تعلیم کے فروغ میں کتاب کی اہمیت سے کوئی منکر نہیں۔ ذہن کی کشتی شعور کے ساحل پر لنگر انداز کتب بینی ہی کی بدولت ہوتی ہے۔انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی کتاب اور مطالعہ کا رجحان ہونا نا گزیر ہے۔
بد قسمتی سے ہمارے اکثر دیہی سرکاری سکولز میں لائبریری کا کمرہ تو ہے لیکن کتابوں کاوجود نہیں ہے۔یہ وہ علاقے ہیں جہاں ابھی تک بنیادی ضروری سہولیات کا فقدان ہے۔ کمپیوٹر اورانٹرنیٹ یہاں بمشکل ہی پائے جاتے ہیں۔ایسے میں ذہن کے دریچے وا کرنے کا فقط ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے کتب بینی۔جب تک طلباء کا نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی کتابوں کے ساتھ تعلق قائم نہیں ہوتا اس وقت تک معاشرے کی شعوری سطح بلند نہیں کی جا سکتی۔
ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ہی کسی مسیحا کے منتظر ہوتے ہیں اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ خالقِ ارض و سما نے ہم میں سے ہر ایک کے اندر وہ صلاحیتیں رکھی ہیں کہ ہم ایک جہانِ تازہ کی تعمیر کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ کا بھی یہی پیغام ہے۔
؎ اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے
اور جگر مراد آبادی نے کیا خوب کہا
؎ گھٹے اگر تو بس اِک مشتِ خاک ہے انساں
بڑھے تو وسعتِ کونین میں سما نہ سکے
خیر اور نیکی کا یہی تصور تھا کہ جو Companion ٹرسٹ کی صورت سامنے آیا۔تعلیم کے میدان میں یہ ٹرسٹ اب تک دس سے زیادہ پراجیکٹس کامیابی سے مکمل کر چکا ہے جس میں ماہانہ سکالر شپ پروگرام، کیرئیر کونسلنگ پروگرام اور کمپیوٹر کورسز وغیرہ شامل ہیں۔
ادب کے فروغ میں کتاب کلچر کو پروان چڑھانا بہت ضروری ہے۔اس مقصد کے لیے Companion کی ٹیم نے وفاق، پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے مختلف اضلاع کا دورہ کیا۔افسوس کے ساتھ بتانا پڑتا ہے کہ اکثر سکولز میں لائبریریز کا وجود ہی نہیں ہے۔ اس لیے Companion ٹرسٹ(رجسٹرڈ)دیہی علاقوں کے سرکاری سکولز میں لائبریز بنانے جا رہا ہے کہ یہ طلباء کی ذہنی تفریح کا ایک تعمیری ذریعہ ہے۔کتابوں کی دنیا میں انسان نہ صرف اپنی کلفتوں کو بھول جاتا ہے بلکہ اس کی سوچ میں بھی وسعت پیدا ہو جاتی ہے۔زندگی کی تلخیوں میں کتاب ہی حلاوت بھرتی ہے۔اسی سے احساس سنورتا اور فکر واضح ہوتی ہے۔
آپ بھی نسلِ نو کی تعمیر تب بینی کے ستونوں پر استوار کرتے ہوئے اس میں اپنے اپنے حصہ کی شمع جلا سکتے ہیں۔ ضیاء الحق ڈائریکٹر لائبریری پروجیکٹ 03345154586