ہم دماغ سے سوچتے ہیں یا دل سے؟

الحادی سائنس پر قرآن کی فوقیت

سائنس کا کام نظریۂ حیات بتانا نہیں۔

سائنس اللہ کی تخلیق کی علمی اور عقلی وضاحت ہے اور اسلام کا حصہّ ہے ۔ لیکن اس پر مذہب سے تعصّب کی ایک خاص تنگ دل سوچ کا غلبہ ہے جس نے سائنس کے حدودِ کار کو نہیں سمجھا اور بلا وجہ سائنس کو اسلام کے مقابل کھڑا کیا ہے۔ اگر کشادہ دلی کے ساتھ اسلام کے فلسفۂ حیات کو سمجھا جائے تو یہی حقیقت آشکارہ ہوتی ہے کہ اسلام اور جدید سائنس دن بدن قریب آرہے ہیں کیونکہ جدید سائنسی نظریات سوچتے ذہنوں کو الحاد کی غیر منطقیت سے بدظن کر رہے ہیں ۔ انکا غیر منطقی ہونا اور اسلام کا عقلی ہونا قرائن سے ثابت ہوتا جارہا ہے۔

سائنس کا قبضہ گروپ:

موجودہ دور میں منکرین خدا عموماً سائنس کو جو خالصتاً طبعئی علوم پر مشتمل ہے اپنے غیر عقلی اور الجھاؤ والے نظریات کے دفاع میں استعمال کرتے ہیں۔اور سائنس کو زبردستی نظریاتی بحث کا حصّہ بناکر اسکا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس میں ان سائنسدانوں کا زیادہ قصور ہے جو خود منکر ہیں اور اپنی حیثیت کا غلط استعمال کرتے ہیں اور سائنس کے تشنہ نظریات کا سہارا لیکر اللہ کے وجود کے حوالے سے الجھن پیدا کرتے ہیں۔ انکی مثال اس گروہ کی ہے جو زبردستی قیادت پرقابض ہوکر کسی تحریک کی سمت بدلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اسلام اور قرآن کیونکہ خالق کے نمائندہ ہیں اس لیئے خود سائنس ہی قرآن اور اسلام کے معاون بنتے جارہے ہیں۔ ا سکی ایک مثال کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔۔

خیالات کا مرکز: دل یا دماغ؟

یہ سوال اکثر اُٹھتا ہے کہ انسان کے جذبات کا تعلّق دماغ سے ہے یا کہ قلب سے۔عام خیال یہی کیا جاتا ہے کہ جذبات اور خیالات کا تعلّق قلب سے ہوتا ہے جس کا روز مرّہ کی بول چال میں بھی فطری اظہار ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ میرے دل میں خیال آیا، یا کہ میرا دل چاہا وغیرہ وغیرہ۔ محبت کے جذبات کے لیئے بھی دل ہی کا خاکہ بنا یا جاتا ہے۔ کیونکہ سائنس ظاہر اور طبعیات کا علم ہے لہٰذا اب تک سائنس نے اس خیال کو مسترد کیا ہے کیونکہ اسکے مطابق دماغ میں موجود نیورون ہی تمام خیالات و جذبات کا منبع ہیں جبکہ قلب میں ایسی صلاحیت وہ ڈھونڈ نہیں سکی تھی۔ لیکن دوسری طرف جدید سائنس قلبی دماغ پر تحقیق بھی کر رہی ہے۔
ہمارے لیئے یہ جاننا ایک دلچسپ بات ہوگی کہ بھلا دل کیسے سوچتا ہے!

آیئے جدید سائنس کی ایک تحقیق پر نظر ڈالتے ہیں۔

Recent work in the relatively new field of neurocardiology has firmly established that the heart is a sensory organ and an information encoding and processing center, with an extensive intrinsic nervous system that’s sufficiently sophisticated to qualify as a heart brain. Its circuitry enables it to learn, remember, and make functional decisions independent of the cranial brain. To everyone’s surprise, the findings have demonstrated that the heart’s intrinsic nervous system is a complex, self-organized system; its neuroplasticity, or ability to reorganize itself by forming new neural connections over both the short and long term, has been well demonstrated.

http://noeticsi.com/thinking-from-the-heart-heart-brain-science/

"نیوروکارڈیالوجی کی نئی فیلڈ میں

حالیہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ دل ایک حواسی آلہ اور معلومات کی چھان بین کرنے والا ایک مرکز ہے۔ اس کے اندر اچھا خاصا پیچیدہ اعصابی نظام موجود ہے جو اسکو قلبی دماغ Heart Brain بناتا ہے۔ اسکے اندر ایسے سرکٹ موجود ہیں جس سے یہ آزادی سے سیکھنے، جانچنے اور فیصلہ کرنے کا عمل بغیر دماغ کی مدد کے کرتا ہے۔ سب کی حیرانی کے لیئے، کہ یہ دریافت کامیاب تجربات سے ظاہر کرتی ہے کہ دل کے اندر موجود انتہائی منظّم خودکار اعصابی نظام دوہرے یعنی قلیل اور طویل رابطے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ”

اب اس سلسلے میں وحی کا انکشاف بھی دیکھیں!
قرآن کا دو ٹوک اعلان درج ذیل ہے۔

قرآن: (سورۃ۵۰ ،آیت۱۶)
"ہم نے انسان کو پیدا کیا اور ہم اس کے دل میں ابھرنے والے وسوسوں تک کو جانتے ہیں ,
ہم رگِ جاں سے زیادہ قریب ہیں۔”

قرآن: (سورۃ۶۷ ،آیات ۱۳۔۱۴)
” وہ دلوں کا حال تک جانتا ہے۔ بھلا وہ ہی نہ جانے جس نے پیدا کیا؟”

۱۴۰۰ سال پہلے کا مذکورہ بیان آج کے سائنس دانوں کے لیئے یقیناً حیرت کا باعث ہوگا۔ قرآن ایک طویل عرصے سے یہی کہہ رہا ہے کہ خیالات کا منبع دل ہے گویا دماغ کی حیثیت ثانوی ہے اور جسم کا قُطب قلب ہے۔ قلب ہی اعمال کے چناؤ میں ایک کلیدی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہے جسکا دماغ سے ایک ایسا تعلّق ہے جسکی مستقبل میں باریک بین پیمائش ہی کچھ اور وضاحت کرے۔یعنی قلب ایک آزاد حیثیت ہے۔

دوہرا اعصابی نظام اور ارتقاء

انسان ، زندگی اور کائنات کے بارے میں سائنس کی اکثر وضاحتیں تشنہ ہی ہیں جوکسی عقلی اور منطقی نظریۂ حیات کے بجائے غیر یقینیت سے لبریز فلسفے کی آبیاری کرتی ہیں۔ قرآن قلب کو ایک آزاد اور مرکزی فیصلہ کرنے والا کہتا ہے۔ لیکن ارتقاء اور فطری چناؤ natural selection کے حامی اس سے مختلف نظریہ رکھتے رہے ہیں یعنی کہ خیالات کا تعلّق دماغ اور نیورون سے ہی ہے۔
لیکن مذکورہ بالا قلبی دماغ کی دریافت کے بعدان سے سوال ہے کہ :

ارتقاء میں دوہرا اعصابی نظام( قلب اور دماغ) کیوں پیدا ہوا؟
آخر اسکی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ہوگی؟
قلب کو بھی دماغ کے ساتھ اعمال میں کوئی کردار دینے کا فیصلہ کس نے کیا؟

قدرتی چناؤ یا natural selection ایک سائنسی توجیہہ ہے جو کسی ناقابل تشریح پیش رفت کو من و عن قبول کرنے کے لیئے اختیار کی جاتی ہے۔ کیا انسان میں دوہرے اعصابی نظام کے اہم فیصلے کو قدرتی چناؤ کا نام دیکر ہم مطمئین ہو سکتے ہیں؟ دماغ اور دل کے درمیان کسی فیصلے کے لیئے ایک طرح کی ہم آہنگی ہوتی ہے جو خودکار نہیں ہوسکتی بلکہ ایک ذہین تخلیق intelligent design کا پرتوہی ہوسکتی ہے کیونکہ ارتقاء کے عمل میں خیال و اعصاب کے حوالے سے قدرتی چناؤ دو دفعہ اور دو مختلف اعضاء یعنی قلب اور دماغ میں ہونے کی کوئی بھی غیر حقیقی توجیہہ محض حقائق سے فرار ہی ہوگا یعنی یہ سوالات نظر انداز نہیں ہوسکتے کہ:

فطرت کی اگر یہ ارتقائی ضرورت تھی کہ انسان میں اعصابی نظام تخلیق ہو اور وہ اتفاقاً تخلیق بھی ہوگیا تو وہ” اتفاق ” دو دفعہ اور دو جگہ کیو ں ہوا ؟

اس فائن ٹیوننگ کی ضرورت کا احساس کہاں ہوا اور کیوں ارتقاء نے ایک اچھوتی کروٹ لی؟

یہاں سائنس کا نظریہ natural selection یعنی تصوراتی فطری چناؤ پسپا ہوتا اور پھسلتا نظر آتا ہے جبکہ مذکورہ بالا وحی کا اشارہ ایک آفاقی سچّائی کا روپ لیکر بڑی قوّت سے سامنے آتا ہے۔
الحاد کے تازیانے:

جدید سائنسی دریافتیں بذاتِ خود جدید الحادی نظریات کے لیئے ہی تازیانے لیکر آرہی ہیں۔ یہ ثابت ہورہا ہے کہ سائنس کے مضبوط نظریات بھی سیاّل حقیقت ہیں جو نئے دور میں نئی شکلیں بدل رہے ہیں۔ اسکے مقابل وحی کے انکشافات ٹھوس اور اٹل ہیں جو اگر کل تک سائنسدانوں کی سمجھ میں نہیں آرہے تھے تو یہ انکی اپنی کوتاہ علمی کا ہی شاخسانہ تھا۔

قرآن میں درج حقائق وقت کے ساتھ ثابت ہورہے ہیں۔

اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ قرآن ہی آخری آسمانی کتاب ہے جو ہر انسانی الحادی سائنس کو زیر کرنے کی استطاعت بھی رکھتی ہے۔

ملحدین سے ایک سوال ضرور ہے کہ اگر کائنات اور زندگی خود اور اچانک تخلیق ہو گئیں تو اس دنیا میں الحامی کُتب کیوں ظاہر ہوئیں جن کا کوئی انسان دعویدار نہیں۔۔۔۔۔۔

ان کتابوں کے مصنّفین کا پتہ ہی بتلادیں۔۔۔ خالص سائنسی ، منطقی اور عقلی تحقیق پر،،،
کیا آپ ایسا کرسکتے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے