نیشنل بک فاونڈیشن کے زیر اہتمام ساتواں سالانہ قومی کتب میلہ پاک چائنا فرینڈ شپ سینٹر اسلام آباد میں منعقد ہوا، جو تین روز تک جاری رہا۔اس کتب میلہ کا سال بھر انتظار کیا جاتا ہے جس میں عاشقان علم کی پیاس بجھانے کے لئے جہاں لاکھوں کتابیں رعایتی قیمتوں پر دستیاب ہوتی ہیں وہاں بیک وقت درجنوں علمی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں۔غزل کا ارتقائی سفر ،جدید نظم ،افسانہ،اردو،انگریزی اور چینی کتاب خوانی،آرکیالوجی میوزیم ،کتاب محل،ماڈل لائبریری،کلام اقبال اور نہ جانے وہاں کیا کچھ تھا۔اسِ خواب نگر کے سیربین ہزاروں تھے۔مگر میں آپ کو احوال سنا رہاہوں یہاں بچوں کے ادب پر خصوصی نشست کا، جس کا انعقاد ایسوسی ایشن فار اکیڈمک کوالٹی(آفاق)اور کاروانِ ادب پاکستان کے تعاون سے کیا گیا تھا۔
معروف ڈرامہ نگاراصغر ندیم سیدکا کہنا تھا کہ بچوں کے رسائل نے انہیں بچپن میں مطالعہ کی راہ دکھائی اورلکھنے کا شوق پیداکیا۔محلہ لائبریریوں نے بھی بڑے ادیب پیدا کئے۔ان کا کہنا تھا کہ بچوں کے لئے علاقائی سطح پر رسائل شائع کئے جانے چاہیں جبکہ انہوں نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ وہ اب بچوں کے لئے بھی لکھیں گے۔
ممتاز ادیب اسلم کمال کا کہنا تھا کہ کہانیاں اور نظمیں بچوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔بچوں کے ذہن خالی پیالے کی مانند ہوتے ہیں ،چاہے ان میں شہد بھر دو یا زہر۔
ممتاز شاعر نذیر تبسم کا کہنا تھا کہ ہم اب بھی بچوں کو پچاس برس پرانا ادب پڑھا رہے ہیں،کئی کہانیوں پر تو اب بچے ہنستے ہیں۔وہ جنوں اور پریوں کی کہانیوں سے اب مطمئن نہیں ہوتے۔
ممتاز ادیب اسلام نشترنے کہا کہ ادیب آنے والے زمانے کے لئے لکھتا ہے،آج بچوں کے ادیب کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے سرسید کی تاریخ قابل تقلید ہے ،ادیبوں کے مسائل اجاگر اور حل کرنے کے لئے قومی سطح پر کمیٹی یا کمیشن بنایا جائے۔
معروف ادیبہ ڈاکٹر صفیہ سلطانہ صدیقی کا کہنا تھا کہ ہمارے یہاں لکھا جانے والا ادب دنیا میں کسی سے کم نہیں،اگر ہم جدید عہد کے تقاضوں کو پیش نظر رکھیں توہمارا ادب ضرور سب سے نمایاں ہوگا۔
معروف ادیب اور محققڈاکٹر افتخار احمد کھوکھرنے کہا کہ یہاں بڑے ،کام بڑے خواب دیکھنے سے ہی ممکن ہیں،حضور اکرمﷺ کی اسوۃ حسنہ کو ساری دنیا تک پھیلائیں گے اور سیرت نبویﷺپر عالمی ادبی ایوارڈکا اجرا کریں گے، جس کی انعامی رقم کروڑوں اور پھر اربوں تک بڑھائی جائے گی۔
تقریب کے صدرمعروف شاعر، ادیب اور کالم نگاراحمد حاطب صدیقی نے کہا کہ پہلے نانیاں اور دادیاں کہانیاں سنا کربچوں کی تربیت کرتی تھیں مگر اب زمانہ بدل گیاہے اور وہ دور واپس نہیں آسکتا ۔ان کا کہنا تھا کہ قلم کا استعمال رکا نہیں مگر شکل بدل گئی ہے،اب کمپیوٹر اور اسمارٹ فون کا دور ہے ۔یہ ہم پر منحصر ہے کہ قلم کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔اسِ سے قبل بچوں کے ادیبوں نے بچوں کے ادب کے فروغ کے لئے تجاویز دیں،
کاروانِ ادب کے کوآرڈینیٹرندیم اختر کا کہنا تھا کہ بچوں کے ادب اور رسائل کے فروغ کے لئے وہ مقابلے کروارہے ہیں،
اظہر عباس نے کہا کہ حالیہ دنوں میں بچوں کے ادیبوں کی درجنوں کتب کی اشاعت خوش آئند ہے۔
جاویدنو’رنے زور دیا کہ بچوں کی کہانیوں اور نظموں میں نئے موضوعات پر توجہ دی جائے اور سائنسی موضوعات پر زیادہ کہانیاں لکھی جائیں۔
شرکا تقریب کی جانب سے جن تجاویز پر اتفاق کیا گیا،ان میں کہا گیا کہ بچوں کے ادب میں نئے موضوعا ت کو کہانیوں اور نظموں کا موضوع بنایا جائے،کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سمیت جدید ایجادات کوپیش نظر رکھ کربچوں کا ادب تخلیق کیا جائے،بچوں کے ادیبوں کے مسائل کے حل کے لئے قومی کمیشن تشکیل دیا جائے ،بچوں کے ادیبوں کے لئے قومی ایوارڈ کا اجرا کیا جائے،حکومت کتب کی اشاعت اور انہیں بچوں تک پہنچانے کے لئے حکمت عملی مرتب کرے اور بچوں کے ادب کے فروغ کے لئے عملی اقدامات کرے۔تقریب میں
سعداللہ شاہ، نذیر تبسم، اشفاق احمد خان، پروفیسر اسحاق ,کاشف بشیر کاشف ، روبنسن سیموئیل گل، اعجاز احمد اعجاز، اویس یوسف زئی، عبدالصمد مظفر، طارق حسین، سدرہ افضل، عامر حسن، لطیف کھوکھر، سحر مجید، ثناء مجید، احسن حامد، فرخ شہباز وڑائچ، ریاض عادل اور دیگر احباب نے اظہار خیال کیا.