جس نے دستور میخانہ بدل دیا

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:اللہ تعالی اس امت کے لیے ہر سو سال کے سرے پر ایسے بندے پیدا کرے گا جو اس کے لیے اس کے دین کونیا اور تازہ کرتے رہیں گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ایک ہزار سال گزرنے کے بعد امام ربانی شیخ احمد سرہندی سے دین کی تجدید و حفاظت اور احیائے شریعت کا جو عظیم کام رب ذوالمنن نے لیا وہ اسلام کی پوری تاریخ میں ایک خاص امتیازی شان رکھتا ہے اور اسی وجہ سے ان کا لقب ”مجدد الف ثانی” ایسا مشہور ہو گیاکہ بہت سے لوگ ان کا نام تو نہیں جانتے،لیکن انھیں مجدد الف ثانی کے معروف لقب ضرور پہچانتے ہیں ۔حضرت مجدد الف ثانی،جن کااصل نام احمدفاروقی سرہندی تھا، کاشمار ان جلیل القدر بزرگوں میں ہوتاہے جنہوں نے دین حق کے لیے کفر و شرک کا خم ٹھونک کر مقابلہ کیا اور اسلام کے پرچم کو کچھ اس مضبوطی سے ایستادہ کیا کہ ان شا اللہ! یہ پرچم تاقیامت لہراتارہے گا۔

حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہ کا نسب مبارک ستائیس(27)واسطوں سے امیر المؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے ملتاہے،گویاآپ کی رگوں میں اس مشہور فاتح اعظم کا خون تھا ،جس نے مختصر سی فوج اور بے سروسامانی کے باوجود وقت کی دونوں سپر پاوروں فارس وروم کے ظالم وجابر باشاہوں قیصر وکسریٰ کاغرور خاک میں ملاکران کو سرنگوں ہونے پر مجبور کردیاتھا،اپنے زورِ بازواور قوت ِتدبر سے عظیم ترین سلطنتوں کے تخت الٹ دیے تھے اور اپنی روحانی قوتوں سے مستحکم کفریہ تہذیبوں کی بنیادیں ہلادی تھیں۔اس نسب اقدس پر خود حضرت کو بھی ناز تھا۔بقول شاعر

نسب تحریر کیا ہو اس شہ گردوں مقامی کا
شرف خورشید پاسکتا نہیں جس کی غلامی کا
شہنشاہوں کے دل ہیبت سے جس کی ہوگئے پانی
وہی فاروق اعظم نام ہے جدّ گرامی کا

اسلام کے اس درویشِ باصفا،مصلحِ اعظم کا نامِ نامی و اسم گرامی احمد، لقب بدرالدین، کنیت ابوالبرکات ،منصب مجدّد الف ثانی اور عرف امام ربانی اور محبوب صمدانی تھا ۔ آپ کا مذہب حنفی اور مسلک نقشبندیہ تھا، جو تمام سلاسلِ تصوف کا جامع ہے۔آپ 14 شوال971 ھ بمطابق 26جون1594 ،بروزِجمعہ مشرقی پنجاب کے شہر سرہند میں پیدا ہوئے۔

آپ کی ولادت سے پہلے آپ کے والد ماجد نے، جو اپنے وقت کے جید عالم اورظاہری و باطنی علوم کے جامع تھے ،ایک عجیب خواب دیکھا ،انھوں نے دیکھاکہ تمام دنیا میں تاریکی وظلمت پھیلی ہوئی ہے ،سوّر ، بندر اور ریچھ لوگوں کو ہلاک کررہے ہیں ،یکایک ان کے سینے سے ایک نور نکلتاہے اور اس میں ایک تخت ظاہر ہوتاہے، اس تخت پر ایک شخص تکیہ لگائے بیٹھا ہے ،اس کے سامنے تمام ظالموں اور ملحدوں کو بھیڑ بکریوںکی طرح ذبح کیا جارہا ہے اور کوئی شخص بلند آواز سے کہہ رہا ہے:جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا (سورہ اسرائ:81)

ترجمہ:حق آگیااورباطل مٹ گیااور بے شک باطل مٹنے ہی والاتھا۔

صبح کوانھوںنے اس خواب کی تعبیروقت کے ولی باصفا حضر ت شاہ کمال سے دریافت کی، توانھوںنے فرمایا کہ تمہارے ہاں ایک بچہ پیدا ہوگا، اس سے الحاد و بدعت کی ظلمت وتاریکی دور ہوگی ۔

شیخ احمد سرہندی کو کم سنی میں ہی مدرسے میں بٹھا دیا گیا، جہاں آپ نے تھوڑے ہی عرصے میں قرآن مجید حفظ کرلیا ، پھر آپ نے اپنے والد شیخ عبد الاحدفاروقی سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے سیالکوٹ چلے گئے اور آپ نے فقط سترہ سال کی عمر تک تمام علومِ ظاہری کی سند حاصل کرلی ۔ ظاہری علوم سے فارغ ہونے کے بعد آپ حضرت باقی باللہ کے مریدہو گئے، جنھوںنے اپنے لائق مرید کو باطنی علوم سے بھی مالا مال کردیا ۔آپ کی شخصیت اور زہد و تقوی سے تھانیسر کا حاکم شیخ سلطان بہت متاثر ہوا، چناں چہ اس نے آپ سے اپنی صاحب زادی کا نکاح کرنے کی خواہش ظاہر کی ۔ آپ نے حاکم کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے فرمایاکہ اس سلسلے میں میرے والد محترم سے بات کی جائے۔ حاکم نے جب آپ کے والد سے گفتگو کی تو انہوں نے اس پیشکش کو قبول کرلیا ۔

ایک روز حضرت مجدد الف ثانی قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا ء تشریف لے گئے تو آپ نے دیکھا کہ وہاں مٹی کا ایک پیالہ پڑا ہوا ہے اور اس پر اسم” اللہ ”نقش ہے۔ آپ نے اس پیالے کو وہاں سے اٹھایا اور واپس تشریف لائے، پانی منگا کر اپنے دست مبارک سے اس کو دھویا اور اچھی طرح پاک کیا ۔پھر اس کو ایک سفید کپڑے میں لپیٹ کر اونچی جگہ رکھ دیا اور ان کامعمول تھا کہ جب پانی پیتے تواسی پیالے میں پیتے تھے ۔ آپ فرماتے تھے کہ اس عمل نے جس قدر فیوض و برکات پہنچائے وہ صد سالہ ریاضت و مجاہدہ سے بھی ناممکن تھے۔

حق تعالی نے آپ کو ظاہری وباطنی ، صوری و معنوی ہر قسم کے کمالات کا جامع بنایا تھا، ظاہری شکل و صورت ایسی محبوب تھی کہ جو دیکھ لیتا تعریف کیے بغیرنہ رہ سکتاتھا۔اتباعِ سنت کا جذبہ ، بدعات سے بے حد نفرت واحتراز آپ کے خصائص حمیدہ میں سے تھا ۔معمولی معمولی باتوں میں بھی اتباعِ سنت کا بے حد اہتمام فرماتے تھے۔امر بالمعروف و نہی عن المنکرمیں آپ ایک امتیازی شان رکھتے تھے، اس میں نہ کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا ڈر اور نہ کسی کی ایذا رسانی کا خوف ہوتا، کوئی بڑے سے بڑا خطرہ آپ کویہ فریضہ ادا کرنے سے نہیں روک سکا۔حضرت مجدد الف ثانی کی حیات مبارکہ کاہر آپ کے مجدد ہونے کی شہادت دیتا نظر آتاہے۔حضرت مجدد الف ثانی نے مسلمانوں کو تعلیم دی تھی کہ وہ ہندوؤں میں جذب نہ ہوں اور نہ ہی ان کے رسوم و رواج کو اپنائیں ،کیوں کہ مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں ،رسم و رواج کے خلاف آواز اٹھائی، قبرپرستی سے منع فرمایا۔

مجدد الف ثانی نے اصلاح تصوف کی طرف خاص توجہ دی ، لوگو ں پر شریعت کی ظاہری اور باطنی صورت عیاں کی، سماع اور رقص و سرودسے لوگوں کو با ز رہنے کی تاکید فرمائی۔حضرت مجدد الف ثانی کے دور میں بعض اہل علم سمجھے جانے والے مفادپرستوںنے نظریہ توحید کو مسخ کر کے عوام کے سامنے پیش کیا،تو آپ نے نظریہ توحید پر مکمل بحث کی،اس طرح آپ نے بگڑے ہوئے معاشرے میں قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کیا، اپنی فہم و فراست سے مسلمانوں کی راہ نمائی کی اورمختصر سی مدت میں مسلمانوں میں ذہنی انقلاب پیدا کرکے انہیں بے دینی کا قلع قمع کرنے کے لیے تیار کیا۔ان کی تعلیمات اور کوششوں سے بر صغیرمیں تحریکِ احیائے دین کا آغاز ہوا ۔عوام الناس کی روحانی واخلاقی اصلاح ،علمائے سوء کی نشان دہی اور ان کی اصلاح ، علمائے حق کو ان کا صحیح مقام دلانا،ارکان ِسلطنت اوربادشاہ ِوقت کی اصلاح،گم راہ اور بدعتی فرقوں کی نشان دہی اور ان کے شر و فساد سے مسلمانوں کوآگا ہ فرماکر صحیح عقائدِ اسلا م کی طرف راہ نمائی،یہ ایسے کارنامے ہیں جو آپ کے نامہ عمل میں صدقہ جاریہ بن کر تاقیامت جگمگاتے رہیں گے۔

اکبر آپ کی مخالفت کرنے والوں میں پیش پیش تھا۔ اکبر نے اپنی حکومت میں غیرمسلموں کو ممتاز عہدوں پر فائز کیا اور ہندو عورتوں کو اپنی ازواج میں داخل کیا ،اس کے علاوہ اکبر نے ایک نیا دین” دین الٰہی”یا”دین ِاکبری” رائج کیا اور بادشاہ کو سجدہ لازم کرکے انکارکرنے والے بے شمار مسلمانوں کو شہید کرایا ۔ ان حالات کو دیکھ کر حضرت مجدد الف ثانی نے لوگوں کو بتایا کہ اکبر کا جاری کردہ دین گم راہی کے سوا کچھ نہیں ۔ حضرت مجدد الف ثانی نے اکبر کے الحاد کو روکنے کے لیے انتھک کوششیں کیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے رسالہ ”اثبات نبوت ”لکھا، جس میں اسلام کی مکمل عکاسی کرتے ہوئے اکبر کے ”دین الٰہی ”کو الحاد قرار دیا۔اس پراکبر بادشاہ آپ سے ناراض ہوگیا اور آپ کی مخالفت کرنے لگا۔یہ سلسلہ اکبر کی وفات تک جاری رہا۔

اکبر کی وفات کے بعد اس کا بیٹا جہانگیر تخت نشین ہوا ۔اس نے بھی اپنے باپ کی رسوماتِ باطلہ کو بدستور رائج رکھنے کی کوشش کی ۔حضرت مجدد الف ثانی نے دین ِحق کی سر بلندی کے لیے جہانگیر سے بھی ٹکر لی ۔ جہانگیر کے دور تک آپ کا حلقہ ارادت بہت وسیع ہو چکا تھا، یہاں تک کہ آپ کے حلقہ اثروارادت میں امرا ، صوفیا اور برسر اقتدارلوگ بھی داخل ہوچکے تھے۔آپ نے تمام لوگوں کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کے لیے بھیجا تھا ۔یہ دیکھ کر جہانگیر نے سر ہند کے حاکم کو ایک خط لکھا کہ ہم شیخ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔حاکم سرہند نے آ پ کو دربار شاہی میں آنے کی دعوت دی، آپ نے دعوت قبول کرلی اور دربار جہانگیری میں تشریف لے گئے۔دربار میں تشریف لے جانے سے پہلے آپ نے فرمایا کہ ہم دربارِ شاہی کے اصولوں اور آداب کی پابندی نہیں کر سکتے، کیوں کہ سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے حکمرانوں کے لیے، نہیں چناں چہ جب آپ دربار میں داخل ہوئے تو بغیر سجدہ کیے آگے بڑھتے گئے، یہ دیکھ کر تمام درباری حیرت زدہ ہوگئے،آپ نے فرمایا: اس وقت تک تو یہ پیشانی کسی غیراللہ کے سامنے نہیں جھکی اور اللہ سے امید ہے کہ وہ آئندہ بھی میری حفاظت کرے گا اور یہ پیشانی غیراللہ کے آگے نہیں جھکے گی۔ اس طرح اپ نے سجدہ تعظیمی کے شرکیہ قانون کے بکھیے ادھیڑ دیے۔ اس کانتیجہ یہ ہواکہ گوالیار کے قلعے میں آپ قید کردیے گئے ، حضرت مجدد نے وہاں بھی اپنا کام جاری رکھا ، دیکھتے ہی دیکھتے قید خانے کی کایا ہی پلٹ گئی ، بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ اس قیدی نے حیوانوں کو انسان اور انسانوں کو فرشتہ بنا ڈالا ہے۔حقیقت واقعہ سے آگاہی پاکربادشاہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا ، اس نے پایہ تخت پر آنے کی دعوت دی اور اپنے بیٹے شاہ جہاں کو استقبال کے لیے بھیجا ،حضرت مجدد تشریف لے آئے تو بادشاہ اپنی گزشتہ گستاخیوں کی معذرت چاہنے لگا۔ آپ نے اس موقع سے فائدہ اٹھایااوربادشاہ سے دور اکبری کے منکرات وبدعات کی منسوخی کامطالبہ کیا،یہ نگاہ ولی کااثر تھاکہ وہی بادشاہ جواب تک ان منکرات وبدعات کاسب سے بڑا محافظ وپشتی بان تھا،اس نے ان کے منسوخ کرنے کا فرمان جاری کردیا ، اس طرح نصف صدی کی گھٹا ٹوپ تاریکی کے بعد ایک مرتبہ پھر اسلام کو اس ملک میں سر بلندی حاصل ہوئی ۔حضرت مجدد الف ثانی ایک صوفی باصفا،ولی کامل اور عالم باعمل تھے۔ان کی تصانیف کافی تعداد میں ہیں ،جن کے ذریعے آپ نے اپنے پیغامات کی نشر واشاعت فرمائی ۔ ان کی تصانیف میں سر فہرست مکتوبات مجدد الفِ ثانی ،معارفِ لدنیہ،رسالہ اثبات ِنبوت، مکاشفاتِ غیبیہ ،رسالہ بسلسلہ حدیث،رسالہ حالاتِ خواجگان نقشبند،رسالہ تہلیلیہ،رسالہ آداب المریدین وغیرہ ہیں۔

اپنی عمر کے آخری شعبان میں حسب ِمعمول پندرہویں شب کو عبادت کے لیے خلوت خانہ میں تشریف لے گئے ۔صبح کو جب گھر میں تشریف لے گئے تو بی بی صاحبہ نے کہا کہ معلوم نہیں آج کس کس کا نام دفتر ہستی سے کاٹا گیا؟ یہ سن کر حضرت امام نے فرمایا : تم تو بطور شک کہہ رہی ہو، کیا حال ہوگا اس شخص کا جس نے خود اپنی آنکھ سے دیکھا ہو کہ اس کا نام دفتر ِہستی سے محو کیا گیا ۔اس کے بعد آپ نے ارشاد و ہدایت کا سب کام صاحب زادوں کے سپرد کردیا اور اپناتمام وقت قرآن مجید کی تلاوت و اذکار میں صرف فرمانے لگے۔وفات سے چند ماہ پہلے آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے اپنی عمر تریسٹھ برس معلوم ہوتی ہے۔ بقرہ عیدکے دنوں میں سانس کی تکلیف اوربخارشروع ہوا۔12محرم کو فرمایا کہ بس اب چالیس پچاس دن کے اندر مجھ کو اس عالم فانی سے سفر کرنا ہے، 28 صفرکو تریسٹھ برس کی عمر میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔اللہ ان کی قبرپربے شماررحمتیں نازل فرمائے۔آمین!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے