چلو، کوئی اور بات کریں!

زندگی میں دو ہی ہستیاں دیکھیں جن کی کاروباری لین دین سے بے نیازی اپنی مثال آپ تھی۔ ایک ہمارے بی بی سی کے سینئر ساتھی اور ریڈیو پاکستان کے ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل حسن ذکی کاظمی اور دوسرے قیام پاکستان کے وقت قائد اعظم کے سیکرٹری اور خاندانی رشتہ میں میرے بزرگ کے ایچ خورشید ۔ کاظمی صاحب، جنہیں گھر والے اور سید راشد اشرف جیسے بے تکلف دوست سعید کہہ کر بلاتے ، دوران ملازمت کرائے کے مکانوں ہی میں رہے، بلکہ ایک بار ان سے یہ بھی سنا کہ بھئی ، ہمارے والد کی صورتحال بھی یہی تھی ،جبکہ دادا کے بارے میں کچھ کہہ نہیں سکتا ۔ آخری دنوں میں جب ان کے ساتھ مقیم بنکار صاحبزادے نے ذاتی بنگلہ تعمیر کرایا اور منافع پہ بیچنے لگا تو کاظمی صاحب نے طنز کیا ’ تو بیٹے ، اب اس گھر میں بیعانے پکڑے جائیں گے !‘ خورشید مرحوم کے قصے اس سے بھی زیادہ حیران کن ہیں ۔

یقین نہ آئے تو آزاد کشمیر کے اس اولین منتخبہ صدر کی تصنیف ’میموریز آف جناح‘ پہ نظر ڈال لیجئے جس کے اردو متن کی تیاری میں کچھ حصہ میرا بھی تھا ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی شایع کردہ اس مختصر مگر دل چسپ کتاب میں اب سے ستر برس پہلے سرینگر میں خور شید صاحب کے لئے قائد کی اس پیشکش کی کہانی بھی ہے کہ کیا تم میرے پرائیویٹ سیکرٹری بننا چاہو گے ۔ سب سے مشکل مرحلہ وہ تھا جب آجر نے کارکن سے ماہانہ تنخواہ کے بارے میں پوچھا اور سری پرتاپ کالج سے تازہ تازہ نکلے ہوئے20 سالہ نوجوان نے کم یا زیادہ کے چکر کے بغیر صرف اس لئے ’ایک سو‘ کہہ دیا کہ یوں ایک ناخوشگوار فریضہ تو ادا ہوا ۔ اس رویہ کا سراغ کتاب کے ان الفاظ میں ہے ’مَیں کاروباری شعبہ میں ہوتا تو یقینا نقصان اٹھاتا۔ اگر کبھی کسی سے کچھ لینا ہو تو یوں لگتا ہے کہ بھیک مانگ رہا ہوں‘ ۔

کے ۔ ایچ ۔ خورشید 1988 ءمیں میر پور سے واپس آتے ہوئے گوجرانوالہ کے قریب حادثے کا شکار ہوئے تو عجیب سا لگا کہ وہ لاہور آنے کے لئے نئے سیاسی مسخروں کے بر عکس ہیلی کاپٹر یا کسی مرسڈیز میں نہیں ، عام پاکستا نیوں کے ساتھ ہنسی خوشی ایک معمولی مسافر کوچ میں سفر کر رہے تھے ۔ وہ تو صدارت سے مستعفی ہو کر بھی سٹاف کار کی بجائے ٹیکسی میں نکلے تھے اور آخری دم تک کسی کمپلیکس کے بغیر کرائے کی کوٹھی میں مقیم رہے ۔ یہ سُن کر کہ Kh khoursheedان کے ایک قریبی جاننے والے نے نصف درجن شہروں میں رہائشی محل تعمیر کرا لئے ہیں ، خورشید کے مُنہ سے نکلا ’سوتا تو ایک ہی میں ہو گا‘ ۔ اتنا ہی برجستہ اسلام آباد میں چار کنال کا پلاٹ اس بنا پہ سرکاری نرخ پہ واپس کرنے کا فیصلہ تھا کہ اس زمین پر مقررہ میعاد کے اندر مکان بنانے کی شرط ہے،جو مَیں پوری نہیں کر سکتا ۔

اب کسے یاد ہوگا کہ ان تین برسوں میں جب پاکستان بنانے کی آخری لڑائی لڑی گئی تو خورشید صاحب کو بمبئی اور دہلی میں قائداعظم ؒ کا ساتھ چھوڑ کر والدین کے پاس سرینگر جانے کا موقع ایک بار بھی نہ ملا تھا ، حالانکہ اس دوران ان کی والدہ وزیر بیگم انتقال کر گئیں ۔ ذاتی عہد کی پاسداری کرتے ہوئے قائد کے سیکرٹری کے طور پر انہوں نے پہلی چھٹی اس وقت لی جب پاکستان وجود میں آ چکا تھا ۔ تاہم ، کشمیر پہنچنے پر خورشید کو بھارت نواز حکومت نے قید میں ڈال دیا ، جس سے رہائی اقوام متحدہ کے زیر اہتمام جنگ بندی کے بعد ہی عمل میں آئی ۔ یہ کشمیر کی ’آزادی‘ کے لئے قبائلی سپاہ کی یلغار کا زمانہ تھا ۔ لیکن ہم نے جو جنگی کارروائیاں کیں ، کیا قائد اعظمؒ ان سے باخبر تھے ؟ خورشید کی ڈائری میں اس کا جواب نفی میں ہے ۔ یہ سوال نازک سہی ، مگر کشمیر کے معاملہ کو الجھانے میں ہماری اپنی حکومتوں کی غلطیاں سر دست موضوع بحث نہیں ۔

میرا موضوع تو سیاست سے ہٹ کر چھوٹے چھوٹے نجی واقعات ہیں….بے ضرر، خوشگوار مگر قدرے تکلیف دہ واقعات ۔ خوشگوار اس لئے کہ ان کا حوالہ اپنی عظمت کو دبیز تہوں میں چھپانے والے ایک بڑے آدمی کی یاد سے جڑا ہوا ہے ۔ تکلیف دہ یوں کہ سیالکوٹ میں ثریا آپا اور کے ایچ خورشید کی شادی میں چار سالہ بچے کی شرکت سے لے کر اب سے 26 سال پہلے لندن سے مرحوم کی تعزیتی رپورٹ نشر ہونے تک ، ہر یاد میرے لئے ایک محرومی کی یاد بھی ہے ۔ اس احساس کے پیچھے یہ کوتاہی ہے کہ زندگی گزارنے کے پیرائے سیکھنے کی خاطر ’مفت مشورہ‘ کے لئے میں نے لاہور کی ریس کورس روڈ والے گھر یا ٹرنر روڈ کے اس قانونی پریکٹس کے دفتر میں بار بار حاضری کیوں نہ دی جہاں ایک مرحلے پر خورشید صاحب کے ہم نشیں اور معروف سوشلسٹ لیڈر سی آر اسلم کی نظریاتی موشگافیاں اضافی دلکشی کا باعث ہو سکتی تھیں ۔

پر وہ جو کہتے ہیں ’لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا‘ ۔ سب سے پہلے تو جموں و کشمیر کی آزاد حکومت کا صدر منتخب ہونے پہ جناب کے ایچ خورشید کا واہ میں ہمارے ہاں اچانک چلے آنا نہیں بھولتا ۔ مَیں پرائمری سکول میں تھا ، لیکن ابا نے یہ کہہ کر عزت افزائی کی کہ خورشید صاحب ، شاہد صاحب سے ہاتھ ملائیں ۔ اس وقت تو بس یہی سمجھ میں آیا کہ صدر ، خواہ وہ آزاد کشمیر ہی کا کیوں نہ ہو ، ایک ایوب خاں ٹائپ آدمی ہوتا ہے اور باوردی محافظین اس آدمی سے زیادہ اس کی لمبی سی کار کی حفاظت کرتے ہیں ۔ کار اور آدمی کا فرق تو پانچ سال گزرنے پر اس دن سمجھ میں آیا جب خورشید صاحب آزادی¿ بر صغیر کے بعد دلائی کیمپ کے پہلے سیاسی اسیر کے طور پہ 1965ءکی جنگ کے دنوں میں چھ ماہ کی نظر بندی کاٹ کر دوبارہ ملنے آئے تھے ۔ کار تھوڑی سی چھوٹی تھی ، طبیعت پہلے سے بھی شگفتہ تر ۔

چائے پی کر ممکن ہے بڑوں نے آپس میں کسی سیاسی موضوع پہ بھی بات کی ہو ۔ مجھے تو اس جسارت پہ ہنسی آتی ہے کہ ماں کے ذرا سے اشارے پہ پاک بھارت کشمکش کے پس منظر میں فلسفہ ¿ شہادت پر اپنی وہ انعام یافتہ تقریر سنا دی جس پہ آج غور کروں تو وزیر اعظم کے معاون اور کالم نویس عرفان صدیقی کی تحریر لگتی ہے ۔ پانچویں پیرا گراف سے آگے مسدس نما بند کے ایک مصرعہ میں وزن کی غلطی تھی۔ خورشید صاحب جو سخن فہم تھے ، تاڑ تو گئے ہوں گے ، لیکن ’بچے جمورے‘ کا دل رکھنے کے لئے تالی بجائی اور اپنا اور اپنی بیگم کا نام ایک ساتھ سُن کر مسکرائے کہ ’شہادت خورشید سے بھی زیادہ منور ، عمومی موت چراغ سحری کی پژ مردہ روشنی ، شہادت کا مقام اوج ثریا سے بلند تر ، بستر کی موت ریت کے ٹیلے سے بھی کمتر‘۔ میرے والد نے دلائی کیمپ میں قرآن حفظ کرنے کا پوچھا تو کہا ’ آدھا …. پھر انہوں نے رہا کر دیا‘۔

لطف کی بات یہ ہے کہ قائد کا تربیت یافتہ سیاسی رہنما42 سال کی عمر میں یہ کہہ کر اپنی کاوش کا کریڈٹ لینے پہ تیار نہ ہوا کہ قید میں قرآن شریف کے سوا مطالعہ کا کوئی مواد تھا ہی نہیں، اس لئے بار بار پڑھ کر پندرہ سپارے یاد کر لئے ۔ صحافت کی اصطلاح میں یہ اسٹوری ثریا آپا نے ’لیک‘ کی تھی ، اسی وسیع و عریض کوٹھی کی کہانی کی طرح جو موجودہ شاہراہ فاطمہ جناح پہ خورشید کے لندن جانے سے پہلے گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتر نے انہیں رہنے کے لئے الاٹ کی ۔ ان دنوں آپ نامور صحافی عزیز بیگ کے ساتھ مل کر لاہور سے ایک معیاری رسالہ ’گارڈئین‘ نکالا کرتے جس کی مزے مزے کی روئداد مورخ اور استاد کے کے عزیز نے کافی ہاﺅس والی کتاب میں درج کی ہے ۔ پر کوٹھی کے ساتھ کیا ہوا؟ جواب ثریا خورشید کا ، الفاظ میرے ۔

19 کوئنز روڈ والی کوٹھی میں خورشید چند ہی مہینے رہے ، پھر بیرسٹری کی تعلیم کے لئے انگلستان چلے گئے ۔ جیسا کہ ہوتا آیا ہے ان کی غیر موجودگی میں کسی نے یہ گھر اپنے نام کرا لیا ۔ جب خورشید آزاد کشمیر کے صدر تھے تو ان سے کہا کہ اب اگر ہم وہ گھر واپس لینا چاہیں تو آسانی رہے گی ۔ ’آئندہ اس قسم کی بات کبھی نہ کرنا ۔ یہ ایک عوامی عہدہ ہے ۔ میری تمنا ہے کہ جب چھوڑوں تو عزت و وقار کے ساتھ چھوڑوں ۔ مکان ، زمین ، جائیداد ، زندگی میں سب سے غیر اہم چیزیں یہی ہیں‘ ۔ اسی لئے تو مظفر آباد سے اہل خانہ کی دو روزہ غیر حاضری کے دوران جب مقامی سی ایم ایچ میں اچانک ریفریجریٹر کی ضرورت محسوس ہوئی تو صدر صاحب نے بڑے آرام سے پریذیڈنٹ ہاﺅس کا اکلوتا فرج اسپتال بھیج دیا تھا ۔ ’سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ فرج آخر ہوتا کیوں ہے ؟ ‘ بیوی کے احتجاج پر خورشید کے منہ سے اتنا ہی نکلا تھا ۔

یہ بات تو میری سمجھ میں بھی نہیں آتی ، لیکن کے ایچ خورشید کے اوصاف خود میں دیکھنا چاہوں تو احمر بلال صوفی جیسا کوئی دوست پکار اٹھے گا ’چھڈو جی ، کتھے مہر علی…. ‘ پھر بھی میں نے پچھلے ہفتے اپنی سیکنڈ ہینڈ آٹھ سو سی سی کار معقول قیمت پر بیچ کر مکمل پے منٹ لے لینے کے بعد آج صبح گاہک کو دوبارہ گھر بلایا اور پیسے لوٹاتے ہوئے کہا کہ گاڑی اس لئے واپس کر دیں کہ جو کاغذات آپ کے حوالے کئے ، ان میں اوریجنل سرٹیفکیٹ آف سیل شامل نہیں ۔ اس نے میری اصول پسندی کی تعریف کی اور دوستی کا پیمان باندھا ۔ پر دوستی تو خورشید نے نبھائی تھی ۔ ان کی نئی کار دیکھ کر ایک ’ممتاز‘ صحافی نے کہا ’پرانی مجھے دے دیں‘ ۔ ’یہ لیں‘ خورشید صاحب نے چابی تھما دی۔ کسی نے ایک روز پوچھ ہی لیا کہ کیا وصول پایا ۔ ’چلو ، کوئی اور بات کریں‘ کے ایچ خورشید نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے