دبئی (رائٹرز) سعودی عرب میں دوجڑواں بھائیوں نے اپنی ماں کو قتل کر دیا کیونکہ وہ انہیں شام جا کر داعش میں شمولیت سے روک رہی تھی، اس سانحے نے سعودی عرب کے معاشرت کو بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور انتہاپسندانہ اعتقادات کے حوالے سے متفکر کر دیا ہے۔ یہ واقعہ 24جون کو پیش آیا ، سعودی عرب روایتی طور پر ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں بزرگوں کو بے انتہا عزت دی جاتی ہے۔اس واقعے نے سعودی عرب میں وہابی مسلک کے پیشرو انتہائی معزز تصور کیے جانے والے اسکالرکے ممکنہ اثرات کے حوالے سے نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
سعودی وزارت داخلہ کے ترجمان منصور الترکی نے کہا ہے کہ انہی دونوں جڑواں بھائیوں پراپنی ماں کے قتل میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔قتل کے محرکات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ ’’ابھی تک جو چیز پایہ ثبوت کو پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ دونوں جڑواں بھائی (خالد اور صالح القرینی) تکفیری نظریات کے پیروکار ہیں۔ترجمان نے مزید کہا کہ یہ کیس ابھی بھی زیر تفتیش ہے۔ دونوں جڑواں بھائیوں سے رابطہ ممکن نہیں ہوپایا،نہ ان کے اہل خانہ یا وکیل سے ہی بات ہوپائی۔کسی نے آزادنہ طور پر اس امر کی تصدیق بھی نہیں کی کہ کیا قتل کا محرک داعش یا مذہبی نظریات تھے یا یہ کہ ان کی ماں نے دراصل کہا کیا؟
ان دونوں بھائیوں پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی 67سالہ والدہ ’ہائلہ‘ اپنے ’73‘ سالہ والد اور 22سالہ بھائی کو بھی ریاض میں اپنے گھر میں چھرا گھونپا، اس سانحے میں ماں زخموں کی تاب نہ لاتےہوئے جان ہار گئی،اتنا معلوم ہوا ہے کہ ماں نے اپنے بیٹوں کے داعش میں شمولیت پر اعتراض کیا تھا۔
ملزمان کا والد اور بھائی ریاض کے اسپتال میں زیر علاج ہیں اور ان کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ جرم کے بعد مبینہ ملزمان یمن کے راستے ملک سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ گزشتہ سال جولائی یہ ایسا پانچواں واقعہ ہے جس میں عسکریت پسندی کی وجہ سے کسی شخص نے اپنے رشتہ داروں کو نشانہ بنایا ہو۔اس پس منظر میں چند علما اورصحافیوں کے مابین اس معاملے پر بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا اس واقعے کا تعلق 13ویں صدی کے دمشق کے عالم دین کے ’’تکفیر‘‘ سے متعلق فتووں سے کوئی تعلق ہے جو اپنے اہل خانہ کو ’’مرتد‘‘ تصور کرنے لگتے ہیں۔ داعش تکفیری تصور کو قبول کر تی ہے اور اکثر ابن تیمیہ کے حوالے دیتی ہے کیونکہ یہ 18ویں صدی کی وہابیت سے متاثر ہےجو شیخ محمد ابن عبدالوہاب نے شروع کی تھی۔ اسی مذہبی تحریک کے باعث سعودی عرب نے وہ سخت گیر نقطہ نظر اپنا یا جسے یہاں اسلام کی حقیقی تصویر سمجھاجاتا ہے۔ ان نظریاتی حوالوں کے علاوہ قتل کےلیے سرکاٹنے جیسی مشترکہ مشقوں کے باعث ریاض پر الزام لگتا رہا ہے کہ وہ داعش کا ہمدرد ہے۔ تاہم ریاض کا کہنا ہے کہ ابن عبدالوہا ب صرف ایک مصلح تھا۔
سعودی حکومت جدید جہادیوں اور اپنے نظریات میں کسی تعلق کو مسترد کرتی نظر آتی ہے اور داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں اور دیگر مذہبی جنونیوں کی مذمت کرتی ہے لیکن ریاض کے اس سرکاری موقف کے باوجود بہت سے اسکالرز اور مبصرین ایسی ہلاکتوں سے امام ابن تیمیہ کے ذمہ دار ہونے اور آج کے جہادیوں کےلیے محرک ہونے پر بحث کرنے سے باز نہیں رہ پارہے۔کنگ سعود یونیورسٹی کے عمرانیات کے پروفیسر عبدالسلام ال ویل نے اپنےٹوئٹر اکائونٹ پر لکھا ہے کہ ’’ کچھ لوگ مجھ سے ناراض ہیں کہ میں مذہبی تشدد کے حوالے سے ابن تیمیہ کے ورثے کی جانب اشارہ کر رہا ہوں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کےلیے انسانی زندگی بہت سستی تھی اور ان کے ورثے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ ویل نے مزید کہا کہ اگر چہ ابن تیمیہ اپنے دور کے کثیر التصانیف اسکالر تھے لیکن اس کے باوجود انہوں نے ایک بیٹے کو اپنے مرتد باپ کو قتل کرنے کی اجازت کا فتویٰ دیا اور یہ چیز اسلام کی روح کے منافی ہے۔ اس پر سعودی اسلامک افیئر کے وزیر صالح بن عبدالعزیز الشیخ نے کہا کہ یہ فتویٰ سیا ق وسباق سے ہٹ کر پیش کیاجارہا ہے۔اسی حوالے سے ایک کالم نگار محمد الشیخ نے اپنے جائزے میں کہا کہ ’’ ہمارے نظریاتی ورثے میں ابن تیمیہ کا نظریاتی ورثہ ایک مختلف زمان و مکان سے متعلق قرار دینا ہوگا ورنہ دہشت گردی ختم نہ ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ عسکریت پسندوں کے نظریات سے لڑنے کے پہلے قدم کے طو ر پر ابن تیمیہ کی تعلیمات کوبحث کےلیے کھولنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے ورثے پر تنقید کے دروازے کھول کر دلدل کو صاف کیاجائے۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ان تعلیمات پر اعتقادات کو ہلا دیاجائے جو ماضی بعید سے درآمد کی جاتی ہیں۔