ہمارے ہاں ایم فِل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر جو تحقیقی مقالے لکھے جارہے ہیں ان کے بارے گاہے بگاہے علمی حلقوں میں بحث چلتی رہی ہے ۔
بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اب بیش تر مقالے مکھی پر مکھی مارنے کی عمدہ ترین مثال کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے۔
اس معاملے میں سماجی سائنس کے مضامین خاص طور پر سرقہ بازوں کے ہاتھوں کھلواڑ بنے ہوئے ہیں ۔
برسوں سے کوئی ایسی تحقیق سامنے نہیں آئی جس نے کسی بھی جہت سے معاشرے میں تبدیلی کی تحریک پیدا کی ہو ۔ یہ واقعی المیہ ہے ۔
سمارٹ کاپی پیسٹنگ، ری فریزنگ اور عنوانات کے ہیر پھیر کے ذریعے ان ہونہار” محققین” کا حُقہ پانی چلتا ہے ۔
اب تو حالات یہ ہیں کہ کئی ریسرچ جرنلز میں بھی ایسے جعلی مقالے شائع ہوجاتے ہیں اور صاحب مقالہ فخر سے اپنی پروفائل میں ان شائع شدہ مقالوں کی تعداد لکھتا ہے ۔ پھر کچھ عرصے بعد کُھلتا ہے کہ وہ تحقیقی مقالہ نہیں بلکہ چربہ تھا ۔
یہ مقالہ نگاری اب ایک محدود قسم کی صنعت یا انڈسٹری بن چکی ہے ۔ ٹھیکے پر مقالہ نگار دستیاب ہوتے ہیں ۔
سپروائزر یا نگران حضرات جس انداز میں مقالہ نگاروں کی ”سرپرستی” کرتے ہیں،وہ الگ داستان ہے جس میں ان گنت چھوٹی بڑے داستانیں شامل ہیں۔
مختصر یہ کہ ہر طرح کی ”رشوت” یہاں روا ہے ۔ اس قسم کی ایم فل اور پی ایچ ڈی سے ملازمت ، گریڈ میں ترقی اور ”ڈاکٹر” کا سابقہ تو مل جاتا ہے لیکن معاشرے کو اس کا کوئی فائدہ نہیںہوتا ۔
خبر یہ ہے کہ اس وقت ملک بھر کے 50 سے زائد پروفیسرصاحبان اپنے تحقیقی کام میں سرقہ بازی اور چربہ سازی کے الزام کی زد میں ہیں اور اس بارے میں تحقیقات شروع ہوا چاہتی ہے ۔
تکلیف وہ پہلو یہ ہے کہ اپنے تئیں یہ پڑھے لکھے بابو کس قسم کی کھوکھلی علمی روایت کو پروان چڑھا رہے ہیں جس کے نتیجے میں لائبریریاں جعلی مقالوں سے بھرتی جارہی ہیں لیکن ان کی تحقیقات کا معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا ۔