”بابا جی! دنیا کا سب سے بھاری بوجھ خالی جیب ہوتی ہے“ ۔ ہندوستانی فلم کے ایک ہیرو کابولا ہوا یہ جملہ مجھے گزشتہ کل اس وقت یاد آیا جب آزاد کشمیر کے منتخب وزیر اعظم فاروق حیدر خان نے مظفرآباد میں شدید مالی بحران کے باعث نو تعمیر شدہ وزیراعظم ہاوس کسی نجی ادارے کو کرائے پر دینے کا اعلان کیا ۔
کہانی چنداں مشکل نہیں ۔ اس وقت وفاق میں مسلم لیگ نواز برسر اقتدار ہے اور آزاد کشمیر میں بھی چند ماہ قبل اسی جماعت کے ونگ نے بھاری اکثریت حاصل کر کے اپنی حکومت قائم کی ہے ۔ادھر گلگت بلتستان میں بھی یہی سیاسی جماعت کاروبار حکومت چلا رہی ہے ۔ گویا ایک طرح سے ”ون مین شو“ ہے ۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آزادکشمیر کی حکومت کے دیرینہ گلے شکوے ختم ہو جاتے اور انہیں ان کے حصے کے فنڈز فراہم کیے جاتے مگر تین ماہ گزر جانے کے باوجود ایسا نہ ہو سکا ۔ حالت یہ ہے کہ نئی ریاستی حکومت کو پہلے دن سے ہی 22ارب سے زائد کے خسارے کا سامنا ہے ۔
اس سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی یہ شکوہ رہتا تھا کہ وفاق(مسلم لیگ نواز کی حکومت)نے ان کے ترقیاتی فنڈز روک رکھے ہیں ۔ ان کی شکایت کو کسی الزامی جواب سے نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن راجہ فاروق حیدر تو اسی جماعت کے ریاست میں سربراہ ہیں ۔ وہ جائیں تو کہاں جائیں؟ صدا بلند کریں تو کس کے آگے ؟ اس وقت ان کی کیفیت حفیظ جالندھری کے اس شعر کے مرکزی کردار جیسی ہے :
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
فاروق حیدر اس وقت ملازمین کی تنخواہوں اور ریٹائر ملازمین کی پنشن کی ادائیگی کے بارے میں کافی پریشان ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق اسٹیٹ بینک نے بھی حکومت کو مزید اوور ڈرافٹ کی سہولت فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے ۔ اسی پریشانی کے عالم میں وزیراعظم فاروق حیدر خان نے نو تعمیر شدہ وزیر اعظم ہاوس میں منتقلی کی بجائے اسے کرائے پر چڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اپنی شخصیت اور بات چیت کے اعتبار سے دبنگ سمجھے جانے والے فاروق حیدر نے کمال خوبی سے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کی کوشش کی ہے لیکن کیا کوئی سمجھے گا؟ کیا وفاق میں کلیدی عہدوں پر براجمان انہی کی سیاسی جماعت کے کارپرداز کھری بات کرنے والے فاروق حیدر کے اس لطیف قسم کے احتجاج کا مثبت جواب دیں گے؟ کیا آزادکشمیرحکومت کے مالی خسارے کو ختم یا پھرکم سے کم کیا جائے گا؟ ان سوالوں کے جواب ابھی تک فاروق حیدر سمیت کوئی نہیں جانتا ۔
شنید یہ بھی ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومتی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم فاروق حیدر نے وفاقی وزراءکی آزادکشمیر کے اندرونی معاملات میں حد سے بڑھی ہوئی مداخلت پر پابندی لگانے کا مطالبہ بھی کیا ہے جن میں وزیر امور کشمیر برجیس طاہر، مشیر وزیراعظم پاکستان سید آصف کرمانی نمایاں ہیں ۔ ظاہر ہے اسلام آباد یہ بات ٹھنڈے پیٹوں کیونکر برداشت کر سکے گا؟
فاروق حیدر اس سے قبل بھی کئی فورموں پر متنازع ایکٹ 74ء، وفاقی وزراءکی ریاست کے حکومتی و انتظامی معاملات میں بے جا مداخلت، پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کی نشستوں سے جڑے معاملات پر تنقید کر چکے ہیں ۔ انہوں نے ایک موقع پر وزیر امور کشمیر کے عہدے کو ”وائسرائے“ سے بھی تشبیہہ دی تھی ۔
راجہ فاروق حیدر خان اپنی افتاد طبع کے باعث ابھی تک وفاقی حکومت کے کرتا دھرتاوں کے ہاں قبولیت کا شرف حاصل نہیں کر پائے ہیں ۔ ان کے کافی حد تک کھلے لب ولہجے کی باعث وفاق میں مسلم لیگ نواز کے چند اہم رہنما گو مگو کا شکار ہیں بلکہ یوں کہیے کہ وہ ”بھرے” بیٹھے ہیں ۔ فاروق حیدر اور ان کی کابینہ نے ایکسائز ڈیوٹی سے متعلق اختیارات کشمیر کونسل سے واپس لیے جانے کا مطالبہ بھی کیا ہے لیکن اس کی راہ میں متنازع ایکٹ 74ءرکاوٹ بڑی رکاوٹ ہے۔ بیماری کا خاتمہ اس کے بنیادی سبب کے سدباب سے مشروط ہے لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ یہ سوال مگر قائم ہے؟
صورت حال کی سنگینی کا اندازہ مجھے آج لاہور میں آزادکشمیر کے سابق وزیراعظم اور مسلم کانفرنس کے صدر سردار عتیق احمد خان سے ملاقات کے دوران ہوا جب انہوں نے بتایا کہ ابھی تک اسمبلی ممبران کو بھی تنخواہ نہیں مل سکی ہے ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ سردارعتیق نے حکومت کو ”سائنٹیفک دھاندلی“ کی پیداوار تو کہا لیکن اس کے ساتھ ساتھ فاروق حیدر اور ان کی کابینہ کے حالیہ اعلانات کو درست قرار دیا۔
ابھی پچھلے ہفتے پاکستان کے صدر ممنون حسین نے ریاستی دارالحکومت مظفرآباد کا تین روزہ دورہ بھی کیا ۔ بتایا گیا ہے کہ اس دورے کے جملہ اخراجات ریاستی حکومت کو برداشت کرنے پڑے۔ شنید یہ بھی ہے کہ جب ریاستی حکومت کی جانب سے صدر پاکستان سے فنڈز کی فراہمی کی بابت بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ میں” میں آپ کو حلیم کی دیگ بنا کر بھیج سکتا ہوں“ ۔
ممکن ہے یہ جواب صدر ممنون حسین نے ازراہ تفنن دیا ہو مگر حقیقت کچھ مختلف نہیں ہے ۔وفاقی حکومت کی اب تک پالیسیوں سے عیاں ہے کہ وہ ریاستی حکومت پر کبھی ایک خاص حد سے زیادہ اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی ۔یہی وجہ ہے کہ آج تک وفاق میں اقتدار کی حامل جماعتیں ریاستی حکومت کو داخلی سطح پر بااختیار اور فیصلہ سازی کی اہل بنانے میں مسلسل پس وپیش کرتی چلی آئی ہے ۔
اس سے قبل ریاست میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ریاست کے نچلی سطح تک کے فیصلے فریال تالپور کے فرنٹ مین چوہدری ریاض نامی ایک شخص چلاتے تھے۔ ان کے پاس کوئی عہدہ نہیں تھا لیکن کہا جاتا تھا کہ ریاست میں چپراسی تک انہی کی مرضی سے بھرتی کیا جاتا ہے ۔ اب کی بار آصف کرمانی فریال تالپور بننے چلے تھے اور برجیس طاہر بھی بالواسطہ ریاست میں حکومت کرنے کے خواہاں تھے لیکن فاروق حیدر کی جانب سے ابتداءہی سے مزاحمت کے بعد یہ لوگ شاید کسی دوسرے منصوبے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
بات سیدھی سی ہے ۔ ریاستی حکومت نے انتخابات میں شہریوں سے حالات میں سدھار لانے کے وعدے کیے ہیں ۔ لوگ اب سوال پوچھتے ہیں کہ کہاں گئے وہ وعدے؟ کدھر گئے وہ اربوں کے منصوبے جن کے دعوے کیے جارہے تھے؟ خطے کی ترقی اور انفرااسٹرکچر کی بہتری تو دور کی بات یہاں تو پہلے سے موجود سرکاری ملازمین کی تنخواہیں غیر یقنیت کا شکار ہیں۔ اگر وفاق کی جانب سے یہی رویہ برقرار رہتا ہے تو ریاست کے عوام میں مزید مایوسی بڑھے گی ۔ لگتا یہ ہے کہ فاروق حیدر تنگ آ کر پھٹ پڑیں گے اور پھر ریاست کسی نئے سیاسی ایڈونچر کی نذر ہو جائے گی ۔ خدا کرے ایسا نہ ہو ۔