ایم کیو ایم میں ‘‘مائنس‘‘ کے بعد ’’پلس‘‘کی بازگشت

سندھ کے شہری حلقوں میں گورنرسندھ کی تبدیلی، دبئی ملاقاتوں اور شہری علاقوں میں کی دیواروں پر سابق صدر پرویز مشرف کے حق اور مخالفت میں وال چاکنگ اور بینرز نے ہلچل پیدا کردی ہے ۔وفاقی حکومت نے 9نومبر کو گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کو ہٹا کر ان کی جگہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی کو نیا گورنر سندھ مقرر کیا،جنہوں نے 11نومبر کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالیا ۔گورنر سندھ کی اچانک تبدیلی نے سیاسی حلقوں میں ہلچل کردی ، کیونکہ گورنر سندھ کی تبدیلی جس خاموشی سے کی گئی اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا ، خود سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد کا بھی کہنا ہے کہ انہیں میڈیا سے اس کی اطلاع ملی تاہم نئے گورنرسعید الزماں صدیقی کا کہنا ہے کہ اعلان سے دودن قبل ان سے مشاورت کی گئی تھی۔

گزشتہ چند ہفتوں سے یہ تو یقین ہوگیا تھا کہ گورنر سندھ کوتبدیل کیا جائے گا بالخصوص سابق گورنر ڈاکٹر عشرت العباد خان اور پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفی کمال کے مابین تلخی نے سابق گورنر کی پوزیشن کو بہت کمزور کردی تھی ۔ پیپلزپارٹی اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے نئے گورنر سندھ کی تبدیلی کے ضمن میں مشاورت نہ کرنے پر شکوہ ضرور کیا تاہم نئے گورنر کی تقرری کو خوش دلی سے قبول کرلیا ،شاید اس کی وجہ نئے گورنر جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی کی غیر متنازعہ اور اچھی شہرت کی حامل شخصیت ہے ۔ اس سارے عمل میں دو باتیں اہم ہیں نمبر ایک یہ کہ27دسمبر2002ء سے11نومبر 2016ء کے اس اہم عہدے پر ایک فوجی آمر، 4صدور،8وزرائے اعظم ،3فوجی سربراہوں اور7وزرائے اعلیٰ سندھ کے ساتھ کام کرنے کا ریکارڈ رکھنے والے ڈاکٹر عشرت العباد خان نے عہدے سے سبکدوش کئے جانے کے فیصلے کے بعد اپنے وطن میں اتنی دیر تک رہنا گوارہ نہیں کیا کہ نیا گورنر حلف اٹھائے اور خوش دلی سے سعید الزماں صدیقی کو ویلکم کہتے ہیں ، اس کی بجائے نئے گورنر کی حلف برداری کی تقریب سے 6گھنٹے قبل ہی دبئی روانہ ہوگئے ۔ان کے اس عمل نے ان کی شخصیت کو یقیناً متاثر کیا ہے اورعوامی حلقے میں یہ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ آخر وہ کونسا خوف تھا جس نے ڈاکٹر عشرت العباد خان کو فوری طور پر ملک سے نکل نے پر مجبور کیا ۔ ان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ سابق گورنر کو یہ ڈرتھا کہ گورنر کے پروٹوکول اور استثنیٰ کے خاتمے کے بعد موصوف کو خطرہ تھا کہ کہیں انہیں بیرون ملک جانے سے روکا نہ جائے کیونکہ ان پر گورنر بننے سے پہلے اور بعد کے سنگین الزامات ہیں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ جسٹس (ر) سعید الزمان صدیقی کی ماضی کی گرنقدر خدمات اور ان کی شخصیت کے تو سب قائل ہیں اور اس بنیاد پر ان کے انتخاب کو بھی وفاقی حکومت کا مثبت فیصلہ قراردیا جا رہا ہے، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف چاہتے تو اپنے کسی پارٹی رہنماء یا قریبی ساتھی کو بھی کو بھی یہ ذمہ داری دیے سکتے تھے مگر ایسا کرنے کی بجائے انہوں نے ایک اچھی شہرت کی حامل شخصیت کا انتخاب کیا جو قابل تحسین عمل ہے تاہم گورنرسندھ سعید الزماں صدیقی کی مسلسل علالت اور ضعف سے یہ ثابت ہوتا وفاقی حکومت نے اپنے فیصلے سے قبل جسٹس صاحب کی صحت کے بارے میں معلومات حاصل نہیں کی اور یوں اب حکومت کا یہ فیصلہ مذاق سا بن گیا ہے ۔ میڈیا میں جس انداز میں گورنر سندھ کی صحت ، بزرگی اور ضعف کو تنذو مزاح کا حصہ بنایا جارہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے، اسی طرح دیگر حلقوں میں بھی یہی رویہ دیکھنے میں آیا ، اس کی ایک واضح مثال بزرگوں کے احترام کے حوالے سے اسلامی تعلیمات اور ہمارے معاشرے کے رویوں سے باخبراور پیپلزپارٹی کے سینیٹر بابر اعوان جیسے صاحب علم شخص ہیں جنہوں نے گورنر سندھ کو ’’ہڑپہ کی تاریخ‘‘ کا حصہ قرار دیکر تنذ کرنے کی کوشش کی ۔اس قبل سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے ساتھ میڈیا کا یہی رویہ رہا۔ گورنر سندھ کی صحت اسی طرح رہی تو وفاقی حکومت ایک مرتبہ پھر انہیں تبدیل کرنے پر مجبور ہوگی ،کیونکہ مبصرین کا خیال ہے کہ صحت بہتر ہوتی ہے تو جسٹس (ر)سعید الزماں صدیقی صوبے کے لئے بہترین انتخاب ہیں ، بصورت دیگر سندھ جیسے حساس صوبے کے لئے ایک متحرک گورنر کی ضرورت ہے ۔

نئے گورنر سندھ کی حلف برداری کی تقریب کے بعد مسلم لیگ(ن) سندھ کے جنرل سیکریٹری سینیٹر نہال ہاشمی نے سابق گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان کے 14سالہ دور اور ان کی سابقہ جماعت کو یہ کہہ کر نشانہ بنایا کہ ’’ ہم نے آج گورنر ہاؤس سے دہشت کی آخری نشانی بھی ہٹادی اور سابق گورنر کو ہٹانے سے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین اور پاکستان کونہ ماننے والوں کے دور کا خاتمہ ہوگیا اور سندھ حکومت سے پوچھا جانا چاہیے کہ اس نے ڈاکٹر عشرت العبادخان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں کیوں نہیں ڈالا‘‘۔سینیٹر نہال ہاشمی کے اس بیان کو نہ صرف عوامی حلقوں میں ناپسند کیاگیا بلکہ خود مسلم لیگ(ن) کی جانب سے بھی اس بیان سے بطور جماعت لاتعلقی کا اظہا ر کیاگیا۔

سابق گورنر نے ملک سے روانگی سے قبل کہا تھا کہ میں اب کتاب لکھونگا جس کا عنوان ہوگا کہ ’’جو میں کہ نہ سکا‘‘اور دبئی پہنچ نے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال آرام کر رہے ہیں مگر اطلاعات ہیں کہ وہ سندھ کے شہری علاقوں کی مستقبل کی سیاست کے حوالے سے کافی سرگرم ہیں ، اس ضمن میں سابق صدر پرویز مشرف سے ان کے مبینہ رابطوں کی بازگشت بھی ہے ۔اسی طرح کی اطلاعات ایم کیوایم پاکستان اور پاک سرزمین پارٹی کے حوالے سے بھی ہیں ۔آل پاکستان مسلم لیگ کے مرکزی رہنماء احمد رضا قصوری تو کھلے عام ایم کیو ایم پاکستان میں ’’مائنس اور پلس ‘‘فارمولے کی بات کر رہے ہیں ۔بادی النظران کا یہ کہنا ہے کہ ایم کیوایم پاکستان سے الطاف حسین کے ’’مائنس ‘‘ہونے کے بعد اب’’ پلس‘‘ ہوگا(یعنی سابق صدر کو نیا قائد بنایا جائے گا) ، اس کے لئے اگر ’’مائنس20‘‘کی ضروت پڑی تو وہ بھی ہوگا۔ دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے سابق صدر پرویز مشرف کو قائد بنانے کی خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ہماری جماعت میں قیادت کا کوئی عہدہ خالی ہے اور نہ ہم نے اس کا کوئی اشتہار دیا ہے ، ایم کیو ایم پاکستان ایک نظریاتی اور منظم جماعت ہے ‘‘۔دبئی میں سابق صدر پرویز مشرف کی سرگرمیوں کی خبروں کے بعد کراچی کی دیواروں پر سابق صدر کے حق میں وال چاکنگ اور مختلف عبارات پر مبنی بینرز نے بھی کئے سوالات اٹھائے ہیں ، بالخصوص ایم کیو ایم کے زیر اثر علاقوں میں وال چاکنگ واقعی سوالیہ نشان ہے ۔اس ضمن میں کہا جارہا ہے کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔

مبصرین کا کہنا ہے مارچ2016ء تک قائم ایم کیوایم اس وقت عملاً چارگروپوں میں تقسیم ہے ۔جن میں ایم کیوایم پاکستان ،پاک سرزمین پارٹی ،ڈاکٹر عشرت العباد خان حامی گروپ اورایم کیوایم لندن ۔ آخر الذکر کے سوا تقریباً تمام ہی گروپوں نے ’’مائنس الطاف ‘‘ فارمولے کو تسلیم کرلیا ہے ،جبکہ ایم کیوایم لندن کے لئے موجودہ حالات میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا ناممکن نہیں تو انہتائی مشکل ضرور ہے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ووٹرز اور کارکن کی حدتک آج بھی ایم کیوایم لندن کی پوزیشن مستحکم ہے ، جس کی ایک جھلک 16نومبرکو کراچی کے میئر وسیم اختر کی رہائی کے جلوس میں نظر آئی اور ایم کیوایم پاکستان کو سخت مزاحمت کا سامنا ہوا۔ بعض حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اب یہ کوشش کی جاری ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کی سربراہی میں اولذکر تین گروپوں کو متحد کیا جائے اور ایسی صورت میں ایم کیوایم لندن کا ایک بڑا حصہ بھی سابق صدر کی قیادت کو قبول کرے گا اور پھر سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم اپنے سابقہ حیثیت کو برقرار رکھ سکے گی ،بصورت دیگر موجودہ پارلیمانی حیثیت کو برقرار رکھنا ناممکن ہوگا ، اسی ضمن میں سندھ کے شہری علاقوں کی سیاست کے مستقبل کے حوالے سے 2016ء کے ان آخری دنوں اور 2017ء کے ابتدائی دو ماہ کو اہم قراردیا جا رہا ہے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے