10 اگست کو آئی بی سی پر جناب حسان خالد صاحب کا ایک آرٹیکل شائع ہوا جس میں راقم کی کتاب ‘کامیابی کا مغالطہ’ پر گرفت کی گئی ہے۔ جناب حسان خالد صاحب نے راقم کے خیالات کو جادہ اعتدال سے ہٹے ہوئے قرار دے کر راقم پر مبالغے کا رد کرتے کرتے خود مبالغے کی ایک داستان رقم کرڈالنے کا الزام عائد کیا ہے۔
تاہم متعدد بار مضمون کو اول تا آخر بغور پڑھنے کے بعد بھی راقم اس میں سے کوئی ایسی چیز دریافت کرنے میں ناکام رہا جو راقم کو اپنے خیالات بدلنے پر مجبور کرسکے۔ یہ احساس البتہ ہر قرات پر مضبوط تر ہوا کہ مضمون نہایت کمزور استدلال اور سوءِ تفسیر پر مبنی اور داخلی تضادات کا شکار ہے۔
فاضل مضمون نگار نے تمہید کے بعد سب سے پہلے راقم کے کامیابی میں قسمت کے کردار کے متعلق خیالات پر کلام کیا ہے۔ اپنے تئیں راقم کا موقف بیان کرنے کے بعد اس کے رد کیلئے انہوں نے کامیابی کے حصول میں ممد عوامل گنوائے ہیں مثلاً "محنت، لگن،ٹیلنٹ، مستقل مزاجی، تعلیم، پابندی وقت، سرمایہ وغیرہ” تاہم حیرت انگیز طور پر اگلے ہی فقرے میں یہ فرما کر کہ "یہ بات درست ہے کہ کامیابی کیلئے قسمت کا ساتھ دینا بھی بہت ضروری ہے۔ اور اس کے بغیر آپ دوسرے عوامل کے باوجود مطلوبہ مقصد حاصل کرسکتے” خود ہی راقم کے موقف کی تائید کردی ہے کہ ‘کامیابی’ میں سب سے فیصلہ کن کردار قسمت کا ہوتا ہے۔ مزید لطف کی بات یہ ہے صرف چند پیراگرافس بعد فاضل کالم نگار راقم کا یہ فقرہ نقل کرنے کے بعد کہ "امید انسان کی تشکیل میں شامل خوبصورت ترین اور شاید طاقتور ترین اجزاء میں سے ہے اور اس کے فوائد بے شمار ہیں۔ تاہم Excess of Everything Is Bad کا اصول اس پر بھی لاگو ہوتا ہے” یوں رقمطراز ہیں "حیرت ہے کہ سیلف ہیلپ کے پرچارک امید کو طاقتور جذبہ کہیں تو ہمارے مصنف کو اعتراض ہوتا ہے لیکن وہ خود کتنی سہولت سے یہ بات لکھ جاتے ہیں”۔ تاہم فاضل کالم نگار کو خود یہی کرتے ہوئے کوئی حیرت نہیں ہوئی اور وہ بڑی سہولت سے راقم کے موقف کی تائید کرتے ہوئے اس پر تنقید جاری رکھتے ہیں۔
کامیابی میں قسمت کے کردار کے متعلق راقم کے خیالات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فاضل کالم نگار لکھتے ہیں "جہاں تک بات موٹیویشنل اسپیکرز کے محنت، لگن، مستقل مزاجی، ٹائم مینجمنٹ وغیرہ پر زور دینے کی تو ظاہر ہے یہ ان کے کام کا تقاضا ہے اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ قسمت کے کردار کو نہیں مانتے یا اسے گھٹا کر پیش کررہے ہی”۔ اول تو جن کی طرف سے انہوں نے یہ دعویٰ کیا ہے ان کو بھی اس پر اعتراض ہوگا۔ موٹیویشنل اسپیکرز کے فرامین سے بلامبالغہ سینکڑوں ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں اور کچھ کتاب میں پیش بھی کی گئی ہیں جس میں وہ صراحتاً قسمت کے کردار کی نفی کرتے ہیں۔
تاہم اگر اس سے صرف نظر بھی کرلیا جائے تو بھی فاضل کالم نگار ایک اور تضاد سے جان نہیں چھڑا سکتے ہیں۔ ایک طرف وہ اصرار کرتے ہیں کہ موٹیویشنل اسپیکرز کے محنت، لگن، مستقل مزاجی اور ٹائم مینجمنٹ پر زور دینے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ قسمت کے کردار کا انکار کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ راقم کے قسمت کے کردار پر زور دینے سے فوراً نہ صرف یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ راقم محنت کے کردار کا انکار کر رہا ہے بلکہ اس کی مذمت میں کئی پیراگرافس بھی لکھ مارتے ہیں۔
فاضل کالم نگار اس غلط فہمی کا شکار معلوم ہوتے ہیں کہ راقم کی کتاب میں ‘قسمت کا کردار’ والا باب قسمت کا کردار ثابت کرنے کیلئے نہیں بلکہ دوسری چیزوں کا انکار کرنے کیلئے لکھا گیا ہے۔ مثلاً قسمت کا کردار تسلیم کرنے کے بعد لکھتے ہی "لیکن یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ کچھ کیے بغیر کامیابی آپکی جھولی میں آگرے گی”۔ اپنی ہی کتاب کو پڑھنے سے زیادہ بوریت کا م شاید ہی کوئی ہو لیکن راقم نے یہ تکلیف بھی اٹھائ مگر کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہو کہ راقم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کی تبلیغ کررہا ہو۔ کتاب میں غالباً اس فقرے پر فاضل کالم نگار کی نظر نہیںپڑی کہ ” اس ساری بحث کا مقصد صرف یہ دکھانا ہے کہ دنیا بہت پیچیدہ جگہہ کا نام ہے۔ یہاں لاتعداد فیکٹرز کارفرما ہیں جو لاتعداد Combinations میں فرد پر Randomly اثرانداز ہوتے اور یہ طے کرتے ہیں کہ کس کے ساتھ کیا ہونا ہے ۔ انسان کی اپنی پلاننگ، صلاحیت اور محنت ان لاتعداد میں فیکٹرز میں سے صرف تین ہیں۔ یہ خیال بہت مضحکہ خیز ہے کہ صرف یہی تین فیکٹرز Determine کرتے ہیں کہ انسان کے ساتھ کیا ہونا ہے۔”
اپنے موقف کو ثابت کرنے کیلئے فاضل کالم نگار نے ایک ایسی دلیل بھی دی ہے جس نے راقم کو باقاعدہ ہنسنے پر مجبور کیا۔ لکھتے ہیں” ايک لمحے کيلئے فرض کر کے سوچيں کہ سب کچھ حالات اور قسمت کی وجہ سے ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ اس ميں آدمی کا کوئی کردار، کنٹری بيوشن نہيں ہے۔ اب اس سوچ کے ساتھ آپ قائد اعظم کو کيوں اور کيسے کريڈٹ ديں گے کہ انہوں نے برصغير کے مسلمانوں کا مقدمہ لڑتے ہوئے ان کيلئے ايک الگ وطن حاصل کيا۔ عمران خان کو کريڈٹ کيوں ديں گے کہ اس نے بہترين کپتانی کرتے ہوئے پاکستان کو ورلڈکپ ميں فتح دلائی، وغيره۔” دلیل کا یہ اسلوب کم ازکم راقم کیلئے بالکل نیا ہے۔ فاضل کالم نگار کی دلیل بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ چونکہ ہم کہتے ہیں کہ زمین گول ہے یا یہ کہ چونکہ ہمارا زمین کو گول کہنے کو دل کرتا ہے لہذا زمین گول ہے۔ زمین گول ہی ہوگی لیکن اسے ثابت کرنے کرنے کیلئے کوئی علمی دلیل لانی پڑے گی۔ ہمارا اسے گول کہنا یا اسے گول کہنے کی خواہش رکھنا اس کےگول ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا۔
خیالات کی طاقت کے متعلق راقم کے موقف پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں : "مصنف کے اعتراضات کی نوعیت کو اس مثال کی مدد سے سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً عام طور پر انسان یہ چاہتا ہے کہ اسے معاشی آسودگی حاصل ہو۔ اس سے اسے مختلف پریشانیوں سے نجات ملے گی اور اس کا معیار زندگی بلند ہوگا مگر اس کی مخالفت میں کوئی شخص اٹھ کر معاشی آسودگی کے نقصانات اور غربت کے فوائد بتانا شروع کردے۔ اب ظاہر ہے کہ معاشی آسودگی کے کچھ سائیڈ ایفیکٹس بھی ہوں گے اور غربت کے فوائد دریافت کرنے میں کچھ زیادہ محنت درکار نہیں لیکن کیا اس وجہ سے معاشی آسودگی کی ضرورت کی اہمیت کو کم کیا جاسکتا ہے؟” یہاں محترم کالم نگار نے ایک مرتبہ پھر راقم کا مدعا سمجھے بغیر تنقید کے نشتر چلادیے ہیں۔ موصوف کی تنقید سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ خیالات والے باب میں راقم قارئین کو منفی خیالات اپنانے کا درس دے رہا ہے۔
راقم یہ ضرور پوچھنا چاہے گا کہ یہ نتیجہ فاضل کالم نگار نے کیسے اخذ کیا؟ راقم کا ایک فقرہ کالم نگار موصوف نے خود نقل کیا ہے کہ Excess of Everything Is Bad کا اصول امید پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ اسی طرح اسی طرح راقم نے یہ بھی لکھا ہے کہ "تنقید صرف حد سے بڑی ہوئی امید پرستی پر کی جارہی ہے” اور یہ بھی اسی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ ‘ جس طرح حد سے بڑھ جانے پر راست گوئی بداخلاقی ، مصلحت منافقت اور بہادری بے وقوفی بن جاتی ہےاسی طرح امید حد سے بڑھ جائے تو Delusion بن جاتی ہے اور فائدے کے بجائے نقصان دیتی ہے۔ دوم یہ جس طرح امید کی ایک افادیت ہے اسی طرح دوسرے جذبات، احساسات ، Instincts اور ذہنی حالتوں کی بھی ایک افادیت ہے جو جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ہےمخصوص Situations میں نمایاں ہوتی ہے۔ امید پرستی پر بے جا اصرار شخصیت میں ان تمام چیزوں کے توازن کو بگاڑنے کا باعث بنتا ہے جو انجام میں برا ہی ثابت ہوتا ہے۔ ۔۔۔۔۔”
عرض یہ ہے کہ یہاں ‘مثبت سوچ’ لوگوں پر اس حد تک ٹھونسی جارہی ہے کہ یہ بتانا ضروری ہوگیا ہے کہ حضور یہ غیر فطری ہے اب آپ خطرناک حد میں داخل ہورہے ہیں۔ فاضل کالم نگار اپنی ہی مثال پر غور کریں۔ خوشحالی کی تمنا تو جائز ہے لیکن کیا ایک حد سے آگے بڑھ کر خطرناک نہیں ہوجاتی؟ اگر کوئی دولت کے پیچھے ہی بھاگنا شروع کردے تو کیا آپ اس کو نہیں بتائیں کہ جناب صرف دولت ہی سب کچھ نہیں ہے؟ باقی امید کی manipulation کے خطرناک پہلووں کو مزید سمجھنے کیلئے فاضل کالم نگار جناب محمد دین جوہر صاحب کا کتاب پر تبصرہ ملاحظہ فرمائیں۔
فاضل کالم نگار نے بزعم خویش کتاب میں ایک تضاد بھی دریافت کیا ہے۔ لکھتے ہیں "دلچسپ بات یہ ہے کہ کتاب کے دوسرے باب تک مصنف اس خیال کے حامل ہیں کہ کامیابی صرف اتفاقات اور حالات کا نتیجہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن کتاب کے آخری باب تک پہنچتے پہنچتے پہنچتے مصنف ترقی اور کامیابی کیلئے دو عوامل کے کردار کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ مختلف تحقیقات کی مدد سے یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کا کردار کتنا اہم ہے۔ یہ دو عوامل بہتر نظام اور تعلیم ہیں” اگر یہ سادگی ہے تو راقم سر پیٹتے ہوئے اور اگر "کاریگری” ہے تو داد دیتے ہوئے فاضل کالم نگار سے یہ درخواست کرے گا کہ ازراہ کرم دوسرا باب دوبارہ پڑھیے اور دیکھیے کہ وہاں کامیابی میں حالات اور نظام کی اہمیت واضح کرنے کیلئے کتنی مثالیں دی گئی ہیں۔ اور براہ مہربانی یہ بھی رہنمائی فرمائیے کہ آدمی کو ملنے والا نظام اور تعلیم کے مواقع اگر "حالات” نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں؟
فاضل کالم نگار نے کتاب میں ڈاکٹر اسٹیفن کاوی پر تنقید کا بھی بہت برا منایا ہے۔ لکھتے ہیں ” يہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ ڈاکٹر کاوی نے اپنی کتاب ميں کہاں مطالبہ کيا ہے کہ ان عادات پر عمل کرنا ہے تو پہلے اخلاقی اقدار سے دستبردار ہونا پڑے گا” ۔ راقم کی کتاب سے وہ پیراگراف نقل کرنے کے باوجود جس میں لکھا ہوا ہے کہ "يہ دراصل مذہب/اخلاق کے افادی نظريے کا انتہائی ظہور ہے جس کے تحت آپ مذہبی/ اخلاقی اصولوں کو بهی اس ليے اختيار نہيں کرتے کہ بطور انسان آپ کو انہيں اختيار کرنا چاہيے بلکہ اس ليے کرتے ہيں کہ اس سے دنياوی فائدے حاصل ہوتے ہيں۔ اس جذبے کے تحت اختيار کيے جانے والے اخلاق بہت کهوکهلے اور محض نمائشی و تبليغی نوعيت کے ہوتے ہيں جو انسانی شخصيت ميں کسی حقيقی تبديلی کے بجائے اسے اور زياده مصنوعی،کهوکهلا اور بے وقعت بنا ديتے ہيں۔‘‘ اگر اس کا مدعا اور اخلاق کو محض اخلاق ہونے کی بنا پراختیار کرنے اور دنیاوی فائدے کیلئے اختیار کرنے کے مضمرات کا فرق نہیں سمجھ پائے تو پھر راقم محض بے بسی کا اظہار ہی کرسکتا ہے۔
تنقید کا ایک اور عجیب و غریب حصہ وہ ہے جس میں فاضل کالم نگار فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کی تحریر میں اپنے خیالات کی تائید نہ ہونے کے باوجود راقم نے اسے اپنی کتاب میں شامل کیا۔ اس تنقید کا مقصد سمجھ میں نہیں آسکا۔ فاضل کالم نگار غالباً راقم پر دھوکہ دہی کا الزام عائد فرمارہے ہیں ۔ راقم یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ راقم کسی کی تائید کے زور پر نہیں بلکہ دلائل کی بنیاد پر اپنی بات پیش کرتا ہے۔ برآں مزید اگر راقم نے عاصم اللہ بخش صاحب کی تحریر دیے بغیر یا ان کانام لے کر دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے راقم کے خیالات کی مکمل تائید کی ہے تو ازراۂ کرم دکھائیے کہ کہاں کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی تحریر کتاب میں شامل ہے اور ہر کوئی پڑھ سکتا ہے کہ اس میں کیا لکھا ہوا ہے۔ اس پر دھوکی دہی کا الزام چہ معنی دارد؟
اپنے مضمون کے آخر میں فاضل کالم نگار نے کتاب لکھنے کے محرکات پر بھی خیال آرائی کی ہے۔ فرماتے ہیں "ميری رائے ميں مصنف نے اپنے ذاتی تجربات کی وجہ سے ردعمل کا شکار ہو کر اس کتاب ميں اعتدال اور توازن کا دامن ہاتھ سے چهوڑ ديا ہے”۔ حیران کن طور پر بعینہ یہی تنقید راقم ایک موٹیویشنل اسپیکر صاحب کے حوالے سے فاضل کالم نگار کا مضمون شائع ہونے سے کئی روز قبل سن چکا تھا اور یہ جوابی خیال آرائی کرنے میں خود کو کسی حد تک حق بجانب سمجھتا ہے کہ مضمون کے شروع میں دیا جانے والا غیر جانبداری کا تاثر درست نہیں ہے اور فاضل کالم نگار کے یہ مضمون لکھنے کے پیچھے "توازن” کی محبت کے علاوہ بھی کچھ کار فرما ہوسکتا ہے۔
فاضل کالم نگار نے کامیابی کی تعریف کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ عرض یہ ہے کہ راقم کا مقدمہ شروع ہی وہاں سے ہوتا ہے۔ راقم نے کتاب کا آغاز ہی دولت وشہرت کے حصول کو کامیابی قرار دینے کے رویے پر تنقید سے کیا ہے۔ راقم نےکتاب میں یہ بھی وضاحت کی ہے کہ راقم کسی راہبانہ نظریے کا پرچار نہیں کررہا بلکہ خوشحالی کے حصول کی خواہش اور کوشش کو جائز سمجھتا ہے تاہم یہ تصور کہ دنیاوی کامیابی انسان کے اپنے ہاتھ میں ہے راقم کی رائے میں نادرست اور خطرناک ہے۔ اور راقم پوری شدت سے اپنی رائے پر قائم ہے کہ دنیاوی کامیابی کا تقریباً کلی انحصار ان عوامل پر ہے جو انسان کے بس سے باہر ہوتے ہیں۔ فاضل کالم نگار سمیت کوئی بھی ناقد ابھی تک راقم کے اس دعوے کے خلاف کوئی دلیل نہیں پیش کرسکا کہ کامیابی میں فیصلہ کن کردار ان عوامل کا ہوتا ہے جو انسان کے بس سے باہر ہوتے ہیں اور یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ "یہ بات درست ہے کہ کامیابی کیلئے قسمت کا ساتھ دینا بھی بہت ضروری ہے۔ اور اس کے بغیر آپ دوسرے عوامل کے باوجود مطلوبہ مقصد حاصل کرسکتے”۔ تاہم مان کر بھی نہ ماننے کی روش اپناتے ہوئے بے معنی سخن طرازی کے سہارے بے کار نظریات کو سہارا دینے کی کوشش میں مصروف ہیں۔
عرض یہ ہے کہ یہ مان لینا کہ دنیاوی کامیابی کا انحصار ان عوامل پر ہے جو انسان کے بس سے باہر ہوتے ہیں انفرادی اور اجتماعی طور پر کئی مطلوب رویوں کو جنم دیتا ہے۔ جہاں انفرادی طور پر ‘ناکامی’ کی صورت میں انسان مایوس اور ‘کامیابی ‘ کی صورت میں گھمنڈی نہیں ہوتا وہیں اجتماعی سطح پر اس احساس کو جنم دیتا ہے کہ سب کی فلاح سب کی ذمہ داری ہے۔ اس کے برعکس ‘کامیابی’ اور ‘ناکامی’ کا ذمہ دار فرد ہی کو ٹھہرانے سے جو خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں ان پر مفصل کلام راقم اپنی کتاب میں کرچکا ہے۔
رہی محنت تو جیسا کہ راقم نے لکھا ہے” قسمت کی حاکمیت کے نظریے پر یقین رکھنے سے بدعملی اور ترکِ محنت لازم نہیں آتے۔ محنت کا جذبہ انسان کی فطرت کے اندر ودیعت شدہ ہےاور محنت کو تاریخی طور پر ایک اخلاقی قدر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اپنی قسمت کا مالک ہونے کے لغو نظریہ محنت کو ایک اخلاقی قدر کے مقام سے گر ا کر محض حصولِ مال کے ایک ٹول کے طور پر پیش کرتا ہے جو اگر مطلوبہ نتائج پیدا نہ کرے تو بیکار ہی سمجھا جائے گا۔ اس کے برعکس قسمت کی حاکمیت کے نظریے پر یقین رکھنے والا محنت کے مثبت یا منفی نتائج سے قطعِ نظر اپنی محنت کے عمل پر فخر کرسکتا اور اس سے خوشی کشید کرسکتا ہے۔ "۔
حسان خالد کا مضمون: ”کیا سیلف ہیلپ لٹریچر خطرناک ہے؟”