انسانوں اور کتابوں کا رشتہ ہمیشہ سے انمول رہا ہے ۔رواں ماہ کے پہلے ہفتے ہیں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں منعقدہ کتاب میلے کی رونق دیکھ کر مجھے معروف شاعرو ادیب گلزار کی ایک نظم یاد آئی ۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کتاب میلے کے مشاہدات سے قبل وہ نظم پڑھ لی جائے ۔
گلزار کہتے ہیں ۔
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں، اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہو گئی ہے
جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں
جو رشتے وہ سناتی تھیں
وہ سارے ادھڑے ادھڑے ہیں
کوئی صفحہ پلٹتا ہے تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بنا پتوں کے سوکھے ٹنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اُگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں
جو مٹی کے سکوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انہیں متروک کر ڈالا
زباں پہ ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک
جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہ بہ تہ کھلتا چلا جاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا، کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گودی میں لیتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بنا کر
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چھوتے تھے جبیں سے
خدا نے چاہا تو وہ سارا علم تو ملتا رہے گا بعد میں بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
اور مہکتے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہو گا
وہ شاید اب نہیں ہوں گے
گلزار کا شکوہ بجا ہے کہ انٹرنیٹ نے اب ہمیں کتابوں سے دُور کر دیا ہے۔ اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی مگر شہر لاہور میں وقفوں وقفوں سے لگنے والے کتاب میلے دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ ابھی ہم نے بہت کچھ نہیں کھویا۔ کتابوں سے عشق کرنے والے ابھی بہت ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے سالانہ کتاب میلے میں اس سال ڈیڑھ سو کے لگ بھگ اسٹالز لگائے گئے تھے ۔ شائقین کا ہجوم اتنا تھا کہ کھوئے سے کھوا چِھل رہا تھا ۔ مسلسل تین روزیہی صورتحال رہی ۔ خوشی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ شائقین کتب کی بڑی تعداد کا تعلق نوجوان طبقے سے تھا۔ وہ ایک دوسرے سے کتابوں کی باتیں کرتے گزرتے جاتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ سیلفیاں بھی بنائی جا رہی تھیں جو آج کل کا معروف کلچر ہے۔
میں نے داخلی دروازے سے سیدھا آگے کی جانب چلنا شروع کیا ۔ ہر اسٹال پر چند لمحے رکتا ۔ جن کتابوں پر نگاہ ٹھہرتی ،اٹھا کر اُلٹتا پلٹتا اور ساتھ ساتھ نوجوانوں کے مکالمے بھی سنتا ۔ بہت سے لوگ اپنے ساتھ فہرستیں بنا کر لائے تھے اور ہر اسٹال پر جا کر اپنی مطلوبہ کتابوں کا پوچھتے تھے۔ کئی نوجوان طالبات عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے ناولوں کی متلاشی نظر آئیں۔ بہت سے شائقین سوانح کے بارے میں استفسار کر رہے تھے۔ کچھ اسٹال ایسے تھے جن پر نصابی کتب اورنوٹس دستیاب تھے۔ وہاں بھی طلباءکا رش لگا ہوا تھا۔ کئی اسٹالوں کے سامنے تو اتنا ہجوم تھا کہ کتاب دیکھنے کے لیے آپ کو انتظار کرنا پڑتا تھا۔
ایک دلچسپ بات یہ تھی کہ اس میلے میں نئی کتابوں کے ساتھ ساتھ چند اسٹال پرانی کتابوں کے بھی تھے۔ بہت سے لوگوں کو پرانی کتابوں، رسالوں اور میگزینوں کی تلاش رہتی ہے ۔ ان کے لیے یہ اچھا موقع تھا۔پنڈال کے شروع ہی میں دائیں جانب پنجاب یونیورسٹی پریس کا بڑااسٹال لگا ہواتھا ۔ جس میں بہت سی وقیع کتابیں موجود تھیں ۔ میلے کے پہلے دن لوگوں کا جوش وخروش دیکھ کر مجھے لگا کہ اگلے دو دن اس سے بھی زیادہ پر ہجوم ہوں گے اور ایسا ہی ہوا۔ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو اپنے دوستوں کے ساتھ محض گھومنے پھرنے کتاب میلے میں آئے تھے لیکن باغ سے گزرنے والا کبھی خوشبو سے محروم نہیں رہتا۔ یہ علم کا ایک باغ تھا جس کی فضاو¿ں میں لفظوں کی خوشبو بسی تھی۔
کتابوں کے عشاق کا یہ مسئلہ ہے کہ جب وہ کسی بک اسٹال یا میلے میں جاتے ہیں تو پھر وقت سے کلی طور پر بے نیاز ہو کر کتابوں کی دنیا میںکھو سے جاتے ہیں ۔ یہ ایک عجیب قسم کا چسکا ہے جو وہاں بہت سے لوگوں میں نظر آیا۔ کئی ایسے نوجوان تھے جو دوسرے لوگوں کو اپنی پسند کے موضوعات پر کتابوں کے نام پوچھ رہے تھے۔ بہت سے لوگ اپنے بچوںکے ساتھ بھی اس میلے کی رونق کو بڑھا رہے تھے۔ کتاب میلے میں ایک جگہ کھانے پینے کا مناسب اہتمام بھی تھا۔وہاں بھی برابرہجوم تھا۔ خواتین کی دلچسپی کے لیے بھی کچھ اسٹال موجود تھے جو مسلسل تین دن آباد رہے ۔
کتاب میلے کے دوران تھوڑے تھوڑے وقفے سے پرجوش نوجوانوں کے نعرے بھی سننے کو ملتے تھے۔ جب سب چُونک کر داخلی دروازے کی طرف دیکھتے تو پتہ چلتا کہ کوئی اہم شخصیت تشریف لائی ہے اور طلباءاس کا استقبال کر رہے ہیں ۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی مہمانوں اور محافظوں کے جلو میں میلے میں نظر آتے رہے ۔ میلے کا افتتاح اب کی بار کسی سیاسی شخصیت کہ بجائے روحانی شخصیت سرفراز اے شاہ سے کرایا گیا۔
لاہور ایکسپو سنٹر میں ہر سال عالمی کتاب میلے کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ اس میں ملکی و غیر ملکی پبلشرز کی بڑی تعداد شرکت کرتی ہے ۔ وہاں اردو کتابوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں انگریزی کتابوں کے اسٹال بھی ہوتے ہیں ۔ پنجاب یونیورسٹی کے کتاب میلے کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں اردو زبان کی کتابیں غالب رہتی ہیں اور انگریزی بک اسٹالز کی تعداد ذرا کم ہوتی ہے ۔
ان دونوں کتاب میلوں میں دوسرا فرق یہ ہے کہ ایکسپو سنٹر میں سجنے والے کتاب میلے میں نسبتاًآسودہ حال لوگوں کی کثرت شرکت کرتی ہے۔ عام لوگ بھی جاتے ہیں لیکن ان کے لیے اتنی دور جانا آسان نہیں ہوتا جبکہ پنجاب یونیورسٹی کے کتاب میلے میں متوسط طبقے کے قارئین بھرپور شرکت کرتے ہیں ۔ اس میلے میں لگے اکثر اسٹالز پر کتابیں پچاس فی صد رعایت پر دستیاب تھیں۔
خوش آئند خبر یہ تھی کہ اس تین روزہ کتاب میلے میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ 84 ہزار کتابیں فروخت ہوئیں جبکہ پچھلے سال یہ تعداد ایک لاکھ67ہزار تھی۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کتاب بینوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
اس طرح کے کتاب میلوں کا انعقاد معاشرے میں شعور کے فروغ کا باعث بنتا ہے ۔ پنجاب یونیورسٹی کے حالیہ کتاب میلے میں کچھ چیزیں توجہ طلب بھی محسوس ہوئیں ۔ ایک تو اس میلے کے لیے جس وقت کا انتخاب کیا گیا وہ مناسب نہیں تھا۔ گرمی کی وجہ سے شائقینِ کتب کو کافی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسرے یہ کہ پنجاب یونیورسٹی کے پاس وسیع و عریض اراضی موجود ہے ۔ بڑے بڑے سبزہ زار اور میدان موجود ہیں ۔ اگر انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے کاریڈور کی بجائے کسی کھلی جگہ یہ میلہ منعقد کیا جائے تو شائقین کتب کافی سہولت محسوس کریں گے اور اس ڈیپارٹمنٹ کے طلباءکے معمولات بھی متاثر نہیں ہوں گے ۔