یہ واجد خان کا نہیں بلکہ صحافت کا گریبان نوچا گیا ہے۔ صحافی یا خبر نگار حکومت اور سماج کے درمیان کے پُل کی طرح ہوتا ہے ۔ یہ پولیس والے کی جانب سے اس پُل کو توڑنے کی کوشش ہے ۔تسلیم کہ صحافی بہت مالدار نہیں ہوتا لیکن اس کے پاس دیگر انسانوں کی طرح ایک چیز ہوتی ہے جسے ”عزت نفس“ کہتے ہیں ۔ وہ ساری زندگی اُسی کے سہارے جیتا ہے ۔
وہ خبر دیتا ہے تو اسے دو طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔ ایک تو سراہنے والے اور دوسرے اس کی دشمنی پر اُتر آنے والے ۔ وہ انہی دوستیوں اور دشمنیوں کے درمیان عمر گزارتا ہے ۔
یہ ریاستی دارالحکومت مظفرآباد میں منعقدہ آزادکشمیر کے یوم تاسیس کی تقریب تھی ۔ صحافیوں کو اسے کور کرنے بلایا گیا تھا۔ کچھ صحافی تقریب میں موجود تھے اور دیگر وقفے وقفے سے پہنچ رہے تھے۔ اسی دوران ریاستی اخبار خبرنامہ کے ایڈیٹر اور سینئر صحافی عبدالواجد خان گیٹ پر پہنچے ۔ انہیں گیٹ پر کھڑے پولیس والے نے روکا تو انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے اپنا کارڈ سامنے کیا تو پولیس والے نے رعونت بھرے لہجے میں کہا ”وڑ گیا تمہارا کارڈ“ ۔
وردی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے پولیس والے نے مزید کہا کہ ”ایتھے بٹا پٹو تے صحافی نکل آندے “ وغیرہ وغیرہ۔ اس دوران اس نے واجد خان کا گریبان بھی پکڑا اور انہیں دھمکانے کی کوشش کی ۔ واجد کے ساتھ شوکت جاوید میر بھی تھے جنہوں نے پولیس والے کو واجد کے بارے میں بتانے کی کوشش کی تو وہ مزید بپھر گیا۔ شوکت جاوید میر نے واجد کے ساتھ یکجہتی کرتے ہوئے احتجاجاًاس تقریب میں جانے سے انکار کر دیا ۔
اس دوران واجد خان نے اندر موجود صحافیوں کو اس توہین آمیز واقعے کی اطلاع دینا ضروری سمجھا۔ سو انہوں نے تقریب میں موجود سب دوستوں کو بتایا تاکہ کل کوئی یہ نہ کہے کہ ”ہمیں
اُسی وقت بتاتے تو ہم واک آوٹ کر جاتے “۔ خیر دوستوں نے اپنی مجبوریاں بیان کیں اور کہا کہ یہ ریاستی سطح کی تقریب ہے اور چینلز کی ڈیمانڈ ہے اس لیے تقریب کے بعد معاملے کو دیکھا جائے گا۔اطلاع دینے کے بعد واجد خان باہر نکل آئے ۔
مجھے نہیں معلوم اب کیا ہو گا۔ امید ہے صلح ہو جائے گی لیکن اس واقعے کو اگر معمول کا واقعہ سمجھ کر مٹی پھیرنے کی کوشش کی گئی تو آئندہ کبھی بھی کہیں بھی کوئی سرکاری یا پرائیویٹ ملازم کسی بھی صحافی کا گربیان پکڑ کر اسے گھسیٹتا پھرے گا۔ یہ معاملہ اب واجد خان کا نہیں بلکہ پوری صحافتی کمیونٹی کی عزت نفس کا ہے ۔اس ناروا سلوک کے پیچھے اگر کہانی کوئی اور ہے تو وہ بھی سامنے آنی چاہئے ۔
اگر واجد خان کے ساتھ کسی خاص سوچ کی بنیاد پر جان بوجھ کر امتیازی سلوک کیا گیا ہے تو اس رویے کے خلاف کھلا احتجاج ہونا چاہیے ۔ اگر پولیس والا یہ دلیل دیتا ہے کہ وہ واجد خان کو نہیں جانتا ، یہ قابل تسلیم نہیں ہے کیونکہ ایک چھوٹے سے شہر کے مقامی روزنامے کا ایڈیٹر کوئی ایسا گمنام آدمی نہیں ہوتا جسے کسی مقامی تھانے کا ملازم پولیس والا نہ جانتا ہو۔ واجد خان کو تو اس شہر کی خاک چھانتے ہوئے طویل عرصہ ہو چکا ہے۔
اس واقعے کے بعد میری واجد خان کے ساتھ فون پر بات ہوئی۔ خود دار آدمی اپنی اس توہین پر سخت آزردہ تھا ۔کچھ اور پولیس والوں نے بعد میں انہیں فون کر کے ہمدردی کی کوشش کی مگر عزت نفس پر لگا چرکا کبھی لفظی لیپا پوتی سے مندمل نہیں ہوتا۔ کچھ صحافی دوست اس واقعے پر سخت برہم ہیں ۔ انہوں نے پولیس کے نمائندوں کو آڑھے ہاتھوں لیا ہے مگر یہ سب کچھ عارضی نہیں ہونا چاہیے۔
مجھے ڈر ہے کہ اب کی بار بھی ایسا ہی نہ ہو جو اس سے پہلے ہوتا رہا ۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ مظفرآباد میڈیکل کالج میں طلبہ کی ہڑتال کے دوران ایک فوٹو جرنلسٹ ایم ڈی مغل پر پولیس والوں نے تشدد کیا ۔احتجاج ہوا۔ پھر چند پولیس والے اور ڈسی سی وغیرہ سنٹرل پریس کلب آئے اور معاملہ رفع دفع ہو گیا۔ اس کے بعد آج پھر ایک صحافی کا گریبان کیوں پکڑا گیا؟ اس کا واضح مطلب ہے کہ انتظامیہ کے لوگ صحافیوں کے بارے میں نامناسب قسم کے خیالات رکھتے ہیں ۔
اس ساری صورت حال میں صحافی برادری حق رکھتی ہے کہ وہ راست اقدام اٹھائے اور پوری کمیونٹی کی اس توہین کے خلاف زور دار احتجاج کرے اور بدتمیزی کرنے والے پولیس ملازم کے خلاف باقاعدہ تادیبی کارروائی ہو جانے تک احتجاج جاری رکھے ۔ اگر کمیونٹی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ واجد خان سے مذکورہ پولیس والا معافی مانگے تو یہ بالکل بجاہے ۔ جس شخص کی عزت نفس مجروح ہوئی ہے وہ اس بات کا حق رکھتا ہے ۔
تیسر ے محکمہ اطلاعات میں بیٹھے تن خواہ دار اور مراعات لینے والے ملازمین کو اپنی ذمہ داریوں پر نظرثانی کرنی چاہیے ۔ اس افسوس ناک واقعے کی ذمہ داری کافی حد تک محکمہ اطلاعات کے نااہل عہدے داروں پر بھی عائد ہوتی ہے۔
صحافی دوستوں کاشف میر اور نعیم چغتائی نے تقریب سے فارغ ہونے کے بعد تھانے میں واجد خان کی معیت میں درخواست جمع کروائی ۔ نوٹس لینے کے لیے ایک پیغام سینئر صحافی طارق نقاش نے بھی آئی جی پولیس کو بھیجا ہے ۔ یہ سب اچھی باتیں ہیں لیکن حالیہ واقعے کو ماضی کی طرح نشستند، گفتند اور برخاستند کی طرح ختم نہیں کر دینا چاہئے۔ اب بات کسی ایسے باقاعدہ ضابطہ اخلاق اور لائحہ عمل پر منتج ہونی چاہئے جس کی پاسداری ایسی تقاریب کے منتظمین پر لازم ہو اور وہ ضابطہ اخلاق آنے والے مہمان صحافیوں کی عزت نفس کی ضمانت فراہم کرتا ہو۔
میں بطور صحافی برادری کے ایک فرد کے اس واقعے کی شدید مذمت کرتا ہوں اور واجد خان کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم اس بد تمیز پولیس والے کے رویے کے خلاف ہر طرح سے آپ کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ یہ آپ کی نہیں بلکہ پوری صحافتی برادری کی عزت کا معاملہ ہے ۔