ستارہ امتیاز کا اعزاز حاصل کرنے والے صحافت کے استاد الاساتذہ، محقق ، مورخ ، ترقی پسند دانشور، سابق ٹریڈ یونینسٹ و سٹوڈنٹس یونین لیڈر اور لاہور پریس کلب کے لائف ممبر ڈاکٹر مہدی حسن گزشتہ دنوں لاہور پریس کلب کی طرف سے سینئر صحافیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شروع کے گۓ سلسلہ ` میری باتیں، میری یادیں ` کے مہمان تھے.
صدر لاہور پریس کلب محمّد شہباز میاں کی صدارت میں ہونے والی اس تقریب میں عامل صحافیوں، صحافت کے اساتذہ وطلبہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی. نائب صدر لاہور پریس کلب عبدالمجید ساجد کی نقابت سے شروع ہونے والی تقریب کے شرکا کو ڈاکٹر مہدی حسن نے اپنی روداد زندگی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ میرا تعلق منٹگمری/ ساہیوال کی مڈل کلاس فیملی سے ہے. پاکستان ٹیلی ویژن کی ممتاز شخصیت طارق عزیز اسکول کے زمانہ سے میرے ساتھی ہیں.
میںجب ایف ایس سی کا اسٹوڈنٹ تھا لیکن اسٹوڈنٹس یونین و دیگر سماجی و سیاسی مصروفیات کی وجہ سے سائنس مضامین کی سٹڈی کے لیے درکار وقت نہ دینے کی وجہ سے فیل ہو گیا چونکہ میں اپنی فیملی میں ایسا پہلا سٹوڈنٹ تھا جو فیل ہوا تھا لہٰذا فیصلہ کیا کہ اب سائنس مضامین نہیں پڑھوں گا اور تعلیمی اخراجات بھی از خود اٹھاؤں گا.
اس عزم نے جدوجہد کے سفر پر گامزن کر دیا. پیسے کمانے کے لیے ہم اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروے کار لانے لگے. میں اور طارق عزیز منٹگمری سے بغیر ٹکٹ ریل پر لاہور کا سفر کرتے . یہاں ہم ریڈیو پر ڈرامہ کرتے جس کی دس روپے اجرت ملتی. ان دنوں صوفی تبسم ایک تصویر کے بیس روپے دیا کرتے تھے. اس طرح فوٹو گرافی سے بھی ہم پیسے کما لیتے تھے .
اس زمانہ میں عمران خان کی طرح ہماری اے ٹی ایم/ سپانسر ہمارے ایک دیرینہ دوست سیٹھ رفیق تھے.جن کا ساہیوال میں صابن بنانے کا کارخانہ تھا. موصوف بعد ازاں لایل پور / فیصل آباد شفٹ ہو
گۓ. یہاں اب ان کی دو ٹیکسٹائل ملز ہیں. انیس سو اکسٹھ میں ایوب خان کی آمریت کے خلاف جی سی ساہیوال کی سٹوڈنٹس یونین کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرتے ھوے ہم گرفتار ہو گۓ.
اسیری کے ان ایام میں ہمیں سیاسی ، نظریاتی و سماجی طور پر سیکھنے کا بہت موقع ملا . اسی سال ہم یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے لیے لاہور آ گۓ. ہم نے صحافت کو عملی طور پر سیکھنے کے لیے پی پی اے جو بعد ازاں پی پی ائی ہوئی میں کام کی تلاش میں گۓ تو ضمیر قریشی صاحب نے کہا کام مل جاۓ گا لیکن پیسے نہیں ملیں گۓ چونکہ ہمارا مقصد عملی صحافت سیکھنا تھا لہٰذا پی پی اے جوائن کر لیا.
ہم دن میں یونیورسٹی جاتے اور رات کی شفٹ میں نامور صحافی چاچا رفیق کے ساتھ کام کرتے. اسی زمانہ میں ہم نے روزنامہ ` امروز ` کے لیے پہلا مضمون لکھا جس میں ہم نے تین بار صیغہ واحد متکلم ` میں ` کا لفظ استعمال کیا تھا. ایڈیٹر صاحب نے ہمیں بلایا اور گائیڈ کیا کہ اپنی ذات کا اظہار صحافتی اقدار کے منافی ہے . میں نے اس دن کے بعد سے اب تک پانچ ہزار مضامین لکھے ہیں لیکن کبھی `میں` کا ذکر نہیں کیا لیکن آج کے قومی اردو اخبارات میں ایک سو تیس مضامین و کالم چھپے ہیں جو` میں` سے شروع ہو کر` میں` پر ختم ہو جاتے ہیں .
انیس سو بہتر میں، میں اپنے کزن ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں قیام پذیر تھا. وہاں کھانے کی ایک دعوت پر ذوالفقار علی بھٹو تشریف لاۓ. دوران گفتگو بھٹو صاحب نے پوچھا کہ پنجاب یونیورسٹی میں وائس چانسلر کس کو تعنیات کیا جاے. میں نے صفدر میر صاحب کا نام لیا تو بھٹو صاحب نے ` چلئے کھانا کھاتے ہیں` کہہ کر بات گول کر دی.
١٩٨٩ میں شہید بینظیر بھٹو بطور وزیر اعظم ایک دعوت میں مدعو تھیں. انھوں نے مجھے کہا ڈاکٹر صاحب ہمیں کیا کرنا چائیے. میں نے تجویز دی کہ جنرل ضیاء کو گیارہ سال جن لوگوں نے سپورٹ کیا ہے ان پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمات چلاے جائیں اور ضیاء کی متنازعہ قبر کو فیصل مسجد سے کسی دوسرے مقام پر منتقل کیا جائے . جس کے جواب میں بی بی نے کہا ` چلئے کھانا کھاتے ہیں`.
انہی دنوں فخر زمان صاحب کے گھر بیگم نصرت بھٹو کھانے پر مدعو تھیں. انہوں نے بھی میری راۓ مانگی تو میں نے تجویز دی کہ پی پی پی اپنی پچ چھوڑ کر ضیاء کی پچ پر نہ کھیلے. دوسرا سوال کرتے ہوے بیگم صاحبہ سے کہا کہ انیس سو ستر میں لاہور میں پی پی پی کے پانچ سو بنیادی یونٹ تھے اب کتنے ہیں انھوں نے جواب دینے کی بجاے کہا ` چلئے کھانا کھاتے ہیں`.
جنرل مشرف جب حکمران تھے تو ان کی ایک بریفنگ میں مدعو تھا. سوال کا موقع ملا تو ان سے کہا کہ آپ نے ڈیفنس اور اکانومی کو تو اولین ترجیح دے دی ہے لیکن اپنے دعوے کے مطابق
پاکستانی قوم کی لبرل و سیکولر فلاسفی کا تعیین قائد اعظم کی پارلیمنٹ سے کی گئی تقریر کے تناظر میں کیوں نہیں کرتے تو موصوف کا جواب بھی ` چلیے کھانا کھاتے ہیں` ہی تھا.
ڈاکٹر مہدی حسن نے پی پی پی کے قیام کے حوالے سے اپنے کردار پر گفتگو کرتے ہوے بتایا کہ انیس سو چھیاسٹھ میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر ترقی پسند احباب کی ایک ماہانہ سٹڈی سرکل میٹنگ ہوا کرتی تھی. اس میٹنگ میں میں ایک ایسی عوامی پارٹی کے قیام کے تجویز دی جس کی قیادت کوئی پاپولر لیڈر کرے. ان دنوں بھٹو صاحب البانیہ جانے کا اعلان کر چکے تھے. حبیب جالب نے ان کو روکنے کے لیے ایک نظم لکھی تو بھٹو صاحب نے نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہونے کا عندیہ دے دیا.
میرے سیاسی تناظر کے پیش نظر نئی عوامی پارٹی کی قیادت پاپولر لیڈر بھٹو صاحب کو سونپنے کا فیصلہ ہوا تو جے اے رحیم صاحب نے بھٹو صاحب سے رابطہ کیا. اس طرح پی پی پی معرض وجود میں آئی.
اپنی صحافتی ٹریڈ یونین سرگرمیوں کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ انیس سو باسٹھ میں پہلی بار میں پنجاب یونین آف جرنلسٹ کی مجلس عاملہ کا ممبر منتخب ہوا. انیس سو سڑسٹھ تک پی یو جے میں میرا کردار بہت فعال رہا اس دوران میں یونین کا جائنٹ سیکرٹری و نائب صدر منتخب ہوا. لاہور پریس کلب سے وابستگی کے ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا لاہور پریس کلب واپڈا ہاؤس کی تعمیر سے پہلے یہاں واقع بلڈنگ میں تھا.
جب واپڈا ہاؤس کی تعمیر شروع ہوئی تو کلب کا سامان ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میرے کمرے میں منتقل کر دیا. اسی دوران حسین نقی صاحب اور میری کاوشوں سے دیال سنگھ منشن مال روڈ پر فلیٹس حاصل کیے گۓ. وہاں لاہور پریس کلب کا قیام ہوا.
ڈاکٹر مہدی حسن نے اپنی تالیف و تصنیف کے حوالے سے بتایا کہ بطور سیاسی مورخ میری تصنیفات زیادہ ہیں جبکہ میڈیا پر بھی لکھ چکا ہوں . ان دونوں موضوعات پر میری سولہ کتابیں شائع ہو چکی ہیں جبکہ پی یو جے اور جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ دور پر دو کتابیں زیر اشاعت ہیں.
استاد الاساتذہ ڈاکٹر مہدی حسن نے عصر حاضر کی صحافت کے معیار پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ذرائع ابلاغ میں ستاسی فیصد خبریں بیانات پر مبنی ہوتی ہیں.اس طرح ابلاغ میں خبر و خبریت ختم ہو گئی ہے . انویسٹیگیشن رپورٹنگ مالکان کی طرف سے وسائل و تربیت کی عدم فراہمی کی وجہ سے نہیں ہو رہی.
ایک سو دس نیوز چینلز میں صرف تین چار بڑے شہروں کے سوا خبر کی ترسیل پیشہ وار صحافیوں کی بجاے رضا کار نمائندے کرتے ہیں جن کی کوئی تربیت نہیں ہوتی . ان کی صحافت صرف موبائل فون سیٹ تک محدود ہے جبکہ ان کی صحافت کا مقصد بھی ماسواۓ صحافت کی طاقت کو اپنی ذاتی حثیت و سماجی مرتبہ کو بر تر کرنے کے کچھ اور نہیں ہوتا. ذرائع ابلاغ میں ایڈیٹوریل کنٹرول جسے صحافتی زبان میں` گیٹ کیپنگ` کہتے ہیں ختم ہو گیا ہے.
صحافت میں متشدد ، فاشسٹ و مذہبی انتہا پسندی کو فروغ دینے والے صحافیوں کی کثیر تعداد کے مقابل روشن خیال ، ترقی پسند اور جمہوریت نواز صحافیوں کی دبتی ہوئی قلیل آواز کو کس طرح بلند کیا جائے ؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ جب بھی دائیں بازو کے سیاست دنوں اور صحافیوں کو ترقی پسند و روشن خیال سیاسی قوتوں ، دانشوروں ، صحافیوں کی طاقت مظبوط ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے تو وہ روشن خیالی کا نام لیے بغیر تیسری قوت کے آنے کے خطرہ کا الارم دے کر رجعتی قوتوں کو متحد ہونے کا واویلا مچا دیتے ہیں.
اس لیے ترقی پسند لکھاریوں ، صحافیوں اور دانشوروں کو کسی قسم کی مصلحت کی بجانے اپنی فکر کو مکمل اسٹینڈ کے ساتھ عام کرنا چاہئے بصورت دیگر ترقی پسندی و روشن خیالی کی دشمن قوتیں کبھی کمزور نہیں ہو سکیں گیں.
انہوں نے بطور استاد اپنی روداد زندگی سناتے ہوے بتایا کہ تدریس کے شعبہ سے وابستگی کو مجھے پچاس سال ہو چکے ہیں. اس دوران میرے شاگردوں میں سے وزیر اعظم ، اپوزیشن لیڈر ، ممتاز سیاست دان و صحافی بنے. یہ حاصلات میری تدریس کے ثمرات ہیں.
میں نے اپنے سٹوڈنٹس کو اس معیار کا حامل بنانے کے لیے جو کچھ کیا وہ بطور استاد میرا فرض تھا جبکہ ثمرات ایک استاد کی اچیومنٹس ہیں. میں جب پنجاب یونیورسٹی چھوڑ رہا تھا تو ایک خاتون ٹیچر جو فکری طور پر ہمیشہ میری مخالف رہی تھیں کہنے لگیں کہ آپ جیسا ٹیچر بننا چاہتی ہوں. میرا جواب تھا کہ بطور استاد آپ یونیورسٹی اور سٹوڈنٹس کو کبھی بھی مینار پاکستان جتنی بلندی سے نہ دیکھیں. اپنے آپ کو گراؤنڈ پر رکھتے ہوے سٹوڈنٹس کو ` اکیڈمک فریڈم` دیں. اختلاف راۓ کو نہ صرف برداشت کرنے کی عادت ڈالیں بلکہ اسے تسلیم کر کے نقاد کو دلیل سے قائل کرنے کی کوشش کریں.
قبل ازیں تقریب میں شریک ڈاکٹر مہدی حسن کے سینئر اسٹوڈنٹس بی این یو کی ٹیچر یاسیمن آفتاب ، پنجاب یونیورسٹی شعبہ صحافت کے اساتذہ ڈاکٹر وقار ملک اور شوکت علی نے ڈاکٹر صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کے اخلاقی اوصاف کے حوالے سے مختلف واقعات سناۓ اور کہا کہ استاد صرف پڑھاتے ہیں جبکہ ڈاکٹر مہندی حسن اپنے سٹوڈنٹس کی کردار سازی کرتے ہیں.
صدر لاہور پریس کلب محمّد شہباز میاں نے ڈاکٹر مہدی حسن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوے کہا کہ ڈاکٹر صاحب تین نسلوں کے استاد ہیں. انہوں نے اپنے سٹوڈنٹس کی جس طرح کردار سازی کی تدریس کے شعبہ میں ایسی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی.
شہباز میاں نے مزید کہا کہ میں ڈاکٹر صاحب کا سٹوڈنٹ تو نہیں ہوں لیکن یہ جس تقریب میں شریک ہوں میں وہاں ان کی گفتگو سننے ضرور جاتا ہوں.ان کے خیالات و افکار احترام انسانیت ، انسانی حقوق، بشری آزادی اور اپنے نظریہ پر استقامت کا درس دیتے ہیں.
ڈاکٹر صاحب نے اپنی ترقی پسند فکر کو اس دور میں مصلحت کا شکار نہیں ہونے دیا جب ایک خاص مائنڈ سیٹ سے ذہن کند کیے جا رہے تھے. تحقیق ، دلیل و منطق ڈاکٹر صاحب کی تعلیمات و خیالات کا ہمیشہ خاصا رہے ہیں.
شہباز میاں نے کہا ڈاکٹر مہدی حسن کی سیکولر فکر جس کے مطابق مذہب ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے کو اپنا کر نا صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں امن قائم ہو سکتا ہے.انہوں نے کہا ڈاکٹر مہدی حسن کی کتابیں جو لاہور پریس کلب کی لائبریری میں موجود ہیں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئیے.
خیال رہے کہ لاہور پریس کلب نے گزشتہ کچھ عرصے اسے ”میری باتیں میری یادیں ” کے عنوان سے ایک سلسلہ تقاریب شروع کیا ہے جس میں ملک کے سینئر صحافی ، دانش ور اور اہل فکر اظہار خیال کرتے ہیں . اب تک معروف کالم نگار منو بھائی ،ممتاز صحافی حسین نقی اور صحافت کے بزرگ استاد ڈاکٹر مہدی حسن کلب کی جانب سے منعقدہ ان تقریبات میںشرکت کر چکے ہیں .