قطری شہزادے کےخط،اصل مسئلہ‌‌

:
سب سے پہلے تو اس خط کی تاریخ ملاحظہ کیجیے : 5 نومبر 2016ء ۔ یہ سوال میں نہیں اٹھاؤں گا کہ اگر 5 نومبر کو یہ خط موجود تھا تو پچھلے ہفتے کی سماعت میں کیوں پیش نہیں کیا گیا۔ مان لیتے ہیں کہ پچھلے وکیل کو اس خط سے کچھ خاص توقعات نہیں تھیں اور موجودہ وکیل کے نزدیک یہ خط بہت زیادہ اہم ہے۔ ہاں، یہ سوال ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ 1980ء میں ہونے والے کسی معاملے کے متعلق 5 نومبر 2016ء کو لکھے گئے خط کی قانونی حیثیت کیا ہے جبکہ 1980ء میں مبینہ طور پر کیا جانے والا معاملہ خط لکھنے والے نے خود سرانجام بھی نہیں دیا تھا ؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ خط اس مبینہ معاملے کا "ثبوت” ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے پہلے تو اس پورے خط میں تلاش کیجیے اگر کہیں خط لکھنے والے نے یہ قرار دیا ہو کہ وہ عدالت میں کوئی بیان دے رہا ہے۔ باقی باتیں ایک طرف، یہ تک نہیں کہا کہ
I do hereby solemnly affirm…
نہ ہی خط کے آخر میں یہ کہا گیا ہے کہ اس خط کے مندرجات میرے علم کے مطابق بالکل صحیح ہیں۔ ان قانونی الفاظ و تراکیب کی عدم موجودگی میں اس خط کی حیثیت بھی محض اخبار کی ہے جس سے زیادہ پکوڑے رکھنے کا کام ہی لیا جاسکتا ہے ۔

البتہ اخبار سے یہ خط ایک اور لحاظ سے اہم ہے اور بہت اہم ہے ۔ وہ یہ ہے کہ اخبار میں کسی اور کی خبر ہوتی ہے اور کسی اور کا بیان ہوتا ہے جبکہ یہ خط خود شریفوں کی جانب سے پیش کیا گیا ہے۔ اس لیے اس کے مندرجات کی حیثیت شریفوں کے نزدیک "مسلمہ حقیقت” کی ہوگئی ہے اور اب ان مندرجات کی صحت ثابت کرنے کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے ۔ Facts admitted need not be proved، قانون ِ شہادت کا بنیادی اصول ہے ۔ ہاں دوسرے فریق کو اس کے مندرجات پر اعتراض ہو تو وہ اس کے خلاف ثبوت پیش کرسکتا ہے لیکن شریفوں کے لیے ان مندرجات سے مکرنا قانوناً ناممکن ہے۔ اسی لیے ایک فاضل جج صاحب نے اکرم شیخ صاحب سے کہا کہ آپ اپنے موکل کو کہیں پھنسا نہ دیں!
پھر یہ بھی دیکھیے کہ اس خط کے لکھنے والے کا نام تو معلوم ہے لیکن مخاطب کسے کیا گیا ہے؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

خط کے آخر میں ایک دلچسپ بات کہی گئی ہے جو "شاہزادگانِ عرب”کی نفسیات واضح کرنے کے لیے نہایت اہم ہے ۔ لکھا گیا ہے :
This statement is private and confidential and cannot be used or disclosed to anyone without my prior written consent, except to the benefit of the courts and regulators of the Islamic Republic of Pakistan.
(یہ بیان نجی اور خفیہ ہے اور اسے میری پیشگی تحریری اجازت کے بغیر استعمال یا کسی کو دکھایا نہیں جاسکتا ، الا یہ کہ یہ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی عدالتوں اور حکمرانوں کے فائدے کے لیے ہو ۔ )

"نجی اور خفیہ” !
شہزادۂ مکرم کو معلوم نہیں ہے کہ یہ خط ان کے باج گزار علاقے کے منتظمین (regulators)کے پاس نہیں بلکہ ایک آزاد ملک کی اعلی ترین عدالت میں پیش ہونے جارہا ہے جس کے قانون کی رو سے عدالت میں پیش کی جانے والے کاغذات کو "عوامی دستاویزات”(Public documents) کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے اور ہر شہری کو ان تک رسائی کا حق حاصل ہوجاتا ہے ۔ سب سے زیادہ مقدمے کے دوسرے فریقوں کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ اس فریق کی جانب سے پیش کی جانے والی تمام دستاویزات انھیں میسر ہوں ۔

شہزادۂ مکرم کی اسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے ایک فاضل جج صاحب نے اکرم شیخ صاحب سے کہا کہ اگر آپ یہ دستاویز عدالت میں جمع کرائیں گے تو یہ پبلک ڈاکومنٹ ہوجائے گی ۔
یہ گویا شہزادۂ مکرم نے وہی کچھ فرض کیا تھا جو سعودی عرب کے شہزادہ مقرن نے برسرعام پریس کانفرنس میں کہہ دیا تھا ۔ جب انھیں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے شریفین کو حرمین سے واپسی کا حق دیا ہے اور کہا ہے کہ انھیں کوئی نہیں روک سکتا تو شہزادہ صاحب نے ایک دستاویز ہوا میں لہراتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ معاہدہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے قبل کا ہے اور اس معاہدے کی رو سے خود شریفین نے حرمین سے مخصوص مدت تک واپس نہ آنے کا اقرار کیا ہوا ہے !

پھر اکرم شیخ صاحب سے یہ بھی پوچھا گیا کہ کیا اس دستاویز میں جو کچھ لکھا گیا ہے اس کی بابت گواہی دینے ، اور جرح کا سامنا کرنے، کے لیے شہزادۂ مکرم خود تشریف لائیں گے ؟ ان کا جواب تھا کہ اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا ! واضح رہے کہ قانوناً اس کے بغیر اس خط کو محض دعوی ، یا بیان ، ہی کہا جاسکتا ہے ، ثبوت نہیں ۔ یہ ہے اس ثبوت کی قانونی حیثیت جو آج شریفوں کی جانب سے لندن فلیٹس کے سلسلے میں ملک کی اعلی ترین عدالت میں پیش کیا گیا !
اب کچھ سوالات خط کے مندرجات کے متعلق ۔
دوسرے پیرا گراف کے شروع میں قرار دیا گیا ہے کہ "مجھے بتایا گیا ہے "۔ کس نے بتایا ہے ؟ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اسی مجہول روایت کو قانون کی اصطلاح میں hearsay، یعنی سنی سنائی بات کہتے ہیں ۔ Hearsay evidence is no evidence۔ یہ قانونِ شہادت کا مسلمہ قاعدہ ہے ۔ آگے آئیے ۔ فرماتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ 1980ء میں میاں محمد شریف نے خواہش ظاہر کی کہ ایک مخصوص رقم (a certain amount) ہمارے کاروبار میں لگائیں ۔ کتنی مخصوص رقم ؟

یہاں نہیں بتایا گیا لیکن اگلے پیراگراف میں فرماتے ہیں کہ "میں سمجھتا ہوں” (I understand)کہ انھوں نے "تقریباً” (around)ایک کروڑ بیس لاکھ درہم لگائے ۔ ساتھ ہی اس رقم کا "ماخذ” بھی بتادیا! "یہ رقم دبئی ، متحدہ عرب امارات، میں کاروبار فروخت کرنے سے حاصل ہوئی ۔ ” آگے لندن فلیٹس خریدنے کے لیے آف شور کمپنیز کا بھی ذکر ہے اور رقم کے ادھر سے ادھر جانے کا بھی ۔ پھر پیرا گراف 5 میں فرماتے ہیں کہ "مجھے یاد پڑتا ہے ” (I can recall)کہ میاں محمد شریف کی خواہش یہ تھی کہ ان کے پوتے حسین نواز ان جائیدادوں کا "فائدہ اٹھانے والے "(beneficiary)ہوں اور پھر 2006ء میں ہم نے آپس میں حسابات صاف کیے ۔

واضح رہے کہ یہ ساری باتیں محض باتیں ہیں ، ثبوت نہیں ۔ ثبوت وہ ہے جو اس کے بعد ذکر کیا گیا ہے کہ یہ جو کچھ میں نے بیان کیا یہ میری یادداشت اور اس ریکارڈ کے مطابق ہے جو دوحہ میں موجود ہے ۔ اسی لیے ایک فاضل جج صاحب نے اکرم شیخ صاحب سے پوچھا کہ "منی ٹریل کہاں ہے ؟” یعنی کتنی رقم کب ، کہاں اور کیسے منتقل ہوئی؟

چناں چہ اب شریفوں پر لازم ہے کہ اس خط کے مندرجات کی صحت ثابت کرنے کے لیے دوحہ سے وہ سارا ریکارڈ پیش کریں ۔ اسی کو ثبوت کہا جائے گا ۔ اس خط کو نہیں ۔ البتہ اس خط کے مندرجات سے اب وہ مکر نہیں سکتے کیونکہ یہ ان کی جانب سے پیش کی گئی دستاویز ہے ۔ یہی نکتہ اس معاملے میں اب سب سے زیادہ اہم نکتہ بن گیا ہے کیونکہ لندن فلیٹس کے متعلق شریفوں کی جانب سے ، اور ان کے نمائندوں کی جانب سے ، مختلف مواقع پر مختلف بیانات اور توضیحات سامنے آئی ہیں اور وہ سب کچھ ریکارڈ کا حصہ ہے ۔ ان بیانات میں کچھ یہ ہیں :

حسن نواز نے 1999ء میں بی بی سی ہارڈ ٹاک میں کہا کہ میں وہاں رہتا ہوں لیکن میں نہیں جانتا کہ ان فلیٹس کی ملکیت کس کے پاس ہے ۔ یہ کرایے پر ہیں اور ان کا کرایہ ہر تین ماہ بعد پاکستان سے آتا ہے ۔ بیگم کلثوم نواز نے 2000ء میں روزنامہ انڈی پنڈنٹ برطانیہ کو بتایا کہ ہم نے لندن فلیٹس اپنے بچوں کے لیے خریدے جو وہاں پڑھ رہے تھے ۔ خواجہ آصف نے 2008ء میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام "آف دی ریکارڈ” میں کہا کہ فلیٹس شریف خاندان کے ہیں ؛ حسن نواز نے انھیں خریدا اور میں وہاں کوئی پندرہ سولہ سال قبل گیا تھا ۔ صدیق الفاروق نے اسی پروگرام میں 2010ء میں کہا کہ لندن فلیٹس میاں صاحب کے خاندان کی ملکیت ہیں اور میں ایک دفعہ 1996ء میں وہاں گیا تھا اور وہاں مقیم رہا تھا ۔ مریم صفدر (سابقہ مریم نواز) نے اسی پروگرام میں 2011ء میں ارشاد فرمایا کہ ان کی ، ان کی والدہ کی یا ان کے بھائیوں کی برطانیہ میں جائیداد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ چودھری نثار علی خان نے 2012ء میں پریس کانفرنس میں فرمایا کہ یہ فلیٹس میاں صاحب کے خاندان نے1992ء کے آس پاس مورٹ گیج کے ذریعے حاصل کیے تھے ۔ زعیم قادری صاحب نے 2015ء میں اے آر وائی نیوز کے پروگرام "آف دی ریکارڈ” میں ملکیت کو زیادہ پیچھے لے جاتے ہوئے قرار دیا کہ یہ جائیداد شریف خاندان نے ساٹھ کی دہائی کے آخر میں خریدی تھی ۔ حسین نواز 2016ء میں جاوید چودھری کے پروگرام میں کہا کہ "الحمد للہ میں نے یہ جائیدادیں 2006ء میں خریدیں۔ ” تاہم خود میاں محمد نواز شریف صاحب نے 2016ء میں پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں قرار دیا کہ ہم نے 2006ء میں سعودی عرب میں ایک اسٹیل مل بیچ کر یہ فلیٹس خریدے ۔

کس کا یقین کیجیے ، کس کا یقیں نہ کیجیے
لائے ہیں بزم ناز سے ، یار خبر الگ الگ !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے