فلم عبداللہ کی کہانی مئی ۲۰۱۱ میں پیش آنے والے مشہور زمانہ خروٹ آباد واقعے کے ایک عینی شاہد عبداللہ کے ساتھ ہونے والی تفتیش کے گرد گھومتی ہے جسے واقعے میں ہلاک ہونے والے چار روسی اور ایک تاجک کا ساتھی ہونے کی بنیاد پر حراست میں لے لیا جاتا ہے۔
اس وقت پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق وہ پانچوں غیر ملکی دہشت گرد تھے لیکن میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ تمام مسافر نہتے تھے جنہیں شک کے شہبے میں ہلاک کرنے کے بجائے گرفتار کیا جاسکتا تھا۔ اس ویڈیو کے منظرعام پرآّنے کے بعد پاکستان میں اس وقت کے چیف جسٹس نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایک کمیشن تشکیل دیا جس کا کام خروٹ آباد کی تفتیشی رپورٹ پیژ کرنا تھا۔ فلم میں اسی تفتیشی کمیشن کی کارروائیوں کو آگے بڑھتے دکھایا گیا ہے۔
تفتیش کے دوران عبداللہ پولیس کے دباؤ میں آکر جھوٹی گواہی دے دیتا ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ واقعے میں ہلاک ہونے والے اشخاص دہشت گرد تھے لیکن اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا رہتا ہے اور بالآخر وہ کمیشن کے سامنے صحیح بیان دے دیتا ہے کہ وہ غیر ملکی جن میں ایک حاملہ عورت بھی شامل تھی، دہشت گرد نہیں بلکہ ممکنہ طور بغیر ویزا پاکستان میں داخل ہونے والے مسافر تھے۔
فلم کی کہانی اور ہدایات ندیم ہاشم نے کہ ہیں جبکہ حمید شیخ، ساجد حسن، عمران ترین، عمران عباس اور سعدیہ خان نمایاں اداکاروں میں شامل۔
ہاشم ندیم نے پہلی مرتبہ فلم کی ہدایات دی ہیں۔ اس سے قبل وہ مشہور ٹی وی ڈرامہ سیریل ’خدا اور محبت‘ کی ہدیات دے چکے ہیں۔
عبداللہ کے کردار میں حمید شیخ نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک تجربہ کار اور منجھے ہوئے اداکار ہیں جو کردار کی جزیات میں جاکر اداکاری کرتے ہیں۔ عمران عباس ایک پٹھان لڑکے کے روپ میں مناسب لگ رہے ہیں البتہ ان کی آوازاور لہجہ ڈب کرکے ڈالا گیا ہے۔ سعدیہ خان ایک پٹھان لڑکی کا کردار نبھانے میں ناکام نظر آئیں۔ ساجد حسن ایک تفتیشی افسر کے روپ ہمشہ کی طرح اپنے کردار سے انصاف کرتے نظر آئے۔
فلم کی کہانی میں کافی جھول ہیں اور کئی چیزوں کو غیر ضروری طول دیا گیا ہے خاص طور پر عمران عباس اور سعدیہ خان کے رومانس کے مناظر جبکہ فلم کے مرکزی کردار عبداللہ پر کم توجہ دی گئی جس کی وجہ سے فلم موضوع کے اعتبار سے مظبوط ہونے کے باوجود کوئی خاص تاثرنہ چھوڑ سکی۔ فلم کی زیادہ تر عکسندی کوئٹہ اور واقعے کے مقام پر کی گئی ہے۔ فلم کی موسیقی پس پردہ ہے جس میں ایک قوالی بھی شامل ہے۔ فلم میں قبائلی پختون روایات کو مختلف طریقے سے پیش کیا گیا ہے جیسے ایک پختون کی اپنی بہن کی چچا زاد سے منگنی توڑنے کا اعلان کرنا۔
فلم میں واقعے کو سچائی کے ساتھ پیش کرنے کی جرات کی گئی ہے جو ایک اچھا اقدام ہے۔ ڈسٹری بیوٹرز کے مطابق یہ فلم واقعے سے متعلق بین الاقوامی میڈیا میں اٹھنے والے سوالات کا جواب ہے، خاص طور پر روسی میڈیا کے۔
عبداللہ ۲۰۱۴ میں مکمل کرلی گئی تھی جس کے بعد اسے مئی ۲۰۱۵میں ہونے والے کانز فلم فیسٹول میں بھی پیش کیا گیا تھا تاہم موضوع کے حساس ہونے کی وجہ سے پاکستان سنسر بورڈ کی جانب سے فلم میں تین بار ترمیم کے بعد۲۸ اکتوبر ۲۰۱۶ کو پاکستان میں ریلیز کی اجازت دی گئی۔