ہٹلر! ہم شرمندہ ہیں

ایڈولف ہٹلرکا نام اورظلم ،بربریت اور قتل و غارت گری جیسے الفاظ ہم معنی سمجھے جاتے ہیں۔یورپی ملک آسٹریا میں ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولنے والے اس سفاک انسان نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں اورشاطر دماغ کی بدولت نہ صرف جرمنی کی نیشنل سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی (نازی)میں اپنی جگہ بنائی بلکہ ملک کے سب سے بڑے عہدے چانسلر تک جا پہنچا۔

ایڈولف ہٹلر نے اس عہدے پر فائز ہوکر جرمنی کی ترقی اور خوشحالی ساتھ ساتھ کئی ممالک میں فتح کے جھنڈے گاڑے ۔ ہٹلر کے دور میں ہی جرمنی یورپ کے بیشتر حصے پر قابض رہا لیکن ہٹلر کو ان اچھے کارناموں کی بدولت دنیا میں شہرت نہیں ملی بلکہ ان کی شہرت کی وجہ وہ سفاکیت اوردرندگی بنی جو دنیا آج تک نہ بھول سکی ۔

کرہ ارض پر برپا ہونیوالی دوسری جنگ عظیم کاباعث بننے والے ہٹلر نے یہودیوں پراس دور میں زمین اتنی تنگ کی کہ انہیں جان بچانے کےلیے کہیں جگہ نہیں ملی اور ان پر اتنے ظلم ڈھائے کہ آج تک اس کی مثال نہیں مل پاتی۔ہٹلر کی دور حکومت کے دوران ایک کروڑ11 لاکھ افراد کو قتل کردیا گیا ۔

یہودی ہٹلر کی اس سفاکیت اور قتل عام کو ’’ہولوکاسٹ‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔آج بھی دنیا میں کہیں بھی کوئی سفاکیت ، ظلم و بربریت ، قتل وغارت گری کا واقعہ پیش آتا ہے تو ہٹلر کا نام ذہن میں ضرور آتا ہے بلکہ مثالیں تک دی جاتی ہیں ۔

عصر حاضر کا ایڈولف ہٹلرکون ہے ؟؟ بحیثیت کشمیری میری لیے اس سوال کا جواب دینا مشکل نہیں ہے کیونکہ ظلم اور بربریت کا بازار جو کشمیر میں کئی دہائیوں سے گرم ہے اس کو دیکھ کر دنیا کاکوئی اورخطہ آخر کیسےمیرے ذہن میں آسکتا ہے۔

بھارتی فوج نے 1989 سے لیکر تاوقت ایں جو مظالم کشمیریوں پر ڈھائے اور نئے نئے مظالم ایجاد کیے وہ اگر چہ نازیوں کے کرتوتوں کے مقابلے میں تھوڑے ہیں مگرجمہوریت ،انسانیت، اورکشمیریت کا راگ پیٹنے والوں کےہاتھوں یہ مظالم زیادہ بھیانک ہیں ۔ویسے تو بھارتی مظالم کی داستان 1947 سے ہی شروع ہوتی ہے جب بھارت نے ہندو انتہا پسند جماعت آرایس ایس کے بلوائیوں اورغنڈوں کے ذریعے جموں میں ایک ہی دن میں اڑھائی لاکھ مسلمانوں کو ذبح کیا ۔پورے علاقے میں چن چن کر مسلمانوں کو اکٹھا کرکے تہہ و تیغ کیا گیا۔

یہ کشمیرمیں برپا ہونے والا بھارت کے ہاتھوں پہلا ہولوکاسٹ سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے بعد سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا لیکن خون کی تازہ ہولی تب شروع ہوئی جب اہل کشمیر نے وطن کی آزادی کے لیے مسلح تحریک شروع کی ۔تین دہائیوں سے قتل و غارت کا سلسلہ تاحال نہ تھم سکا۔

رواں سال جولائی سے لیکر اب تک صرف وادی کشمیر میں ایک سو سے زائد افراد شہید ہوچکے ہیں ۔ شہید کیے جانے والے مسلح افراد یا جنگجونہیں تھے بلکہ عام شہری تھے ، نہتے انسان تھے اور ان میں سے زیادہ تر نوجوان اور طالب علم تھے۔حالیہ انتفادہ کے دوران ہی بھارتی فوج نے انسانوں کو بصارت سے محروم کرنے والے جدید ہتھیار پیلٹ گن کا بے دریغ استعمال کیا جس سے 15 ہزار سے زائد کشمیری زخمی ہوئے ہیں ۔ زخمیوں میں سینکڑوں ایسے ہیں جو آنکھوں پر پلٹ لگنے سے بینائی سے محروم ہوچکے ہیں ۔

چار ماہ تک جاری رہنے والا یہ ہولوکاسٹ ابھی رکا نہیں تھا کہ وقت اور خطے کی جارح قوت نے بندوقوں کے دہانے سیز فائر لائن(کنٹرول لائن )کی طرف موڑ دیئے ۔ ریاست جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے والی عارضی سرحد لائن آف کنٹرول پر گزشتہ دو ماہ سے پاکستان اور بھارت کی فوجیں آمنے سامنے ہیں ۔ یہ کھیل اس وقت شروع ہوا جب اوڑی میں بھارتی فوج کیمپ پر حملہ ہوا۔ پھر بھارتی فوج نے سرجیکل اسٹرائیک کے نام پر کنٹرول لائن پر سب سے بڑی اور نئی طرز کی کارروائی کرنے کا دعویٰ کیا ۔

سرجیکل اسٹرائیک تھی یا نہیں یہ الگ موضوع ہے لیکن تب سے لیکر آج تک کشمیرکے سبزہ زاروں کے علاوہ کشمیرکے بلند پہاڑ بھی میدان جنگ بن گئے ۔ وادی کشمیر کی شہری آبادی میں نوجوانوں کے قتل و عام کے علاوہ اب کنٹرول لائن کی دونوں طرف کشمیریوں کو قیمت چکا نا پڑرہی ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اب تک بھارتی فوج کی بلااشتعال فائرنگ اور سول آبادی پر گولہ باری سے 26 شہری جانیں گنوا چکے ہیں جبکہ 107 زخمی ہوکر معذور ہوچکے ہیں ۔

یہ جا بجا بکھرا ہے میرے جسم کا لہو
کیوں ہوتا ہے شہید میرا وطن روز؟

کنٹرول لائن پربھارت کی جارحیت اور سفاکیت کاعالم یہ ہے کہ 23 نومبرکا سورج ابھی طلوع ہی نہیں ہوا تھا کہ کہ مارٹر گنوں اور گولیوں کی گن گرج سے سات کلو میٹر پر پھیلی سیز فائر لائن سے ملحقہ آبادی کی نیند ٹوٹ چکی تھی۔ بھمبر سے تاؤبٹ تک پھیلی خونی لکیر پر واقع تمام سیکٹرزپر گولیوں اور گولوں کی بارش کردی گئی۔

سورج کی پہلی کرن پھوٹی تو نیلم سے مسافروں کو لیکر بس مظفر آباد روانہ ہوگئی ۔ ابھی اس بس نے آدھا سفر طے نہ کیا تھا کہ اس میں سوار دس لوگوں کو بھارتی فوج نے آخری سفر پر روانہ کردیا۔امن اور خوبصورت وادی نیلم کے علاقے لوت میں بھارتی فوج نے بس پر مارٹر گولہ فائر کردیا جس سے موقع پر نو مسافر شہیداور ایک ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ اسی بس پر سوار 17 بدقسمت مسافر تاحیات معذور ہوگئے ۔

لوات دریائے نیلم (دریائے کشن گنگا)کے بالکل کنارے پر واقع ہے۔ یہاں یہی دریا ایل او سی ہے یعنی دریائے کشن گنگا ہی کشمیر کو تقسیم کرتا ہے ۔ دونوں ملکوں کے فوجی بینکر آمنے سامنے ہیں ، شاہراہ نیلم اس مقام پر پوائنٹ بلیک رینج (Point-blank range)میں آتی ہے ۔

22 نومبر کی صبح ہی ضلع کوٹلی کے علاقہ نکیال میں بھی ایک کشمیری بھارتی جارحیت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ یہ وہی نکیال ہے جہاں چند روز قبل 4 معصوم بچے عصر حاضر کے ہٹلر کی سفاکیت کا شکار ہوئے ۔ راولاکوٹ کے بٹل سیکٹر میں بھی کئی افراد جان کی بازی ہارچکے ہیں ۔ اس علاقے میں گھر کیا سکول اور مساجد تک محفوظ نہ رہ سکیں ۔ لوگ علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات کے طرف نکل مکانی کرگئے ۔

وادی کے سبزہ زاروں اور خونی لیکر کے پہاڑوں اور جنگلوں میں کشمیریوں کے خون کا کھیل آج کی بات نہیں تین دہائیوں کا قصہ ہے ۔ اپنے ہی گھر میں پاک بھارت انا کی بھینٹ چڑھنے والے لوگوں کا آخر کیا قصور ہے؟ قصور اتنا ہے کہ یہ لوگ جمہوریت کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے ملک کے جابرانہ اور غیر قانونی تسلط سے نجات چاہتے ہیں ۔

اس ایک مطالبے پر اب تک ساڑھے تین لاکھ لوگ موت کا ایندھن بن چکے ہیں ۔بھارتی سرکارکشمیریوں سے اس جائز اور قانونی مطالبے پراتنا حواس باختہ ہوچکی ہے اور انتقام میں اتنا آگے نکل چکی ہے کہ اب تو اس کے وزیر دفاع کی طرف سے قابض فوج کو یہ حکم نامہ مل چکا ہے کہ گولی چلاؤ اور مار ڈالو۔

’’ گولی چلاؤ اور مار ڈالو‘‘ والا حکم ہٹلر نے جرمن فوج کو اس وقت دیا تھا جب جنگ عظیم دوم عروج پر تھی ۔ چونکہ ہٹلر یہودیوں کابرملا مخالف تھا اور کھلم کھلا ان کے قتل عام کا اعلان کرچکا تھا ۔ لیکن عصر حاضرمیں جب جمہوریت کا ڈھول پیٹا جارہا ہے ، جب انسانی حقوق کے احترام کا درس دیا جاتا ہے ، جب دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کی باتیں کی جاتی ہیں ایسے میں اگر کسی ملک کا وزیر دفاع اپنی فوج کو دیکھتے ہی گولی ماردینے کا آرڈر دے توہٹلر اور اس میں کیا فرق رہ جاتا ہے ۔ بلکہ اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو جمہوری لبادے میں آج کا ہٹلر ماضی کے ہٹلر سے زیادہ خطرناک اور سفاک ہے ۔

بدقسمتی سے یہ ہٹلر کشمیریوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ رہا ہے اور کشمیریوں کے لہو سے ہی تاریخ میں ظلم و بربریت کے باب رقم کرہا ہے۔ چونکہ جرمن ہٹلر کے کالے کرتوتوں کا ریکارڈبھارتی ہٹلر کشمیر کی سرزمین پر توڑ رہا ہے ایسے میں اصل ہٹلر کی روح تڑپ رہی ہوگی اور کشمیریوں کی بے بسی کو دیکھ کر گمان بھی کررہی ہوگی کہ اس مظلوم دھرتی پربھارت مجھ سے جڑے اعزاز کو اپنے نام کررہا ہے ۔

یہاں میں اپنی قوم کی محکومی ، بے بسی اور مظلومیت کودیکھ کر ہٹلر کی روح سے یہی کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ہٹلر ہم شرمندہ ہیں۔ کیوں تمہارا جانشین اب بھارت ہے اوروہ آپ سے آگے نکل چکا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے