[pullquote]آن لائن ہراساں
[/pullquote]
ہر دن لاکھوں تصویریں سوشل میڈیا پر شیئر کی جاتی ہیں لیکن دنیا کے کچھ حصوں میں کچھ معصوم سی تصاویر بھی پریشانی کا سبب بن جاتی ہیں۔ یہ کہانی 19 سال کی ایک افغان لڑکی خاطرہ فیضی کی ہے جو بتاتی ہیں کہ پختون روایات کو چھوڑ کر جب انہوں نے صحافت کا پیشہ اپنایا اور فیس بک پر پوسٹ کرنا شروع کیا، تو ان کے ساتھ کیا ہوا۔
پختون معاشرے میں کسی لڑکی کا میڈیا میں کام کرنا ایک مشکل بات ہے. لیکن میرا ہمیشہ سے یہ خواب تھا کہ میں صحافی بنوں اور اپنے معاشرے کی مدد کروں۔ جس انسان نے سب سے پہلے میری مخالفت کی، وہ کوئی اور نہیں بلکہ میری امی تھیں تاہم، ابا میرے حق میں تھے۔ انھیں میری دلچسپی کا علم تھا۔
انھوں نے دیکھا تھا کہ میں کتنی شدت سے صحافی بننا چاہتی تھی۔ میرے بھائی بہن بھی نہیں چاہتے تھے کہ میں کام کروں۔ میرے کچھ رشتہ داروں نے کہا کہ ان کے خاندان کی کوئی لڑکی کام کرنے کے لیے کبھی باہر نہیں گئی۔ کچھ تو ایسے بھی تھے جنھوں نے کہا کہ ‘میرے میڈیا میں کام کرنے سے انھیں شرمندگی ہوگی۔’ میں نے ہلمند میں ‘ریڈیو اور ٹی وی افغانستان’ کے ساتھ کام کرنا شروع کیا اور پریشانیوں اور دشواریوں کے لیے مجھے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا۔ مجھ سے کہا گیا کہ اگر آپ کو لڑکی ہو کر میڈیا میں کام کرتی ہیں اور فیس بک پر سرگرم رہتی ہیں، تو لوگ آپ کے بارے میں غلط اندازہ لگا سکتے ہیں۔ دنیا کے کچھ ممالک میں آج بھی خواتین کا سوشل میڈیا پر سرگرم ہونا نا مناسب سمجھا جاتا ہے
[pullquote]نام خراب کر دوں گا[/pullquote]
دو لڑکے جو میرے ساتھ ہی کام کرتے تھے، انھوں نے مجھے پریشان کرنا شروع کر دیا۔ ان کے ناجائز مطالبات شروع ہو گئے اور آخرکار انھوں نے مجھے دھمکانا شروع کر دیا۔ جب میں نے انھیں نظر انداز کیا تو انھوں نے میرا ایک میموری کارڈ چرا لیا جس میں میرے خاندان کی اور کچھ ذاتی تصاویر تھیں۔ میرا میموری کارڈ ان کے ہاتھ لگنے کے بعد مجھے اور زیادہ دھمکی بھرے پیغام ملے۔ ‘میرے پاس تمہاری تصاویر ہیں۔ تم میرے ساتھ افیئر کرو گی یا نہیں؟ اگر تم ایسا نہیں کرتی تو میں تمہاری فوٹو فیس بک پر پوسٹ کر دوں گا میں تمہارا نام خراب کر دوں گا۔’
فوٹو فیس بک پر پوسٹ کرنے سے مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ان تصاویر میں کچھ بھی غلط نہیں تھا۔ خیر کچھ بھی ہو، میں میڈیا میں کام کرتی ہوں اور اپنی تصاویر فیس بک پر پوسٹ کرتی رہتی ہوں۔ لیکن میموری کارڈ میں کچھ خاندانی تصاویر بھی تھیں اور کچھ میں میں نے حجاب نہیں پہن رکھا تھا جبکہ کچھ تصاویر خاندان کی شادی شدہ عورتوں کی تھیں۔
[pullquote]لڑکی کی عزت[/pullquote]
میں یہ واضح کرنا چاہوں گی کہ قندھار کے علاقے میں اگر کوئی لڑکی اپنی تصویر آن لائن پوسٹ کرتی ہے تو لوگوں کو اسے ‘بدچلن’ قرار دینے کی وجہ مل جاتی ہے۔ لوگ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کوئی لڑکی انٹرنیٹ پر اپنی تصاویر پوسٹ کر کے خود کو ‘ذلیل’ کیسے کر سکتی ہے؟ کسی بھی طرح کی تصویر، اگرچہ وہ کتنی ہی معصوم کیوں نہ ہو، کسی لڑکی کی عزت خراب کر سکتی ہے۔ میں نے کچھ وقت کے لیے ٹی وی کی نوکری چھوڑ دی، لیکن وہ باز نہیں آئے۔ انھوں نے فیس بک پر میرے نام سے 15 اکاؤنٹ بنا لیے، جن میں میری پروفائل تصویر لگائی گئی تھی۔
[pullquote]خاندان کے سوالات[/pullquote]
جب یہ تصاویر آن لائن پوسٹ کی گئیں، تو میری بہن اور اس کے سسرال والوں کو کئی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ لوگوں نے میرے خاندان کے خلاف طرح طرح باتیں کرنا شروع کر دیں۔ان تصاویر نے میرے لیے بھی پریشانی پیدا کر دی۔ میرے گھر والوں کو لگا کہ میں نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے۔ انھوں نے مجھ سے اس بارے میں سوال بھی کیے۔ ہلمند کے آخری دنوں میں مجھے دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔حالانکہ میں خوفزدہ نہیں ہوئی لیکن اگر آپ کے دماغ میں ہر پل یہی سب چیزیں چلتی رہیں گی تو آپ اپنی کی زندگی کو آگے کیسے بڑھائیں گے۔
[pullquote]ابا کا ساتھ[/pullquote]
میں نے خاندان کو مشکلات سے بچانے کے لیے ہلمند چھوڑنے کا فیصلہ کیا میں کابل یونیورسٹی آ گئی۔ میرا خاندان اب بھی ہلمند میں ہے۔
پختون خاندان عموماً اپنی جوان بیٹیوں کو باہر جانے اور دوسرے شہر میں رہنے کی اجازت نہیں دیتے لیکن میرے معاملے میں مجھے ان مشکلات کی وجہ سے ہی باہر بھیجا گیا۔
میرے ابا نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا۔ میری ہر کامیابی کے پیچھے میرے والد ہیں جب میں نے ان دھمکیوں کے بارے میں انہیں بتایا تو ان کا کہنا تھا، ‘اگر تم ان سب چیزوں کی فکر کرو گی تو کبھی گھر سے باہر نہیں نکل سکو گی۔’
انھوں نے کہا، ‘اگر تم آگے تعلیم حاصل کرنے کے اپنے فیصلے پر قائم ہو، تو ان سب باتوں کی فکر نہ کرو یہ سب چیزیں تمہیں آگے بڑھنے اور پڑھنے سے روكیں گے اس لیے تم اگر آگے بڑھنا چاہتی ہو تو ان باتوں پر توجہ نہ دو۔’