تجارت میں حقوق کی ادائیگی
اسلامی نقطہ نظر سے کائنات انسانی کی عملی زندگی کی دو محور ہیں : پہلا حقوق اللہ جسے عموما عبادات کہا جاتا ہے اور دوسرا حقوق العباد جسے معاملات اور معاشرت سے تعبیر کیا جاتا ہے، انسانی نظام حیات کے تمام قواعد و ضوابط اور اصول و قوانین کی بنیاد انہی دو حقوق کے گرد گھومتی ہے ، باقی دل میں خوف خدا کا ہونا ایمان کا خاصہ ہے اور طبیعت میں نرمی اور شفقت اخلاق حسنہ کا مظہر ہے۔
عام طور پر یہ غلط فہمی بھی رہتی ہے کہ پہلے حقوق العباد ادا کرلو پھر حقوق اللہ پر عمل کیا جائے گا ، سو یہ غلط فہمی ایسی بڑھی کہ لوگ حقوق اللہ کو تو چھوڑ بیٹھے اور حقوق العباد میں بھی اپنی خواہش نفس پر چل پڑے جبکہ یہ بات واضح رہے کہ حقوق العباد بھی درحقیقت حقوق اللہ ہی کا ایک حصہ ہے کیونکہ ان کی ادائیگی کا حکم بھی اللہ تعالی نے دیا ہے ، دوسری طرف یہ بھی واضح رہے کہ حقوق اللہ در حقیقت حقوق نفس ہیں ، شریعت نے اپنے نفس کے حقوق کی بھی ترغیب دی ہے ، سو اپنے حقوق چھوڑ کر صرف دوسروں کے حقوق ادا کرنا کہاں کی دانشمندی ہے ، دونوں قسم کے حقوق کی ادائیگی بندگی کا حقیقی مقصد ہے ، قرآن کریم میں تخلیق ِانسانیت کا مقصد عبادت خداوندی اور معرفت ربانی بتلایا گیا ہے ، اب اس بندگی کی دو صورتیں ہیں :
ایک تو وہ بندگی ہے جو براہ راست عبادت ہیں ، یعنی جن کو اعمال عبادت اور عبادات کہا جاتا ہے، ان اعمال کی ادائیگی سے اپنے نفس کا تزکیہ مقصود ہے۔
دوسرے وہ بندگی ہے جو بالواسطہ عبادت ہیں ، جن کو صفائی معاملات اور حسن معاشرت کہا جاتا ہے، اس سے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف حکم ہے ، بندہ کی زندگی بیک وقت دونوں کے گرد گھومتی ہے، یہ سب مل کر دین بنتا ہے ، اللہ تعالی کو اپنے بندوں سے محبت ہے، اس لئے اس ذات اقدس نے اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے بندوں کے حقوق کو بھی رکھا ہے ، دوسری طرف حقوق العباد میں بھی غفلت بہت دیکھی گئی ہے ، ماضی قریب میں امت کے حکیم اور وقت کے نباض حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ان دونوں حقوق پر مختلف جہت سے رہنمائی فرمائی ہے ، چند اہم ملفوظات پیش خدمت ہیں :
حقوق کی تقسیم ، حقوق اللہ اور حقوق العباد اور حقوق اللہ کی طرف ہے ، اس کو کچھ لوگوں نے یوں سمجھ رکھا ہے کہ حقوق العباد محض اور حقوق اللہ محض ، تو یہ غلط ہے بلکہ حقوق العباد مع حقوق اللہ ہیں اور حقوق العباد میں حقوق اللہ اس واسطے ہیں کہ ہر حق العبد میں اللہ تعالی کی طرف سے نہی (ممانعت ) بھی ہوتی ہے اور اس نہی (ممانعت ) میں حق اللہ کی اضاعت ہے تو اب یہاں سے معلوم ہو گیا کہ حق العبد میں صرف بندہ کے معاف کرنے سے معافی نہ ہو گی ، بلکہ توبہ بھی کرے کیونکہ اللہ کا حق باقی ہے۔
سورہ مزمل کی آیت میں (سبحا طویلا) بطور جملہ معترضہ کے مخلوق کے حقوق کی طرف اشارہ ہے اور مخلوق کا حق یہ ہے کہ ان کو نصیحت عام، عمومی تربیت دی جائے لیکن اس حق ِخلق میں حق ِخالق کو نہ بھولنا چاہیئے ، چنانچہ یہاں بھی مخلوق کے حقوق کے بیان سے پہلے (قم اللیل ) میں حقوق اللہ بیان کئے گئے۔
آداب معاشرت میں کمی کرنا بھی حقوق اللہ کو ضائع کرنا ہے کیونکہ ان کا حکم بھی تو اللہ تعالی نے فرمایا ہے اور حقوق اللہ کے ترک سے کسی دوسرے کو ضرر نہیں پہنچتا ، صرف اپنے ہی نفس کو ضرر پہنچتا ہے ، کیونکہ حق تعالی تو غنی ہیں، تو سو اپنا ہی نقصان کر رہا ہے ، پس اس دقیقہ (نکتہ) پر نظر کرکے کہ حقوق اللہ در حقیقت حقوقِ نفس ہیں بخلاف حقوقِ معاشرت کہ ان کے ترک کرنے سے دوسرے شخص کو نقصان پہنچتا ہے اور حقوق اللہ گو عظمت کے اعتبار سے مقدم ہیں لیکن اہتمام اور احتیاج کے اعتبار سے حقوق العبد ہی مقدم ہے۔
ایک موقع پر فرمایا کہ عارفین اور کاملین کی شان انبیاء علیہم السلام کے مشابہ ہوتی ہے ، وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کو بھی جمع کرتے ہیں، اس لئے یہ حضرات جامع بین الاضداد کہلاتے ہیں۔
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ بزرگی اور ولایت الگ چیز ہے اور ان کا حاصل ہونا بھی آسان ہے ، اس لئے کہ اس کا واسطہ ایک بہت بڑے کریم اور رحیم ذات سے ہے بندہ کی ادنی توجہ سے فضل وہ حاصل ہوجاتی ہے ، مشکل چیز تو آدمیت اور انسانیت کا پیدا ہونا ہے کیونکہ اس کا تعلق مخلوق سے ہے، اسی کے متعلق حقوق العباد ہیں۔
ایک مولوی صاحب نے بیعت کی درخواست کی تو اس پر حقوق العباد کی ادائیگی کی تاکید فرمائی اور فرمایا کہ فلاں مولوی صاحب بیعت ہونا چاہتے ہیں ان کا خط آیا تھا، اس میں بیعت کی درخواست تھی ، میں نے لکھا کہ حقوق العباد تمہارے ذمہ کس قدر ہیں؟ آج اس کا جواب آیا ہے، فہرست لکھی ہے ، اس پر فرمایا کہ دوسری جگہ (یعنی دوسرے مشائخ کے ہاں) وظیفہ بتلا کر قطب غوث بنا کر الگ کرتے ، یہاں بال کی کھال نکالی جا رہی ہے ، عام طور سے لوگوں کو ان چیزوں کی فکر نہیں الا ماشاء اللہ۔
تجارت بھی دین کا وہ شعبہ ہے جس سے دونوں قسم کے حقوق وابستہ ہیں ، اس میں بھی ہر تاجر و ملازم پر ہر وقت دونوں قسم کے حقوق متوجہ ہوتے ہیں ، انکی ادائیگی سے ہی تجارت کا حقیقی فائدہ ہوتا ہے ، دنیا کا بھی اور آخرت کا بھی ۔
[pullquote]مفتی سفیان بلند اسلامک اسکالر ہیں اور اپنا وسیع کاروبار بھی رکھتے ہیں ، تجارت سے متعلق شرعی و دینی امور کی آگاہی کے لئے آپ نے یہ سلسلہ شروع کیا ہے ۔ آئی بی سی اردو ” اے تجارت کرنے والو ” کے عنوان سے اسے قسط وار شائع کر رہا ہے ۔[/pullquote]