے قتل کے مقدمے بھی چل رہے ہیں تو ججوں کو غیر قانونی طور پر نظربند کرنے، معزول کرنے اور ہراساں کرنے کا مقدمہ بھی ہے، مگر سب سے بڑا مقدمہ آئین شکنی کا ہے جو جرم ثابت ہونے پر اگر ملزم سزائے موت سے بچ نکل بھی جائے تو عمر قید ان کا مقدر لازمی بنتی ہے۔

یہ بات الگ ہے کہ اب تک پرویز مشرف کو اس مقدمہ سے کوئی نتیجہ نہ نکلنے کا یقین تھا اور کئی تکنیکی نکات کی بنیاد پر یہ مقدمہ خاص عدالت سے ہائی کورٹ اور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک جاتے جاتے پھر آکر خصوصی عدالت پہنچا ہے، جہاں اس عدالت نے ملزم کو 31 مارچ کو طلب کر رکھا ہے۔

اس مقدمے کی تمام تر پیچیدگیوں کو سپریم کورٹ نے حال ہی میں سنائے گئے فیصلوں سے آسان کر دیا ہے، اور اب یہ مقدمہ پھر سے خصوصی عدالت میں چلنا چاہتا ہے، لیکن اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اس بار کی پیشی پر سنگین غداری کا ملزم ملک میں موجود ہی نہیں ہوگا۔

اتنے کیسز، پیشیاں، وارنٹ اور سمن جاری ہوتے رہے لیکن نہ تو ملزم نے کبھی پرواہ کی نہ ہی کسی پیشی پر حاضری کو ضروری سمجھا۔ ملزم کی اس ‘مجبوری’ کو ایک عدالت تو سمجھ گئی اور اکبر بگٹی قتل کیس سے بری کر دیا۔

بینظیر بھٹو کے قتل کا مقدمہ ہو یا غازی عبدالرشید قتل کیس، بس تمام عدالتی کارروائی کو ایک ہی میڈیکل سرٹیفکیٹ کی مار سمجھ کر مطمئن ہو کر بیٹھنا کسی عام سے شہری کے بس کی بات تو نہیں۔ اور جب خصوصی عدالت سمن جاری کرے تو کون ہے جو عدالت جانے کے بجائے اے ایف آئی سی میں داخل ہوجائے؟

جب وارنٹ جاری ہوں تو شہر کے داروغہء خاص کو بھی ہسپتال میں داخلے کے لیے دو دن کا انتظار کروایا جاتا ہے۔ ملزم کے با اثر ہونے کا ڈر تھا یا ملزم کے حامیوں کا خوف، لیکن جب سپریم کورٹ ایگزٹ کنٹرول لسٹ کا کیس سن رہی تھی، تو وفاقی حکومت کا چیف پرنسپل افسر ملزم کو باہر بھیجنے کے حوالے سے کوئی ٹھوس مؤقف دینے سے کترا رہا تھا۔

جب بار بار عدالت نے سوال کیا کہ حکومت خود کیا چاہتی ہے تب بھی اٹارنی جنرل چپ ہی رہے۔ بس ایک ہی بات کرتے رہے کہ کیونکہ عدالت نے ملزم کا نام ای سی ایل میں رکھنے کا حکم دیا ہے اس لیے ہم نے بھی نام رکھا ہوا ہے۔

جب حکومت اپنے کاندھوں کا وزن عدالت پر ڈالنے لگی تو عدالت نے یہ ہی آبزوریشن دی کہ آپ اپنی ذمہ داری کیوں ادا نہیں کرتے اور عدالتی احکامات کے پیچھے چھپنے کی کیا ضرورت ہے؟

یہی نہیں بلکہ وفاقی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل نے ملزموں کی حراست کو ریگولیٹ کرنے کے حکومتی اختیارات سے دستبردار ہوتے ہوئے فرما دیا کہ یہ کام عدالتوں کا ہے، جس پر عدالت نے اس مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو گرفتار کرنا یا حراست میں رکھنا عدالت کا نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے۔ ہاں اگر کسی کو قانون سے ہٹ کر حراست میں رکھا جاتا ہے تو پھر عدالت معاملات دیکھے گی۔

پرویز مشرف کے ملک چھوڑنے کی آخری رکاوٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ختم ہو چکی ہے اور مشرف بھی بالآخر تمام مقدمات سے دور دبئی پہنچ چکے ہیں۔ پرویز مشرف کے باہر جانے پر مجھے دنیا کی ان تمام آمروں کے ملک سے جانے اور زندگی کے باقی دن ریاستی یا خودساختہ جلاوطنی کے دن یاد آ رہے ہیں۔

دنیا کی تاریخ کئی آمر حکمرانوں کی جلاوطنی کی داستانوں سے بھری ہوئی ہے۔ صدام حسین اور معمر قذافی کی موت تو اپنے ہی ملکوں میں ہوئی لیکن نپولین بونا پارٹ سے پنوشے اور رضا شاہ پہلوی تک کئی آمروں کو جلاوطنی کے دن کاٹنے پڑے تھے اور ان میں سے اکثر تو آخری دنوں میں وطن کی مٹی کو بھی ترستے رہے۔

مثالیں اتنی ہیں کہ صفحات کے صفحات بھرے جا سکتے ہیں۔ جس جس آمر نے سالوں تک اپنے اپنے ممالک میں شاہانہ زندگی گزاری ہے، آگے پیچھے جی حضوری کرنے والے مصاحب دیکھے ہیں، پچاس پچاس گاڑیوں سے کم جن کا قافلہ کبھی نہیں ہوتا تھا، انہوں نے جلا وطن ہو کر ہمیشہ غریب الوطنی ہی کی زندگی گزاری ہے۔

اس ملک کا آمر جنرل پرویز ملک سے جا تو رہا ہے لیکن اس ملک میں رہ کر اگر وہ عدالتوں سے بے خوف ہو کر کسی سویلین حکمران کی طرح مقدمہ لڑتا تو ہی بہتر تھا، کیونکہ ملک کے اندر کی گھٹن سے باہر کی آزاد فضا کی گھٹن جلدی کھا جاتی ہے۔

مگر شاید عدالتوں کا سامنا کرنا اتنا بھی آسان نہیں، اسی لیے جو ‘ڈرتا ورتا’ نہیں تھا، اس نے بھی پہلے اے ایف آئی سی کی پناہ میں اور پھر ملک سے نکل جانے میں ہی عافیت جانی۔

[pullquote]ابراہیم کنبھر اسلام آباد میں مقیم ہیں اور سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این سے وابستہ ہیں۔ [/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے