کسان خوشحال کب ہو گا؟؟

زراعت ملک میں ریڑھ کی سی حیثیت رکھتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں زراعت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے لیکن پاکستاں میں احوال اس کے برعکس ہیں۔
پاکستان میں کاشتکاروں کو زراعت کے حوالہ سے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جن میں معیاری بیج، زرعی ادویات، پانی اور باردانہ کی عدم دستیابی اور فصلوں کاعالمی اور مقامی منڈیوں تک باآسانی رسائی کا نہ ہونا اور فصلوں کا معیاری قیمت پر فروخت نہ ہونا شامل ہیں۔ انہی مسائل پر بات کرنے کے لئے مختلف زمینداروں سے بات ہوئی۔

محمد شبیر کا تعلق 87\6Rسے ہے اور یہ 6 ایکڑ زرعی زمین کے مالک ہیں نے بتایا کہ ’’ہمارے ملک میں نہروں کا جال بچھا ہوا ہے مجھے پانی کے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ سالانہ نہر کی بندش دسمبر میں ہوتی ہے لیکن اس وقت فصلوں کو پانی کی اتنی ضرورت نہیں رہتی۔

اس وقت ہمارا اہم مسئلہ ہے ہمیں ہماری اجناس کے خریدار نہیں مل رہے۔ آلو، کپاس، چاول اور مکئی کے خریدار نہیں ہیں اگر خریدار ملتے ہیں تو فصلوں کی قیمت بہت کم لگاتے ہیں۔

اس دفعہ آلو کی فصل نے زمینداروں کی کمر توڑ دی ہے۔ اس دفعہ آلو کی فصل پر پیداوار لاگت اسی ہزار روپے فی ایکڑ ہے۔ جبکہ فی آلو کی بوری کی تین صد سے ساڑھے تیں صد روپے میں فروخت ہوئی۔ فی ایکڑ میں سو بوری آلو نکلتے ہیں جس کی قیمت تیس سے پینتس ہزار روپے ہے جبکہ اس پر لاگت اسی ہزار روپے آئی ہے۔

گندم کی فصل بھی آ گئی ہے۔ باردانہ کے حصول کے لئے زمیندار دھکے کھائے گا یا مہنگا خریدے گا۔ اس پر بھی زمیندار کو اضافی اخراجات برداشت کرنا پڑتے ہیں۔

پاکستان زرعی ملک ہے حکومت کو اس شعبہ پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ حکومت زمینداروں کو بہتر سہولیات دے تو ملک کے ساتھ ساتھ کاشتکار بھی خوشحال ہوگا، اس کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ جات بھی خوشحال نظر آئیں گے۔‘‘
ذوالفقار علی طارق کا تعلق کمیر کے نواحی گاؤں 56\E.B سے ہے ایک مربع پر کاشت کاری کرتے ہیں۔ مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ سرکاری طور پر باردانہ حاصل کرنے کے لئے پٹواری، اے سی وغیرہ کے پاس جانا پڑتا ہے۔ کافی صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد کہیں جا کر باردانہ ملتا ہے۔ 100 کلو گرام گندم کی اور پٹ سن کی بوری 150 روپے میں ملتی تھیں لیکن اب 50 کلو گرام پلاسٹک کا تھیلہ 30 روپے میں مل رہا ہے۔ عام مارکیٹ میں بھی پرانا باردانہ مل جاتا ہے لیکن اُس پر بھی محنت کرنا پڑتی ہے۔ پھٹی ہوئی بوری کو بھی سی کر قابلِ استعمال بنایا جاتا ہے۔ لیکن سرکاری باردانہ میں ہی گندم ڈال کر آپ حکومت کو گندم ٖفروخت کر سکتے ہیں۔

نہری پانی فصلوں کے لئے بہت مفید ہے منظور شدہ زمین پر ہفتہ بعد نہری پانی ملتا ہے۔ نہری پانی کی قیمت فی ایکڑ 100 روپے ہے جس کی ہر چھ ماہ بعد ادائیگی ہوتی ہے۔

فی ایکڑ کے لئے 20 میٹ دئے جاتے ہیں بعض موہگے چھوٹے ہوتے ہیں جن سے پانی کا اخراج مشکل سے ہوتا ہے۔ موہگہ سے زیادہ فاصلہ پر فصلوں پر مقررہ وقت میں پانی مکمل سیراب نہیں کر پاتا، جس وجہ سے زمیندار کو ٹیوب ویل کا پانی استعمال کرنا پڑتا ہے۔

زمیندار کو ذاتی بجلی کے ٹیوب ویل پر فی یونٹ گیارہ روپے میں پڑتا ہے۔ 150ہارس پاور کی موٹر لگی ہو توایک گھنٹے میں 4 کنال اراضی سیراب ہوتی ہے۔ ٹیوب ویل کا پانی اس قیمت پر پڑتا ہے۔
اپنا ذاتی ہو تو 350 روپے فی گھنٹہ
خریدنے پر 500 روپے فی گھنٹہ
پیٹرا نجن کا 600 روپے فی گھنٹہ
ٹریکٹر پر چلایا گیا انجن 550 روپے سے 600 روپے تک

فصل کو پورا پانی نہ ملے تو فصل کی بہتر پیداوار نہیں ہوتی اس لئے زمیندار کو ٹیوب ویل کا پانی بھی لگانا پڑتا ہے۔ ٹیوب ویل کا پانی مہنگا پڑتا ہے لیکن زمیندار مجبور ہوتا ہے۔ پھر جب فصل تیار ہو کر گھر آجاتی ہے تو اچھی قیمت پر فروخت نہیں ہوتی۔

گندم کا سرکاری نرخ 1300 روپے پے۔ اگر ہم یہ ہی گندم کسی آڑھتی کے پاس لے کر جائیں تا وہ ایک ہزار سے گیارہ سو روپے قیمت لگائے گا اور پھر اپنی آڑھت کمیشن علیحدہ سے لے گا۔

مکئی تمام حالات میں 1200 روپے فی من فروخت ہوتی ہے لیکن جب فصل کے بعد فروخت کرنے جائیں تو 700روپے فی من سے زائد آڑھتی نہیں خریدتا، جبکہ اس سے زائد زمیندار خرچہ کر چکا ہوتا ہے۔

چند برسوں سے زمیندار مسلسل خسارے میں جارہا ہے۔ سرکاری پانی، باردانہ یا ٹیوب ویل کے پانی پر اُٹھنے والے زائد اخراجات ہی ہمارے مسائل نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ بھی ہمارے بیشمار مسائل ہیں جن میں سرِفہرست اجناس کے خریدار نہیں ہیں۔

حکومتی ناقص پالیسیوں کے تحت عالمی منڈیوں تک ہماری رسائی نا گزیر ہے۔ جب تک حکومت ہمارے مسائل پر توجہ نہیں دے گی زمیندار خوشحال نہیں ہو گا۔
چوہدری رفیق کی ساڑھے پندرہ ایکڑ زرعی زمین 95\6.R میں ہے انہوں نے زمینداروں کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ’’ جس نہر سے ہماری زمینوں کو پانی ملتا ہے اسکی ٹیل پر ہماری زمین ہونے کی وجہ سے پانی بہت ہی کم پہنچتا ہے۔ جس نہر پر موگہ کا سائز 4 انچ ہے نہری پانی کا وقت 20منٹ فی ایکڑ ہے جبکہ 6 انچ موگہ پر 15 منٹ فی ایکڑ پانی دیا جاتا ہے۔ جس کی مالیت 6 ماہ بعد 100 روپے فی ایکڑ گاؤں کے نمبردار کو جمع کروا دی جاتی ہے۔ ہر سال پانی لینے کے اوقات تبدیل کر دیئے جاتے ہیں۔ صبح 6 بجے کی باری والے کو سال بعد شام چھ بجے پانی لینے کی باری ملے گی۔

نہری پانی نہ ملنے کی صورت میں ٹیوب ویل کا پانی استعمال کرنا پڑتا ہے جو خاصا مہنگا ہے۔ بجلی پر چلنے والے ٹیوب ویل کا خرچہ 11روپے فی یونٹ ہے۔ بجلی پر چلنے والی 15ہارس پاور کی موٹرسے ایک گھنٹہ میں 4 کنال زمین سیراب ہوتی ہے۔

پہلی بار مکئی کی فصل کو ڈیڑھ گھنٹہ فی ایکڑ پانی لگتا ہے۔ پہلی دفعہ گندم کی فصل کو فی ایکڑ 6 گھنٹہ میں پانی لگتا ہے۔ ٹریکٹر کے ذریعے انجن چلانے پرفی گھنٹہ میں 4 لیٹر ڈیزل خرچ ہوتا ہے فی لیٹر ڈیزل کی قیمت87 روپے ہے۔

پہلے بجلی پر چلنے والے 15 ہارس پاور کی موٹر والے ٹیوب ویل پر بل 2 ہزار روپے فکس تھا۔ جو حکومت نے فکس روپے ہٹا کر 11 روپے فی یونٹ کر دیا، جس سے زمیندار مزید اضافی اخراجات کے بوجھ تلے دب گیا۔ فصلوں پر اُٹھنے والے اخراجات زیادہ ہیں جبکہ فروخت کرنے پر اصل اخراجات کی رقم بھی نہیں ملتی۔

گندم کے لئے 50کلو گرام پلاسٹک کا تھیلا 30 روپے میں مل رہا ہے۔ ایک ایکڑ کے لئے12 تھیلے دیئے جاتے ہیں۔0 10کلو گرام آلو کی خالی بوری کی قیمت 135روپے، 6 روپے کا ٹاٹ اور 40 روپے مزدوری آلو بھروائی۔ ان بوریوں کو کھیت سے منڈی تک پہنچانا، اس پر اخراجات اُٹھتے ہیں۔ اس بار زمیندار کو آلو منڈی میں تین سے چار روپے فی کلو آڑھتی کو فروخت کرنے پڑے۔ مکئی 600 سے 700 روپے فی من فروخت ہوئی۔ جبکہ اس فصل پر اٹھنے والے اخراجات 50ہزار روپے فی ایکڑ ہیں۔ فی ایکڑ میں 60سے70 من مکئی نکلتی ہے۔ گندم کی پیداوار بھی 30 من فی ایکڑ ہے۔ اس کا سرکاری نرخ 1300 روپے فی من ہے۔ فصل کل فی ایکڑ پیداوار کم یا زیادہ موسمی حالات پر منحصر ہے۔

حکومت سے گزارش کریں گے کہ وہ دوسرے ملک کی سبزیاں یا پھل وغیرہ اس ملک میں نہ منگوائیں، ہمارے ملک کی یہ سب اشیاء دوسرے ممالک میں بھیجیں تا کہ زمیندار کوبھی اچھی قیمت مل سکے۔ ملکی کسان کی خوشحالی ملک کی خوشحالی کی ضمانت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے