یہ آزادکشمیر نامی خطے کے انوکھے انتخابات ہیں ۔ 21 جولائی کوپولنگ ہونی ہے جس میں 26لاکھ 74ہزار5 سو 84 افراد اپنے ووٹ کے حق کا ستعمال کریں گے ۔ وفاقی حکومت ہمیشہ کی طرح اپنے سارے وسائل بروئے کار لاکر آزادکشمیر میں اپنے سیاسی ونگ کو کامیاب کراناچاہتی ہے۔ اس الیکشن میں پاکستان کے چاروں صوبوں میں پھیلے ہوئے 4لاکھ 38 ہزار 8 سو 84 کشمیری پناہ گزین بھی اپنا ووٹ کاسٹ کررہے ہیں ۔
خیال رہے کہ اب کی بار آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی کی کل 41 نسشتوں میں سے پاکستان میں مخصوص 12 نشستوں کے لیے اس وقت 99 امیدوار میدان میں ہیں جبکہ اصل خطے یعنی آزادکشمیر کی 29نشستوں پر324امیدوار ایک دوسرے کےمقابل ہیں ۔
میں شروع ہی سے مہاجرین مقیم پاکستان کی ان 12 خصوصی نشستوں کو ایک قسم کا فراڈ سمجھتا ہوں ،جہاں سے اکثر برسراقتدار صوبائی جماعت اپنے منظور نظر امیدواروں کو جتوا کر آزادکشمیراسمبلی میں بھیجتی ہے۔ یہ امیدواران آزادکشمیر اسمبلی میں پورے5 سال سوائے مراعات وصولنے کے کچھ نہیں کرتے ۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ کشمیر کے کسی جنوئین ایشو پر واضح یہ لوگ واضح موقف اختیار کرتے ہوں ۔
آزادکشمیر اسمبلی کے بہت سے ممبران کی عادت ہے کہ جب حکومت کی آئینی مدت مکمل ہونے کے قریب آتی ہے تو یہ سرکاری گاڑیاں حکومت کو واپس کرنے کی بجائے ”چوری” کروا دیتے ہیں اور اس منصوبہ بند چوری کا مطلب ہر بیدار مغز شہری جانتا ہے۔ س الکیشن مہم میں تو اس حد تک ڈھٹائی بھی دیکھنے میں آئی کہ پیپلز پارٹی کے کئی امیدوار سرکاری گاڑیاں اپنی انتخابی مہمات میں استعمال کرتے رہے۔
آزادکشمیر میں لینٹ افسران بھی سرکاری گاڑیوں کو اپنی نانی اماں کا مال سمجھ کر خوب رگڑتے ہیں ۔ جس افسر کو گھر سے دفتر پک اینڈ ڈراپ کے لیے ایک گاڑی کی قانونی اجازت ہے ، وہ اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے کے لیے الگ ،اپنے لیے کل وقتی بنیادوں پر الگ، اور مہمانوں کو ریسیو کرنے کے لیے ایک علیحدہ گاڑی حاصل کرنا اپنا حق سمجھتا ہے۔ ایسا لگتا ہے اکثر سرکاری افسران کا مقصداپنی ذمہ داریاں انجام دینا نہیں بلکہ مراعات کی بہتی گنگا سے اشنان کرنا ہے ۔
بیوروکریسی کی اس بے مُہاری کی سب سے بڑی وجہ آزادکشمیر کے اکثر سیاسی نمائندوں کا کرپٹ ہونا ہے ۔ وہ بیورکریسی کے ساتھ مل کر کرپشن کرتے ہیں اور کمیشن کی بندر بانٹ کے بعد ان میں نوکر شاہی کو کنٹرول کرنے کی اخلاقی جرات ختم ہوجاتی ہے ۔ اس خطے کے بہت سے سیاست دان اپنے بیٹوں، بھتیجوں، بھائیوں اور بھانجوں کو ٹھیکے دار بنانتے ہیں اور خود اسمبلی کے ممبر بن کر مسلسل 5 برس تک اپنے پیاروں کو سڑکوں وغیرہ کے ٹھیکوں کے اجراء کی صورت میں نوازتے ہیں ۔ یہ آزادکشمیر کی سیاست کا ایک اسٹائل ہے ۔
وفاق میں برسر اقتدار پارٹی کے آزادکشمیر میں موجود سیاسی ونگ کے سربراہ کو بہت سے لوگ حساس اور جرات مند مانتے ہیں لیکن ان کا حال یہ ہے کہ وہ وفاقی وزراء کے خلاف آف دی ریکارڈ تو خوب غصے کا اظہار کرتے ہیں اور انہیں وزیرامور کشمیر کو کمیشن خور بھی کہہ دیتے ہیں لیکن جب کسی عوامی فورم پر آزادکشمیر کے حقوق کے بارے میں بات کرنے کا موقع ہوتا ہے تو ان کی زبان کی روانی اور گفتار کی جولانی کے سامنے مصلحت کے سپیڈ بریکرز آ جاتے ہیں۔ وہ اپنی نجی محفلوں میں بدنام زمانہ ایکٹ 1974ء ، کشمیر کونسل نامی بے جواز ادارے اور نیلم جہلم پروجیکٹ کے معائدے کی بات کرتے ہیں لیکن وفاق سے آنے والی کسی ”شٹ اپ کال” کے بعد عوامی فورم پر لفظوں کے انتخاب میں حد درجہ محتاط ہو جاتے ہیں ۔ وہ خواہشوں اور مجبوریوں کے درمیان بھنسے ہوئے ”غیرت مند” لوگ ہیں ، ان پر ترس کھانا چاہئے ۔
پیپلز پارٹی نے اس 5 سالے میں آزادکشمیر میں کرپشن کے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ انہوں نے چپڑاسی سے لے کر اوپرتک ملازمتوں کی فروخت کا کاروبار ڈٹ کر کیا ہے ۔ وزیراعظم نے مشیروں کی فوج ظفر موج بھرتی کی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ اتنے سارے مشیروں کئ باوجود وہ سنگین قسم کی حماقتیں کیسے کر لیتے ہیں ۔ اس جماعت کے وابستگان کے ”نظریاتی ” ہونے کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ وہ 5 سال حکومتی خزانے کو ”پھکی” لگانے کے بعد الیکشن کے وقت بدلتی ہواوں کے تیور دیکھ کر اپنے قبلے وکعبے بدل چکے ہیں اور اب ”پاک پوتر” شمار ہوتے ہیں ۔ انہوں نے وہی کیا جس کے بارے میں آزادکشمیر کی مقامی بولی ہندکو میں ”اکھیاں چِٹی ہو جانے ” کا محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اب کی بار آزادکشمیر میں تحریک انصاف نامی پارٹی کو بھی ”ری لانچ” کرایا گیاہے ۔پارٹیاں بدلنے کے حوالے سے شہرت رکھنے والے ایک سابق وزیراعظم کو اس پارٹی کا سربراہ بنا کر پہلے سے اس پارٹی کے لیے کام کرنے والے سرکردہ لوگوں کوکھڈے لائن لگایا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے وفاق میں برسراقتدار پارٹی کے آزادکشمیر میں موجود ونگ کو کمزور کرنے کے لیے تحریک انصاف اور مسلم کانفرنس کا اتحاد بھی کرایا لیکن اس سب کے باوجود کوئی خاص فرق پڑتا نظر نہیں آرہا۔ تحریک انصاف میں پیپلز پارٹی کے کچھ ایسے وزیروں نے بھی کچھ دن قبل شامل ہونے کا اعلان کیا جن کا کشمیر یا کشمیرکے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ مراعات کے حصول کے لیے ہر صورت میں اقتدار کا حصہ رہنا چاہتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے آزاد کشمیرمیں موجود ونگ کی سیاست بھی تضادات کا شکار ہے۔ پاکستان میں ان کی جماعت کے بزرگ برسراقتدار پارٹی کے خلاف ”کرپشن فری مہم ” چلا رہے ہیں جبکہ ادھر آزادکشمیرمیں ان کی جماعت کا ونگ اسی کرپٹ جماعت کے ونگ سے انتخابی اتحاد کے نام پر گلو گیر ہو چکا ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر کو ٹیکنو کریٹ کی خصوصی نسشت کے وعدے پر اپنی حمایت کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب جماعت اسلامی کی سیاسی ترجیحات بدل چکی ہیں۔ کم ازکم آزادکشمیر کی حد تک وہ اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ یہاں سوائے روایتی سیاست کے کوئی اور سکہ رائج نہیں ہوسکتا۔ نظریہ اور اصول اب پرانے عہد کی داستانوں ہی میں اچھے لگتے ہیں ۔
آزادکشمیر کا شمار ایشیا کے ان خطوں میں ہوتا ہے جہاں تعلیم کی شرح بلند ترین ہے لیکن انتخابات میں یہ ”پڑھے لکھے” لوگ ذات اور برادری کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں ۔ یہ حالات دیکھ کر تعلیم یافتہ اور ”ڈگری بردار” افراد کے درمیان فرق معلوم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ تعلیم سماجی شعور کی پرورش کا اہم ترین ذریعہ ہے مگر اس خطے میں انتخابات کے وقت سیاست دانوں، رائے دہندگان(ووٹرز) اور سپوٹرز کے رویے دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ تعلیم جیسا موثر ذریعہ شعور ان مردانِ کہسار کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکا ہے ۔
آخری بات یہ کہ ہمیں اگر کچھ بہتری چاہئے تو حقیقی ایشوز پر عوام کو کھڑا کرنا چاہئے۔ انہیں ریاست کے آئینی خدوخال،ایکٹ 1974ء کے مکروہ گوشوں سمیت 70 سالہ تاریخ کے نشیب وفراز سے آگاہ کرنا چاہئے ۔ انہیں بتانا چاہئے کہ کون تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر کہاں اور کس کے ساتھ کھڑا تھا؟ کس نے ریاست کی حفاظت کے نام پر یہاں کے عوام کو شناخت کے بحران میں مبتلا کیا؟ کس نے آزادکشمیر کی زمینیں من چاہے لوگوں کوناحق الاٹ کیں ؟ کس نے عوام کو منگلا کی رائلٹی جیسے جائز حق سے محروم رکھنے کے لیے بطور سہولت کار کام کیا ؟کس نے ریاست کے ایک بڑے طبقے کو ان کے نظریات کی بنیاد پر الیکشن کے عمل سے روک کر جمہوری روایات کی توہین کی؟ کس نے نیلم جہلم پروجیکٹ کے باب میں وفاق کے ساتھ باعزت معائدے کی راہ میں رخنے ڈالے؟ کس نے پاکستان چائنا کوریڈور کے منصوبے کے شروع ہونے کے وقت گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے چپ سادھ کر قوم کے ساتھ دھوکہ کیا؟
سوال سماج کے زندہ ہونے کی علامت ہے ۔ کچھ معقول لوگوں کو چاہئے کہ وہ عوام کے ذہنوں میں صرف یہ سوال اٹھانے کے لیے کوششیں کریں۔ ریاست کے اس حصے(جسے آزادکشمیر کہا جاتا ہے) میں جب ان سوالوں کی گونج ہو گی تب ہی مسائل کی حل کی جانب توجہ دی جائے گی۔ بصورتِ دیگر یہ انتخابات ویسا ہی ایک ڈھونگ ہو گا جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیا ہے ۔ رہے نام اللہ کا۔