دکھوں اور موت کے سوداگر

ایسے بھیانک منظر سے ناآشنا میں بھی زندگی کے رنگوں کو جیتا تھا۔ پھولوں کی مہک اور روشنیوں کا چاہنے والا مسکراتے چہرے دیکھ کر کھلتا ہوا اک من موجی صحافی جو محنت اور جاٗئز طریقے سے خبر حاصل کر کے ٹی وی اسکرین پر سب سے پہلے پھٹا لگا کر قلبی سکون مھسوس کرتا تھا اور ہر خبر کو عشق کے نئے امتحان کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے جب بریک کرتا تھا تو دل میں بالکل وہ احساس گدگداتا تھا جو بچپن میں کبھی اسکول ماسٹر کے منہ سے ساری کلاس کے سامنے اپنے لئے تعریفی کلمات سن کر ہوتا تھا۔

اس شام اقتدارکے ایوانوں میں برپا سیاسی ہلچل اور پس پردہ سرگرمیاں جاننے کیلئے ریسٹورنٹ کے سامنے اوپن ائیرکرسی پر بیٹھا تھا۔آج ہم دونوں میں طے تھا کہ کافی کے کپ کیساتھ گفتگو شروع ہوگی۔ میرے دوست کے ہمراہ ٹیبل پر پرکشش شخصیت کا حامل شخص محو گفتگو تھا۔ میں نےگفتگو میں شریک ہونے کی بجائے کافی کا فلیور منتخب کرنے کا سوچنا شروع ہی کیا تھا کہ میری نظرایف آئی اے کے خط اور خوبصورت ٹیبل پرموجود ایک فائل پر پڑی۔ میں نے کافی کا خیال جھٹک دیا اور اپنی تمام ترتوجہ ایف آئی اے کے خط اور فائل پرمرکوز کردی۔ چند ہی لمحوں میں سیاستدانوں کی چالبازیوں میں چھپا تجسس اور کافی پینے کی خواہش دم توڑ چکی تھی۔

اس کے لہجے میں بے پناہ دکھ مگر عزم پختہ تھا۔ تعارف کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوئے اورمیرے استفسار پربتایا گذشتہ 15سالوں کے دوران ملک بھر میں جعلی ادویات کا کاروبار اس قدر منظم طریقے سے پروان چڑھ چڑھا ہے کہ جان بچانے والی ادویات جس میں بلڈ پریشر اور دل کے امراض کی ادویات بھی شامل ہیں، ہربڑے شہر میں تیار اور فروخت کی جارہی ہیں۔ کسی مریض کا بلڈ پریشرخطرناک حد تک بڑھ یا کم ہوجائے تو مخصوص گولی کا استعمال ناگزیرہوجاتا ہے مگر مارکیٹ میں مقبول گولیوں کے نام سے جعلی ادویات کی بھرمار ہے جسے کھانے سے طبعیت سنبھلنے کی بجائے مریض آئی سی یو میں جا پہنچتا ہے۔

ادویات تیار اور فروخت کرنے والے دونوں عوام اور قومی خزانے کو سالانہ اربوں روہے نقصان پہنچا رہے ہیں مگر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سمیت کوئی بھی ادارہ کاروائی کرنے کیلئے تیار نہیں چونکہ اس گھناؤنے کام میں ملوث افراد نے دولت کے زور پر سب افسران کی چونچیں گیلی کرکےان گرد بے حسی کا حصار کھڑا کردیا ہے۔ وزارت صحت، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اور ایف آئی اے کی مجرمانہ خاموشی کا اندازہ اس لگایا جاسکتا ہے کہ تینوں اداروں سے دوکلومیٹر کے فاصلے پر اسلام آباد کے معروف میڈیکل سٹورزپر جان بچانے والی جعلی ادویات اصل ادویات کے نام اور پیکنگ سے فروخت کی جارہی ہیں مگر کسی کی جرات نہیں کہ موت کے سوداگروں کا ہاتھ روک سکے ۔

وہ گذشتہ ایک سال سے جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والوں کے خلاف کے سرپیکار ہے۔ وزارت صحت کا دروازہ کھٹکھایا مگروہاں ملک بھر میں جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے والوں کے سرپرستوں کو بیٹھے پایا۔ ایف آئی اے میں ثبوتوں کے ساتھ درخواست دی مگر تاحال ایف آئی اے افسران کا ضمیر بیدارکرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اسلام آباد میں نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ادویات خریدنے سے قبل بیشتر افراد ادویات سازی کی صنعت سے وابستہ شخصیات سے دریافت کرتے ہیں کہ اصل دوا کس سٹور سے ملے گی۔ ملک کےدیگر علاقوں کی صورتحال کا اندازہ تو پھر لگایا ہی جاسکتا ہے۔

ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں میں قابلے کی ایسی فضا پیدا ہوچکی ہے کہ ہر کمپنی مالک راتوں رات کروڑ پتی بننا چاہتا ہے۔ ادویات کی مارکیٹنگ کیلئے ایسے ہتھکنڈے استعمال کئے جارہےہیں کہ اوسان خطا ہوجائیں۔ انسانی مسیحاؤں کو ہرماہ ادویات لکھنے کا ٹارگٹ دیا جاتا ہے جس کے عوض ڈاکٹروں کو لگژری کار، غیر ملکی دورے، بچوں کی شادیوں کے تمام تر اخراجات اور ماہانہ پیشگی نقد رقم اداکی جاتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ عمرے کی سعادت حاصل کروانے کا بھی انتظام کیا جارہا ہے۔ نجی وسرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کو ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں نے اپنےچنگل میں ایسا جکڑ رکھا ہے کہ مسلح افواج کے زیر انتظام چلنے والے ہسپتالوں میں بڑے عہدوں پر براجمان ڈاکٹر بھی گناہ کی اس گنگنا میں نا صرف ہاتھ دھونے بلکہ مکمل اشنان کرنے کے لئے تیار ہیں -۔

جعلی ادویات کی تیاری زوروں پرہے تو دوسری جانب نیب نے ادویات کی قیمت میں بے جا اضافے کا سکینڈل بھی بے نقاب کیا ہے۔ چند کمپنیوں نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کیس ملی بھگت سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام سے ایک ارب روپے بٹورے۔ ایف آئی اے کے برعکس نیب خلاف توقع حرکت میں آئی۔ 40کروڑ روپے وصول، پرائسنگ کمیٹی کے سیکرٹری اور کمپنوں کے مالکان گرفتار کئے جاچکے ہیں مگر جعلی ادویات تیار اور فروخت کرکے انسانی جانوں سے کھیلنے والے دکھوں اور موت کے سوداگر دندناتے پھررہے ہیں۔

سسکتے دلوں کے کرب سے اٹھتی فضائے اشک بھلا ایوانوں میں فراٹے بھرتے اے سی اور خودغرضی کی دیواروں کے پار کب محسوس کی جا سکتی ہے ۔لالچ کی بھینٹ چڑھی انسانیت مدد کے لٗے کہاں دیکھتی ہے؟ کیونکر دیکھتی ہے؟ارے کتنا کانچ بکھر گیا نہیں یہ تو لہو تھا ۔ یہ تو سانسیں بکھری ہیں ٹوٹنے والا شیشہ نہیں ایمان تھا جو بک گیا۔ ۔ انسان مرنے لگے اور ادارے سانسیں لینے لگے ۔ مظلوم زندہ قبر میں اتارے جانے لگے اور رول ماڈلز کے مشروب میں انسانی خون کی مہک اٹھنے لگی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے