آزادکشمیرکے حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ نواز نے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ کامیابی حاصل کی ہے ۔ایک طرف تو یہ مینڈیٹ مسلم لیگ نواز کے لیے خوشی اور اعتماد کا باعث ہے لیکن دوسری طرف اسی سیاسی جماعت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔ مسلم لیگ نواز کی قیادت کو ان تمام وجوہات کا ازالہ کرنا ہوگا جو پیپلز پارٹی کی شکست کی وجہ بنیں ہیں ۔ اس وقت مسلم لیگ نواز کے لیے سب سے پہلا چیلنج اسمبلی میں موجود خواتین ،ٹیکنو کریٹس اور علماء ومشائخ کی خصوصی نشستوں پر انتخاب کا ہے ۔ اسے آپ ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں ۔ اگر مسلم لیگ بھاری اکثریت حاصل کرنے کے بعد ان سیٹوں پر اہل افراد کو منتخب کرتی ہے تو اس کے دورِِ اقتدار کے لیے اس اقدام کو نیک شگون سمجھا جائے گا۔ بہتر ہو گا کہ پہلی اینٹ سوچ سمجھ کر رکھی جائے ۔
مسلم لیگ نواز کے لیے دوسرا بڑا اور قدرے مشکل چیلنج وزارت عظمیٰ کے لیے موزوں آدمی کا انتخاب ہوگا۔ اس وقت ریاست بھر میں افواہوں اور اندازوں کا سلسلہ شروع ہے ۔ سوشل میڈیا پر موجود لوگ اپنی اپنی خواہشوں کے اعتبار سے متوقع کابینہ میں ممکنہ طور پر شامل کیے جانے والے ناموں کی فہرستیں مرتب کر رہے ہیں اور ان پر لوگوں کی متناقض آراء بھی سامنے آ رہی ہیں ۔ اس وقت وزارت عظمیٰ کے لیے جس شخصیت کا نام تکرار کے ساتھ لیا جا رہا ہے وہ مسلم لیگ نواز کے سربراہ راجہ فاروق حیدر خان ہیں۔کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ وادی نیلم سے فتح یاب ہونے والے شاہ غلام قادر اس عہدے کے لیے موزوں ہیں جبکہ بعض دوستو ں کا اصرار ہے کہ ابھی چند ماہ قبل صحافت سے باقاعدہ علیحدگی کے بعد خارزارِ سیاست میں کودنے والے مشتاق منہاس بھی اچھے وزیر اعظم ثابت ہوں گے۔ غرض ہر کوئی اپنی خواہش بیان کر رہا ہے ۔ہم موجودہ صورت حال اور ماضی کے حالات کوسامنے رکھتے ہوئے ان تینوں شخصیات کا جائزہ لیتے ہیں ۔
مشتاق منہاس بلاشبہ قسمت کے دھنی ہیں ۔انہوں نے اسلامی جمیعت طلبہ کے پلیٹ فارم سے سیاست کی مبادیات سیکھیں اور اس پر وہ کھلے بندوں فخر بھی کرتے ہیں۔صحافتی سیاست میں وہ راولپنڈی کے ایک صحافتی گروپ میں شمولیت کے راستے داخل ہوئے اور پھر نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی صدارت حاصل کر لینے تک پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔وفاق کی موجودہ اور آزادکشمیرکی سابقہ حکومت کے درمیان پُل کا کردار ادا کر کہ اس وقت کی ریاستی حکومت کو عدم اعتماد کی تلوار سے بچانے میں کردارادا کیا تو کشمیر کوآپریٹنگ ہاؤسنگ سوسائٹی کے چیئرمین بن گئے ۔ابھی چند ماہ قبل جب صحافت کو علانیہ طورپرخیر باد کہہ کر خارزار سیاست میں اترے تو یہاں بھی وہ کر دکھایا جس کی کم لوگ توقع کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ان کی میاں محمد نواز شریف اور ان کی کچن کیبنٹ کے لوگوں سے ذاتی یاد اللہ ہے۔ یہ ساری باتیں سامنے رکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ مشتاق منہاس کی صورت میں ریاستی سیاست میں ایک منفرد اضافہ ہوا ہے۔ جب وہ مسلم لیگ نواز کے پلیٹ فارم سے سیاست میں جلوہ گر ہوئے تو ان کے مستقبل کاوزیراعظم ہونے کی افواہیں چلیں۔ یہ صورت حال شروع میں آزادکشمیر کی سینئر قیادت بالخصوص راجہ فاروق حیدر کے لیے پریشان کن تھی لیکن مشتاق منہاس نے ان کی پریشانی اپنے اس بیان کے ذریعے ختم کر دی کہ راجہ فاروق حیدر ان کے رہنما اور قائد ہیں۔ جواب میں راجہ فاروق حیدر نے مشتاق منہاس کے حلقہ انتخاب میں اپنا اثر رسوخ کام میں لاکر ان کی جیت کی راہیں ہموار کر دیں ۔میرے خیال میں مشتاق منہاس نے صحیح وقت پر درست فیصلہ کیا اور وہ جیت گئے۔ جہاں تک وزارت عظمیٰ کا تعلق ہے تو وہ فاروق حیدر کو اووٹیک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔وہ سمجھدار آدمی ہیں ۔ اگروہ اسی انداز سے سیاسی ریاضت کرتے رہے تو مناسب وقت پر وہ وزیراعظم بھی بن جائیں گے۔مجھے امید ہے مشتاق منہاس اپنی پارٹی میں رہتے ہوئے اس بے صبری کا مظاہرہ نہیں کریں گے جیسا کہ سردار عتیق احمد نے اپنے والد کا شخصیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کیا تھا، جس کے نتیجے میں وہ اپنی پارٹی سمیت حالات کی گرد ہو گئے ۔
وادی نیلم سے بھاری ووٹوں کے ساتھ فتح یاب ہونے والے شاہ غلام قادر بھی دشتِ سیاست کافی پرانے ہیں۔ ماضی میں وہ پاکستان میں مقیم مہاجرین کے لیے مختص نشست سے منتخب ہو کر اسمبلی کے رکن بنتے رہے لیکن گزشتہ دو الیکشن انہوں نے وادی نیلم سے لڑے ہیں۔ اگرماضی کو کھنگالیں تو 2001ء میں جب مقتدر حلقوں نے آزادکشمیر میں مسلم کانفرنس کی حکومت قائم کرنے کا ارادہ کیا تو اس وقت کے جی او سی مری نے وزیراعظم کے لیے ان کے نام پر اصرار کیا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب مسلم کانفرنس میں دو مشہور دھڑے(سردار عبدالقیوم خان (ق)اور سردار سکندر حیات(س)) بن چکے تھے۔ جی او سی مری کی حکم نما تجویز اس لیے قابل عمل نہ تھی کہ شاہ غلام قادر مخصوص نشست سے جیت کر اسمبلی کا حصہ بنے تھے اور اس صورت حال میں انہیں مقامی سیاسی قیادت بطور وزیراعظم قبول کرنے سے ہچکچا رہی تھی۔ چنانچہ شاہ غلام قادر نے اس کمزور پہلو کا تدارک کرنے کے لیے مخصوص نشست کی بجائے براہ راست وادی نیلم سے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ پہلی بار تو وہ بھاری ووٹ لینے کے باوجود سرخرو نہ ہو سکے لیکن حالیہ الیکشن میں انہوں نے زبردست فتح حاصل کر لی ہے ۔ شاہ غلام قادر خوش رُو،خوش گفتاراور خوش لباس ضرور ہیں لیکن اب کی بار بھی ان کا وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انہیں بعض اعتبار سے ’’طاقتور‘‘ تصور کیے جانے والے حامیوں کی بھرپور حمایت حاصل ہو گی مگر یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ ان کی اپنی پارٹی کی اعلیٰ قیادت انہیں اس عہدے کے لیے موزوں قرار دے کر قبول کرے گی یا نہیں؟ مستقبل کا علم نہیں البتہ موجودہ صورت حال میں اس سوال کا جواب’’نہیں‘‘ ہے۔
جہاں تک مسلم لیگ نواز کے سرکردہ رہنما طارق فاروق کا تعلق ہے تو وہ بھی بے شمار خوبیوں کے حامل ہیں۔ وہ اچھے مقرر ہونے کے ساتھ ساتھ راجہ فاروق حیدر کے بااعتماد دوستوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ہر انسان کی طرح ان کی شخصیت کے کچھ مسائل بھی ہیں جن کا ذکر پھر کبھی ہوگا تاہم وزرات عظمیٰ کی اس دوڑ میں ابھی تک وہ پارٹی قیادت کے فیصلے کے منتظر ہیں ۔ان کی جانب سے بھی کسی قسم کے سیاسی ایڈوینچر کا اشارہ سامنے نہیں آیا۔
وزارت عظمیٰ کے لیے اس وقت سب سے مستحکم امیدوار مسلم لیگ نواز آزادکشمیر کے سربراہ راجہ فاروق حید ر خان تصور کیے جاتے ہیں ۔ تین روز قبل مظفرآباد میں ہونے والے بڑے جلسہ عام سے جب پاکستان کے وزیراعظم میاں محمدنواز شریف خطاب کر رہے تھے تو مسلم لیگ نواز کے پرجوش کارکن مسلسل فاروق حیدر کو نعروں کی صورت میں مستقبل کا وزیراعظم قرار دے رہے تھے۔ یہ ان کے حسن طلب کا ایک انداز تھا تاہم نواز شریف نے اس جلسے میں ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ دوسری جانب فاروق حیدر نے انتخابات میں بڑی فتح کے بعد جب ٹی وی چینلز کے ساتھ بات چیت کی تو ان کے لہجے میں کافی اعتماد محسوس کیا گیا۔ان کے آہنگ میں موجود استحکام بتا رہا تھا کہ وہی وزیر اعظم ہوں گے۔ تاہم ہم ذرا فاروق حیدر خان کی ماضی کی سیاست پر اُچٹتی سی نگاہ ڈال کر آگے بڑھتے ہیں۔ فاروق حیدر خان کو مسلم کانفرنس وراثت میں ملی تھی لیکن ان کی سیاست کا ڈھب ہمیشہ ہی ذرا ہٹ کر رہا۔ انہیں سردار عبدالقیوم خان(مرحوم) کے صاحبزادے سردار عتیق احمد کبھی ایک آنکھ نہیں بھائے۔بزرگ سردار سکندر حیات اور فاروق حیدر میں یہی قدر مشترک تھی۔
فاروق حیدرکی آزادکشمیر میں مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ ان کا دوٹوک قسم کا لب ولہجہ ہے بالخصوص جب وفاقی حکومتوں کے ساتھ بات چیت کا موقع ہو تو وہ اپنے وقار کے پورے احساس کے ساتھ گویا ہوتے ہیں۔اپنے مخصوص دوٹوک آہنگ کی انہیں بہت دفعہ بھاری قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ انہوں نے ماضی قریب میں مسلسل وزراتِ امور کشمیر اور کشمیر کونسل کے حد سے بڑے ہوئے اختیارات اور ان کی ریاست کی سیاست میں غیر ضروری مداخلت پر کھلے لفظوں میں تنقید کی ہے اور وہ متنازع ایکٹ 1974ء میں ایسی ترامیم کے بھی پرجوش وکیل بھی ہیں جو آزادکشمیر کی مستقل طور پر اپاہج حکومت کو اپنے فیصلوں کے بارے میں کافی حد تک بااختیار بنا سکتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں موجود مہاجرین کے لیے مختص 12نشستوں کے معاملے میں بھی وہ اپنا مستقل موقف رکھتے ہیں۔ 21مئی کو انتخابی معرکہ جیتنے کے بعد بھی انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ان نشستوں کے حوالے سے ضروری اصلاحات کرنے کے اپنے دیرینہ موقف کا اعادہ کیا ہے۔سینئر صحافی عارف بہار کے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں کسی بھی قیمت پر اپنے موقف سے نہیں ہٹوں گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ وفاق اور آزادکشمیر کی حکومت کے درمیان اختیارات کے حوالے توازن کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام کاعزم رکھتے ہیں۔
ہمارے بعض صحافی دوستوں کا خیال ہے کہ فاروق حیدر خان کی کرشماتی شخصیت میں موجود ’’غیرت‘‘ کا عنصر ان کے بعض ’’مقتدر‘‘ اور ’’حتمی طور پر فیصلہ ساز‘‘ تصور کیے جانے والے افراد کی گُڈ بک میں شامل ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مرکزی حکومت بھی ’’زبان دراز‘‘ شخص گوارہ نہیں ہیں لیکن اس صورت حال میں ان کے پاس فاروق
حیدر کے علاوہ کوئی اور موزوں آپشن بھی نہیں ہے۔
کل دن وزیراعظم پاکستان کے سیاسی مشیر سید آصف کرمانی نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں پوچھا ہے کہ ’’آزادکشمیر کے لوگ کسے وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہی؟‘‘۔ یہ انتہائی افسوس ناک بلکہ شرمناک اقدام ہے۔ اس ٹوئیٹ کے بین السطور سے یہ پیغام جھلکتا ہے کہ ’’ہم وزارت عظمیٰ کے لیے آنے والی درخواستوں پر غور کر رہے ہیں‘‘ جمہوری رویہ یہی ہے کہ اس طرح کے ’’وائسرائے‘‘ مارکہ اقدامات کی بجائے ریاست کے باشندوں اور خاص طور پر فتح یاب پارٹی کی مقامی قیادت کو اپنے اس فیصلے کا اختیار دیا جائے ۔