* فٹ پاتھ *

ابھی دنیا سے جانے والے اپنے صحافی بزرگوں اور دوستوں کے بارے مزید تحریر کو روک کر کسی اور موضوع پر لکھنے کا سوچ رہا تھا کہ پرویز حمید صاحب اور زائد علی خان صاحب کی رحلت کی خبر بھی مل گئی دنیا سے جانے والی ان عظیم ہستیوں کے بارے لفظوں اور کالم کی جگہ کی قید کی وجہ سے شا ئد میں اپنے خیالات کو صیح طرح نہ لکھ پایالیکن میرا پڑھنے والوں سے وعدہ ہے کہ میں خدا کی نعمتوں سے مالا لال ان شخصیات کے بارے لکھتا رہوں گا موضوع تبدیل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب سے ماضی کا ذکر چھڑا میرے کانوں میں ان سب کی آوازیں گونج رہی ہیں اور میں ان سے ہی باتیں کر رہا ہوں میری کوشش ہو گی پڑھنے والوں کو تفصیل بھی آئندہ تحریر میں ضرور بتاؤ ں گا، اب میں آج کے اہم مسئلے کی طرف آتا ہوں یہ نہ تو سیاسی پرابلم ہے اور نہ حکمرانوں کی آپس کی لڑائیوں کے بارے میں ہے ایک سادہ اور سماجی مسئلے کی نشاندہی کر رہا ہوں جس کا ہماری زندگی سے گہرا تعلق ہے ۔ لیکن ہم اس کے بارے یا تو سوچتے نہیں یا پھر جان بوجھ کر انجان بن گئے ہیں ہم ان باتوں میں وقت ضائع کر رہے ہیں جن کے حل ہونے سے ہماری زندگیوں پر کوئی اثر پڑنے والا نہیں۔

کبھی ہم جنرل مشرف کے ملک سے باہر جانے اور کبھی ایان علی کے ڈالر سکینڈل پر بحث کرتے نظر اتے ہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے جتنی کوریج ایان علی کو دی شاید اتنی پبلسٹی آصف علی زرداری کو دوران جیل عدالت میں پیشی کے موقع پر بھی نہ ملی ہیملک کے طول وعرض میں غیر معیاری پراڈکٹ کی فروخت کی طرح صحافت لاحاصل بحثوں میں الجھ چکی ہے خیر اج جو تحریر حوالہ قلم کر رہا ہوں وہ ہمارے فٹ پاتھوں کے متعلق ہے جو اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے مختلف حکومتوں نے فٹ پاتھ خوبصورت بنانے کے تو بہت اقدامات کیے لیکن ان کو بچانے کی کوششیں نہ ہونے کے برابر کی گو ہمارے ملکی قوانین میں فٹ پاتھ کے متعلق سب کچھ واضح طور پر لکھا گیا لیکن پرانے وقتوں کا سرخ فیتہ اور آج کی بیوروکریسی عوام کی خواہش اور نہ ان کی سہولت کو مدنظر رکھتی ہے بلکہ اپنی ذاتی خواہشات اور احکامات کو اہمیت دیتی ہے ہمیں قانون کی کتابوں میں تو سب کچھ ملتا ہے لیکن ان کتابوں کو کھولنے کی زحمت کون کرے گا میں نے فٹ پاتھ کے متعلق تازہ ترین صورتحال سے آگاہی کے لیے ملک بھر سے معلومات حاصل کیں ان معلومات کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی کہ ہمارا معاشرہ اس اہم مسلے سے ناآشنا ہے ہم اگر ڈرائیونگ لائسنس بنوانے جائیں تو اس وقت یہ بات یاد کر لیتے ہیں کہ ( پیدل چلنے کے لیے ہمیشہ فٹ پاتھ کا استعمال کرناہے اور ہمیشہ سڑک کے دائیں طرف فٹ پاتھ پر چلنا ہے تا کہ سامنے سے آنے والی ٹریفک کو با آسانی دیکھا جاسکے۔)ہم یہ سبق صرف لائسنس حاصل کرنے کے لیے یاد کرتے ہیں اور پھر وہی کچھ کرتے ہیں جو ہماری سڑکوں پر سورج کی روشنی اور چاند کی مدہم کرنوں میں ہوتا ہے

میری معلومات کے مطابق پورے ملک میں اگر آپ کو کہیں پر فٹ پاتھ نظر آتی ہے تو وہ ہمارا کینٹ کا ایریا ہے جہاں پر آپ پوری روآنی سے فٹ پاتھ پر چل سکتے ہیں سوچنے کی بات ہے اگر ہم ایک مخصوص علاقے میں قوانین کی پابندی کروا سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ملک کے باقی حصے پر اس قانون پر عمل نہیں ہو رہا وہ کون سا مافیا ہے جس نے ہماری زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں یہ بھی یاد رہے کہ فٹ پاتھ ہر مقام پر موجود ہیں لیکن تجاوزات کی زد میں ہیں ان کو تجاوزات سے آزاد رکھنے کے لیے باقاعدہ محکمہ بھی موجود ہے اس میں موجود افسران اور چھوٹے ملازمین روزانہ تجاوزات کے خلاف کارروائی کی غرض کے لیے آپریشن بھی کرتے ہیں فٹ پاتھوں سے سامان بھی اٹھایا جاتا ہے لیکن آدھآاپریشن مکمل ہوا اور ادھر سامان پھر فٹ پاتھ پر سج جاتا ہے کسی چھوٹے سے چھوٹے تاجر کو بھی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے خوف محسوس نہیں ہوتا اس کی وجہ صرف اور صرف وہ کرپشن ہے جو ہمارے سرکاری اہلکار پوری دلیری سے کرتے ہیں آپ خود اندازہ کریں کہ اگر فٹ پاتھ پر کاروبار کرنے والا کوئی شخص کسی بااثر شخصیت کا تعلق والا ہو اور وہ اسے فٹ پاتھ سے اٹھا کر کوئی مہنگی جگہ الاٹ کر دے تو وہ کس طرح قانون پسند ہو گا،

اس بارے ملک کی اعلی عدلیہ بھی احکامات جاری کر چکی ہے کراچی کے ایک کیس میں سپریم کورٹ نے حکومت کو فٹ پاتھ تجاوزات سے پاک اور انکے اوپر بورڈنگز کو ہٹانے کا حکم دیا تاکہ انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جا سکے سپریم کورٹ نے تو حکم صادر کر دیا اور جب عملدرامد کا وقت آیا تو سیاسی مجبوریاں آڑے آگیں کیوں کہ ایک انسانی جان کسی کی جیب میں جانے والے لاکھوں روپے سے زیادہ اہم تو نہیں ،کیا کسی نے اس اہم مسئلے پر کوئی ٹاک شو کیا نہیں ایسا کیوں کر کیا جائے گا یہ تو عام آدمی کا مسئلہ ہے ۔فٹ پاتھ پر تو غریب مرتا ہے کسی حکمران کی جان نکلے تو قانون حرکت میں اے۔

فٹ پاتھ کی کیا اہمیت ہے اور سمجھ دار لوگ اس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں وہ بیان کرنا ضروری ہے 1990 کی دہائی میں مقامی روزنامے میں رپورٹر کی حثیت سے کام کرتے ہوئے مجھے سابق نگران وزیراعظم معراج خالد صاحب کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا میں جب ان کے لاء چیمبر دیال سنگھ مینشن پہنچا تو وہ گھر کی طرف روانہ ہونے کے لیے تیار تھے مجھے کہنے لگے تو پیدل چلتے ہوئے ہی گفتگو کر لیتے ہیں میرے لیے انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی میں ان کے پچھے ہو لیا وہ اہستہ اہستہ سیڑھاں اتر کر فٹ پاتھ پر چلنے لگے اور مجھے کہا کہ اپنے سوالات کا آغاز کرو فٹ پاتھ پر ہی انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے برابر کر لیا سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا ایک دو بار میں نے گفتگو کے دوران فٹ پاتھ سے اتر کر سڑک پر چلنے کی کوشش کی لیکن ملک صاحب نے میرے ہاتھ کو ڈھیلا نہیں چھوڑا اور میں دوبارہ خود ہی فٹ پاتھ پر آ جا تا اس طرح ہم دونوں نے مال روڈ کی سروس روڈ کراس کر کے مال روڈ کے فٹ پاتھ پہ آا گئے اور ہمارا سفر ریگل چوک کی طرف شروع ہو گیاان کے دھیمے لہجے اور پرسکون قدموں کی چاپ کے ساتھ ان کے ہاتھوں کا لمس مجھے آج بھی محسوس ہو رہا ہے اس دوران مجھے کہنے لگے سڑک کی طرف نہ اترو فٹ پاتھ کا استعمال کرواس زمانے میں فٹ پاتھ صرف پیدل چلنے والوں کے لیے مختص تھے فٹ پاتھ پر نہ تو کائی گنے کا رس نکالنے والا اور نہ ہی کوئی اور دوکان سجی نظر آتی تھی عوام فٹ پاتھ پر صبح کے وقت اپنے کاموں کے سلسلے میں اور سورج کے غروب ہونے پر سیر کی غرض سے یہاں پیدل چلتے تھے۔خیر میں اور ملک صاحب نے مال روڈ ریگل چوک کا سگنل بند ہو نے پر سڑک کراس کی اور ہال روڈ کے ٖفٹ پاتھ پر چل کے ہال روڈ کی پہلی ہی دائیں مڑنے والی گلی سے ان کی رہائش گاہ کی طرف چل پڑے یہاں سے بائیں جانب ان کا گھر تھا جہاں پر پہنچتے ہی میں نے اپنا آخری سوال کیا اور اجازت چاہی ملک صاحب نے چائے کی دعوت دی لیکن وقت کی کمی کے باعث میں معذرت کی اور وہاں سے روانہ ہوا ملک معراج خالد وکیل بھی تھے اس لیے پیدل چلنے والے راستے پر چل کر قانون پر عمل کیا تو دوسری طرف حکومت وقت نے بھی پیدل چلنے والوں کا خیال رکھتے ہوئے فٹ پاتھ پر کوئی تجاوزات قائم نہیں ہونے دی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمانے کی روایات میں تبدیلی آئی اور ٖ فٹ پاتھوں پر ٹیلے لگنے شروع ہو گئے ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں اہم شاہراہوں پر فٹ پاتھ نہ ہونے یا ان پر تجاوزات اور ان کو استعمال نہ کرنے کی وجہ سے سالانہ سات ہزار افراد ا پنی زندگی گنوا لیتے ہیں لیکن حکومت خاموش تماشائی ہے اس کے اپنے مفادات ہیں وہ صرف اپنے گزرنے کے راستوں کی حالت سنوارنے کی دھن میں مگن ہے۔بقول شاعر
بازیچہء اطفال ہے دنیا میرے آ گے
ہوتا ہے شب و روز تماشہء میرے آگے

ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر کی ہزاروں ایکڑ اراضی جو فٹ پاتھوں کے لیے مختص ہے ان پر قبضہ مافیا کا راج ہے اہم کاروباری مراکز پر فٹ پاتھ کی جگہ کا کرایہ لاکھوں میں اور اگر متعلقہ محکمے سے ساز باز کر لی جاے تو فٹ پاتھ کی جگہ فٹوں کے حساب سے کرڑوں میں فروخت ہوتی ہے ۔ یہ سب سرخ فیتے کا کمال ہے اور اب تو سرخ فیتہ صرف بیوروکریسی میں ہی نہیں بلکہ ہر وہ شخص جو اپنے مفاد کے لیے دوسروں کی زندگیاں برباد کر رہا ہے وہ سرخ فیتے کا روپ دھار چکا ہے اور سرخ فیتے سے عام آدمی اور مراعات یافتہ طبقے کے درمیان ایک اسی فیتے سے لائن لگا دی جاتی ہے تاکہ کوئی ضرورتوں کا پسا ہوا انسان سرخ فیتے کی دوسری طرف جانے کی جر ا ت نہ کرے اور شاعر نے کیا خوب تصویر کشی کرتے ہوے کہا ہے کہ
شہر کے فٹ پاتھ پر کچھ چبتے منظر دیکھنا
سرد راتوں میں کبھی گھر سے نکل کر دیکھنا

میری پاکستان اور بیرون ملک صحافیوں اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سے اس موضوع پر بات ہوئی تو اکثر کا کہنا تھا کہ تم ملک کی سیاسی ، جمہوری دینی اور سوشل زندگی پر اظہار خیال کرو لیکن جب ان کو شہروں اور شاہراوں پر فٹ پاتھ نہ ہونے کی وجہ سے انسانی جانوں کے ضائع ہونے کی تفصیل بتلائی تو وہ حیران ہوئے کہ سالانہ ہزاروں جانوں کا ضائع ہونا لمحہ فکریہ ہے۔فٹ پاتھ کے متعلق ایک اور واقعہ جس نے مجھے فٹ پاتھ کی اہمیت کا احساس دلایا وہ کچھ اس طرح ہے کہ مال روڈ پر ہی زم زمہ توپ کے سامنے پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس کے کارنر کے فٹ پاتھ پر ملک کی ممتاز دینی شخصیت مولانا عبدالستار خان نیازی صاحب جا رہے تھے ویسے تو ہمارا ان کا گھریلو تعلق تھا لیکن شعبہء صحافت میں آنے کے بعد میری نیازی صاحب سے ذاتی نیاز مندی بھی تھی اور وہ خبر کے لیے مجھ پر ہمیشہ شفقت فرماتے اور کئی بار ایسا ہوا کہ لاہور کا تمام پرنٹ میڈیا میری تلاش میں ہوتا کہ نیازی صاحب نے کیا بیان جاری کیا ہے ۔بات دوسری طرف چلی گئی میں نے نیازی صاحب کو فٹ پاتھ پر جاتے دیکھا تو ان کے ساتھ ہو لیا سلام عرض کی جواب کے بعد انہوں نے مجھے فٹ پاتھ کے اوپر چلنے کا کہا میں نے عرض کی کہ ٓاپ کو کہا ں جانا ہے رکشہ یا ٹیکسی لے لیتے ہیں لیکن انہوں انکار کیا اور کہا یہ ساتھ ہی ایجوکیشن کے آفس جانا ہے اور ہم دونوں فٹ پاتھ پر ہی چلتے ہوئے انارکلی کی طرف سے آ فس کے اندر داخل ہو گئے نیازی صاحب کو ان کے ایک ملنے والے کے پاس چھوڑ کر میں نے اجازت چاہی لیکن باہر نکل کر سڑک پر چلنے کی بجاے فٹ پاتھ کا راستہ استعمال کیا سوچتا ہوں اگر گزرئے ہوے لمحات میں ملک معراج خالد اور نیازی صاحب نے مجھے فٹ پاتھ پر چلنے کو نہ کہا ہوتا تو شائد مجھے سڑک پر لگے ٹریفک نشانات کے باوجود اس کی اہمیت کا اندازہ نہ ہوتالیکن آج میں پیدل تو کم چلتا ہوں لیکن مجھے ان فٹ پاتھوں کی تلاش ہے جو منظر سے غائب ہو چکے ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنے والے دور میں ہم سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھ تو درکنار یہ بورڈ لگے ہوے دیکھنے کو ملیں کہ سڑکوں پر چلنا منع ہے ،کوئی شیر شاہ سوری طرز کا حکمران ہی آے گا تو عوام کے لیے سڑکوں پر سہولتیں میسر ہوں گی۔

حکمرانوں کے لیے یہ مشورہ ہے کہ وہ اربوں روپے خرچ کر کے اپنے ووٹوں میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوتی لیکن اگر وہ عوام کی سہولت کے لیے فٹ پاتھوں کو بحال کر دیں تو ووٹوں کے ساتھ دعائیں بھی مل جائیں گی یہ اب حکمرانوں پر منحصر ہے کہ ان کو صرف ووٹ چاہیں یا دعائیں بھی ۔کسی بھی چیز کی خوبصورتی اس کی بنیاد سے وابستہ ہوتی ہے آپ اگر عمارتوں کو رنگ روغن کر کے سجاتے ہیں تو ان کو دیکھنے والوں کے لیے کوئی جگہ بھی تو دیں ایسا نہ ہو کہ سڑک پر کھڑے ہو کر عمارتوں دیکھ رہے ہوں اور آپ کو کوئی منچلہ روندتا ہوا چلا جائے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ماضی کے درویش شاعر ساغر صدیقی کی موت فٹ پاتھ پر ہوئی تھی اس کی کیا وجوہات تھیں یہ ایک الگ بحث ہے پر سوچئیے آج کا دور ہوتا تو شائد ساغر کو مرنے کے لیے فٹ پاتھ پر بھی جگہ نہ ملتی اور پھر ساغر یہ ہی کہتا ہوا دنیا سے چلا جاتا کہ

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے