لڑکپن کی ایک عید کا حال

لڑکپن کے سنہری دور میں رمضان المبارک کے آخری دن تھے۔ میں حاجی موتی حلوائی کی دکان پر کھڑا سموسے لے رہا تھا کہ محلے کا ایک بچہ بھاگا بھاگا آیا اور میرے ہاتھ میں ایک عید کارڈ تھما کر بازار کی بھیڑ میں غائب ہو گیا۔

کارڈ کے فرنٹ پیج پہ بنے دل میں لگے تیر سے ٹپکتے خون کے قطروں کو دیکھ کر میں نے صورتحال کو بھانپا اور سموسوں کا شاپر ہاتھ میں لئے تقریباً بھاگتا ہوا گھر پہنچا۔ سموسوں سے بھرا لفافہ کچن میں افطاری کی تیاری میں مصروف گھر والوں کے سامنے پھینکا اور چھت پر جا کر عید کارڈ کھولا تو ہلکے میوزک کے ساتھ ساتھ اس میں لگی چھ سات رنگ برنگی بتیاں جلنے لگیں۔اندر سب سے اوپر میرا نام لکھا تھا۔

میرے پیارے مٹھو!
میری طرف سے ڈھیروں عید مبارک قبول ہو !
فقط تمہاری حَلُّو

نیچے ایک پورے کا پورا فلمی گیت بڑی ترتیب کے ساتھ لکھا تھا۔ لکھا ہوا نغمہ پڑھ کر میں نے عید کارڈ کو فرطِ جذبات سے چوما اور کارڈ کو بغل میں دبا کر نیچے اتر آیا اور کمرے میں آکر اسے چھپانے کی جگہ ڈھونڈنے لگا۔چاروں طرف نگاہ دوڑائی تو نظریں دیوار کے ساتھ لگی پڑچھتی (شیڈ) پر جا کر اٹک گئیں۔

ماں جی نے عید کی تیاری میں پنجاب کی روایت کے مطابق کمرے کے کچے فرش پر شاید آج ہی گوبر کا تازہ لیپ کر کے اسے صاف کیا تھا۔ مٹی کی دیواروں پر محلے کی عورتوں کی مدد سے کیا گیا لاجوردی پوچا بھی بالکل نیا دکھائی دے رہا تھا۔کونے میں اوپر نیچے پڑیں رنگین پائیوں والی تینوں چارپائیوں پر کروشئے کی کڑھائی والی نئی چادریں چمک رہی تھیں۔

دوسری طرف پیٹی پر جڑے ٹرنکوں کے اُوچھاڑوں میں سے بھی صابن اور لیکو کی تازہ خوشبو آرہی تھی۔دیوار کے ساتھ لگی اس پڑچھتی پر بھی آج عجب نکھار تھا۔ صاف شفاف، اجلے ، دھاگے کے بڑے بڑے پھولوں والے اُوچھاڑ پر سجے سبھی بھانڈے ٹینڈے آج سال بعد دھلنے پر بالکل نئے لگ رہے تھے۔

پیتل کی کھڑی پراتیں، تام چینی کی چائے دانیاں، مٹی کی ساگ والی تازہ لئیو لگی بڑی ہانڈی، شیشے کے پھولدار جگ گلاس، چائے کی ڈھیروں پیالیاں، چمچے، کڑچھے، ڈوئیاں اور حلوے والی کڑاہیوں کے علاوہ عید کی سویوں کے لئے تیار کئے گئے تازہ اور گرما گرم دیسی گھی سے لدی پیتل کی وَلٹوئی۔

غرض کہ پورے گھر کے بھانڈوں ٹینڈوں کو مرغی کے چوزوں کی طرح اپنے دامن میں سمیٹے بیٹھی یہ پڑچھتی مجھے کارڈ چھپانے کے لئے سب سے بہتر دکھائی دی تو میں پیٹی پر چڑھ کر اسے گھی والی وَلٹوئی کے پیچھے رکھ ہی رہا تھا کہ اچانک کارڈ ذرا سا کھلا اور اس کا میوزک بج اٹھا۔ میرا دھیان بٹا اور میں اس ایک لمحے کی کوتاہی سے پڑچھتی کو پکڑ کر نیچے پھسلا تو ۔۔۔۔۔۔ اصیل مرغی جیسی یہ پڑچھتی اپنے کل ٹبر کے ہمراہ میرے ساتھ چل پڑی۔

میں اگلے لمحوں میں تازہ گوبر سے لپے مٹی کے فرش پر چاروں شانے چت لیٹا تھا اور پڑچھتی کے تمام بھانڈے ٹینڈے میرے اوپر اودھم مچا رہے تھے اور گرما گرم خالص دیسی گھی میری کمر کی مالش فرما رہا تھا۔ چینی اور شیشے کے بھانڈے ٹینڈے چور چور ہو کر فرش کے کھریپڑ اکھاڑ چکے تو اس ہنگامے کا شور سن کر سبھی گھر والے اس جانب دوڑے۔ ماں جی نے انہی بھانڈوں ٹینڈوں کے کسی چمچے کڑچھے جیسے بھائی بند کو ہاتھ میں لے کر میری کمر کی ٹھکائی کی رہتی سہتی کسر بھی پوری کر دی۔

تب سے لے کر اب تک میرے سبھی گھر والے ہر چھوٹی عید کو میٹھی سویوں کی عید کی بجائے ٹوٹے بھانڈوں ٹینڈوں والی عید کہتے چلے آرہے ہیں۔ کیونکہ وہ واحد عید تھی جو ہم نے ٹوٹے بھانڈے ٹینڈوں میں گھی کے بغیر سویاں کھا کر گزاری۔یوں تو میں نے زندگی کی تمام عیدیں سیدھے طریقے سے سو کر گزاری ہیں لیکن وہ اکلوتی عید تھی جو چارپائی پر اوندھے لیٹ کر عید کارڈ کو بار بار کھولنے اور بند کرنے کے بعد میوزک سن کر گذاری۔

[pullquote]فرہنگ[/pullquote]

بھانڈے ٹینڈے : برتن
پڑچھتی : کمرے میں دیوار کے ساتھ لکڑی یا سیمنٹ سے بنا ہوا شیڈ جس پر برتن رکھتے ہیں۔
ولٹوئی : گھی رکھنے کا برتن
لئیو : لیپ
اوچھاڑ : کور، غلاف
ٹبر : خاندان
کھریپڑ : ٹکڑے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے