کنفیوشس نے کہا تھا ”میں سب سے زیادہ نفرت ان چیزوں سے کرتا ہوں جو غیر حقیقی ہیں مگر حقیقی ہونے کا دھوکا دیتی ہیں“۔
زندگی کا سفر، اسکے مطالبات، زمانہ اور زمانہ سازی جتنے اہم موضوعات ہیں اتنے ہی مشکل اور پیچیدہ بھی۔ کامیابی کی تعریف اور اس کے حصول کی کوشش بھی کچھ ایسا ہی موضوع ہے۔
اِدھر کچھ سالوں سے پاکستانی عوام -حسب عادت- بھیڑچال کا شکار بنتے ہوئے، سرما کی بارش میں کھمبیوں کی طرح اگ آنے والے موٹیویشنل اسپیکرز سے کامیابی کے گر سیکھنے کے درپے ہو چلے ہیں کہ ہر آنے والے اسپیکر کے حصے کے بےوقوفوں میں اضافہ ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔
کامیابی کی تحریک Motivation فروخت کرنے والے ان خود ساختہ اسپیکرز نے جس طرح طلبہ، نوواردان ملازمت ، حتیٰ کہ جہاں دیدہ اور تجربہ کار پیشہ ور افراد کو اپنے چنگل میں جکڑکے خود کو ناگزیر ثابت کررکھا ہےوہ قابل رحم تو ہے، تشویشناک بھی ہے۔ اپنی آنکھوں میں کامیابی کا خواب سجائے یہ افراد جب ان اسپیکرز کی لچھے دار گفتگو کے زیر اثر خود کو چشم تصور سے خیالی دنیا میں راج کرتا دیکھنے لگتے ہیں تو یہ نشہ کسی بھی نشہ سے زیادہ کیف آگیں معلوم ہوتا ہے۔ مگر آنے والے وقت میں جب یہ نشہ ٹوٹتا ہے اور زمینی حقائق سے آنکھیں چار ہوتی ہیں تو انکی حالت بھی اس انسان کی سی ہوتی ہےجو نشہ نہ ملنے پہ خود کو نوچ رہا ہوتا ہے۔
اس صورتحال سے قوم کی مرعوبیت اور فکری افلاس کا اندازہ ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں نے جسے ختم کرنے کے بجائے بڑھاوا دیا ہے۔ قوم اس سطحیت کا شکار ہو کراس مغربی ”جنک فوڈ فار تھاٹ“ سے اپنی بھوک مٹانے کے درپے ہے۔
اپنی اس تشویش کا ذکر گاہے دانشور احباب سے کرتا تو انکا تاثراتی ردعمل کچھ ایساہوتا کہ خود ہی خفت محسوس کرتے ہوئے ہنس کے جھینپ مٹانے لگتا۔آخرکو زمانے کے غالب چلن کے خلاف بات کرنے کی اتنی قیمت تو ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس دوران ایک دور اندیش دوست نے بین الاقوامی ریسرچ آرگنائزیشن سے مستعفی ہو کر ”کامیابی کا کاروبار“ شروع کیا تواندازہ ہوا کہ کوئی اور کاروبار کامیاب ہو یا نہ ہو کامیابی کا کاروبار خوب جاری ہے۔ شاید انکے نزدیک سیلف ہیلپ سے مراد اپنی ہی مدد ہوتی ہے
ــــ——————–
کامیابی، مثبت سوچ، اپنی قسمت خود بنائیے– واہ کیا شاندار الفاظ ہیں۔ مگر کیا یہ موٹیویشنل اسپیکرز ان الفاظ کو اپنے معاوضہ یا مالی فائدہ کی بنیاد کے علاوہ بھی کسی طور دیکھتے ہیں؟ کیا ہماری زندگی کے ہر جذبہ اور ہر انسانی آدرش کو مخاطب کرنے کے لئے بہروپئے اور شعبدہ باز ہی رہ گئے ہیں؟
کب تک ہماری زندگیاں سرابوں کا تعاقب کرتے گزریں گی اور ہم جدید مغربی فکر کی تلچھٹ کو امرت دھارا سمجھ کر پیتے رہیں گے؟ مانا کہ فنکار اورتفریح کا بھی زندگی میں مقام ہوتا ہے مگر کیا ہم انہیں اپنی نسلوں اور مستقبل کے ساتھ یوں کھلواڑ کرنے کی اجازت دے سکتے ہیں؟
سرمایہ دارانہ نظام نے جدید انسان سے ہر وہ چیزچھین لی ہے جو کبھی اسکے لئے باعث شرف ہوتی تھی۔ انسانی روح کوایسے اندھے کنویں میں دھکیل دیا ہے جہاں خود اسے اپنی آواز اجنبی محسوس ہوتی ہے۔اس نظام میںہر انسان ایک ”صارف“ ہوتا ہے اور بس۔ انسان کی ہر صلاحیت، فن،Skill اور علم اگر سرمایہ کی بڑھوتری کے لئے استعمال ہو تو اسکا ”فائدہ“ ہے ورنہ ”بےکار“۔ بولنے اور گفتگو کا فن بھی جب تک انسانوں کو ”صارف“بنانے کے لئے استعمال نہ ہو اسے ”مفید“ تصور نہیںکیا جاتا۔ نام نہاد Motivational Speakers اس افادی نقطہ نظر کی عمدہ مثال ہیں۔
گفتگو کا فن، خطابت اور ابلاغی صلاحیت کبھی قابل قدر اثاثہ ہوتا تھا مگر ان نام نہاد Trainers نے اسے ایک قابل فروخت جنس میں تبدیل کرکے ظلم کیا ہے۔ بڑبولا پن، جو کبھی خصائل رذیلہ میں شمار ہوتا تھا اب انکے ہاں ایک کاروباری جنس تصور ہوتی ہے جو ہر صورت مالی یافت کا ذریعہ ہونی چاہئے۔
یہ جدید جہلا، دراصل Corporate Culture کے وہ آلے (Tools) ہیں جو زبانِ غیر کے منہ زور گھوڑے پہ سوار، مانگے کے افکار بے مایہ کو ”مایہ“ کے لئے سونا بنا کرپیش کرتے ہیں اور اپنے ہی ہم وطنوں کو مرعوب کرکے تالیاں پٹواتے ہیں۔ گاہے، جعلی اور فرضی تحقیق کے حوالے اور تیسرے درجہ کے لکھاریوں کے ادھ کچرے خیالات کی جگالی، نفس مضمون کے بجائے بدن بولی، متاثرکن حلیہ اور سامعین کی نفسیات سے کھیلنے کی جادوگرانہ تراکیب ان کا کل اثاثہ ہوتی ہیں۔ علمی افلاس کے مارے، سادہ اور عام پڑھے لکھے عوام کی تحسینِ ناشناس کے بل پر یہ حضرات بازار میں اپنی وقعت بڑھانے کی نامحمود کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔
مصنوعی مسکراہٹ چہرے پہ ٹکائے، کاروباری اخلاقیات کے بھرپور مظاہرے کے ساتھ جب یہ "بول کار” اپنے سامعین کے سامنےرستم کی طرح دھم سے کودکر آتے ہیں اور باتوں کے طوطا مینا اڑانے لگتے ہیں تو دل کسی موسیٰ کی طلب کرتا ہے جو آکر اپنا عصا ڈالے اور یہ تماشا ختم کر دے۔ جاگتی آنکھوں خواب دیکھنے والوں کو جھنجھوڑ کر اٹھائے اور زندگی کی جنگ لڑنے کو حقیقی ہتھیار دے کر میدان میں اتار دے۔
بدقسمتی سے ان میں سے کچھ حضرات نے اپنے کاروبار کے لئے مذہب کو آلہ کار بناتے ہوئے ہدایت ربانی کے الفاظ و آثار کو بھی اشتہاری جملوں کے طور پر استعمال شروع کردیا۔ مذہب وہ مظلوم جنس ہے کہ استحصال کی ہر صورت کو جواز بخشنے کے لئے ظالم انسان کے ہاتھوں استعمال ہو جاتا ہے۔ یہ جس کی فلاح کے لئے آیا تھا اس نے خود اسے ہی فروخت کرنا شروع کر دیا۔
”مثبت سوچ“ کا منجن بیچنا خود ان اسپیکرز اور ٹرینرز کے حق میں تو بہت ”مثبت اور کارآمد“ ثابت ہوتاہے مگر سامعین کو ایک فوری —یا اکثر تاخیری— ڈپریشن، Guilt, غیر حقیقی آدرش کے منفی اثرات کا شکار کر چھوڑتا ہے۔
ظالمو! خدا کی قسم تم ہم سے دگنا معاوضہ لے لو مگر انسانی ذہن کی برتر صلاحیتوں اور ولولوں کو کذب و دروغ کا موضوع نہ بناو، ہماری نسلوں کے مستقبل کو اپنی چرب زبانی کی بھینٹ نہ چڑھاؤ۔
اس موضوع پہ اردو میں شائع ہونے والی پہلی کتان "کامیابی کا مغالطہ” کی اشاعت کے موقع پہ لکھا گیا۔